Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Maa, Rab Sache Di Jhalak

Maa, Rab Sache Di Jhalak

ماں، رب سچے دی جھلک

دور پرے آسمان تے رب سچے دا ناں
ہیٹھاں اس جہان وچ بس اک ماں ای ماں

یہ دو مصرعے محض شاعری نہیں، بلکہ وہ روحانی راز ہیں جنہیں سمجھنا ہر انسان کی آنکھیں کھول سکتا ہے۔ شاعر نے کائنات کی وسعتوں میں چھپے ایک گہرے فلسفے کو انتہائی سادہ، مگر بے حد مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔ آسمان پر رب ہے اور زمین پر ماں۔ خدا کو ہم دیکھ نہیں سکتے، لیکن ماں کے وجود میں ہمیں اُس کی جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے۔

انسان، جب دنیا میں آتا ہے، تو وہ ایک کٹی پتنگ کی طرح ہوتا ہے جسے سنبھالنے کے لیے کوئی مہربان ہاتھ چاہیے۔ یہ ہاتھ ماں کا ہوتا ہے۔ وہ پہلی ہستی، جو انسان کو بغیر کسی مفاد کے محبت دیتی ہے۔ ماں کی محبت میں نہ کوئی کاروبار ہے، نہ کوئی سود و زیاں۔ یہ دنیا کی وہ واحد دولت ہے جسے لُٹانے سے یہ اور بڑھتی ہے۔

ماں صرف ایک رشتہ نہیں، ماں ایک کیفیت ہے، ایک دعا ہے، ایک سایہ ہے، ایک سکون ہے اور دراصل زمین پر خدا کا مظہر ہے۔ شاعر نے "رب سچے دا ناں" آسمان پر رکھا اور "ماں ای ماں" کو زمین کی پہچان قرار دیا۔ یہ ترتیب یوں ہی نہیں، بلکہ اس میں کائناتی توازن کی گہری سوچ چھپی ہے۔ آسمان سے بارش ہوتی ہے، زمین کو زندگی ملتی ہے۔ رب کی رحمت آسمان سے نازل ہوتی ہے، ماں کی محبت زمین پر اس رحمت کی عملی صورت بن کر زندگی کو مہربان بناتی ہے۔

ایک بچہ جب گر جاتا ہے تو اسے دوڑ کر اُٹھانے والا ہاتھ ماں کا ہوتا ہے۔ جب وہ بیمار ہوتا ہے تو اس کی راتوں کی نیند اُڑانے والا چہرہ ماں کا ہوتا ہے۔ جب دنیا کے لوگ اُسے برا کہیں، تو اُسے سینے سے لگا کر رونے والا دل ماں کا ہوتا ہے۔

کبھی سوچا ہے؟ رب کو تو کسی نے نہیں دیکھا، مگر رب کے بارے میں جو صفات ہم جانتے ہیں، مثلاً: غفار، رحیم، کریم، ستّار، حلیم، رزاق، ودود، یہی صفات ہمیں ماں میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ماں بھی ہماری خطائیں معاف کرتی ہے، ہماری کمزوریوں پر پردہ ڈالتی ہے، ہمیں مہربانی سے پالتی ہے، ہر وقت رزق اور تحفظ کی فکر کرتی ہے اور سب سے بڑھ کر محبت کرتی ہے، ایسی محبت جس کا کوئی بدل نہیں۔

ماں کی گود پہلا مکتب ہے۔ وہ بولنا سکھاتی ہے، کھانا کھلانا سکھاتی ہے، نرمی، تہذیب، صبر، شکر، سب کچھ سکھاتی ہے۔ جس بچے کی ماں اچھے انداز سے تربیت کرتی ہے، وہ بچہ زندگی بھر کامیابیوں کی بلندیوں کو چھوتا ہے اور جس ماں کی تربیت کمزور رہ جائے، وہ بچہ ساری عمر بھٹکتا ہے۔

معاشرے کی بنیاد ماں ہے۔ جو قومیں اپنی ماں کو عزت دیتی ہیں، وہ ترقی کرتی ہیں۔ جو قومیں ماں کو بوجھ سمجھ لیتی ہیں، اُن کے اندر روحانی زوال آ جاتا ہے۔ آج اگر ہم دیکھیں کہ انسانیت میں دراڑ آ رہی ہے، اقدار زوال کا شکار ہیں، تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ماں کے مقام کو صرف تقریروں، اشعار اور سوشل میڈیا پوسٹوں تک محدود کر دیا ہے، جبکہ عمل کے میدان میں ماں کو بےوقعت کر دیا ہے۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ جب ہم ماں کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں تو وہاں ایک سمندر دکھائی دیتا ہے؟ یہ آنکھیں زندگی بھر ہماری خوشیوں کی دعا کرتی رہتی ہیں۔ جب ہم غصے سے بولتے ہیں، جب ہم وقت پر فون نہیں کرتے، جب ہم ان کی بات کاٹتے ہیں، تو یہ آنکھیں صرف خاموش ہو جاتی ہیں، مگر دل کے اندر جو دراڑ پڑتی ہے، وہ کبھی نہیں بھرتی۔

کیا ہم جانتے ہیں کہ ماں کے بوڑھے ہاتھوں میں چھپی جھریاں اُن راتوں کی نشانی ہیں جو اس نے ہمارے لیے جاگ کر گزاری تھیں؟ کیا ہم نے کبھی ماں کے پاؤں کو غور سے دیکھا ہے؟ وہاں تھکن ہے، وہاں قربانی ہے، وہاں وہ راستے ہیں جو اس نے ہمارے لیے چل کر کاٹے تھے۔

لوگ حج کرتے ہیں، عمرے کرتے ہیں، بڑی بڑی زیارتیں کرتے ہیں، مگر ماں کے قدموں تلے جو جنت ہے، اُسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تین مرتبہ ماں کو خدمت کے قابل قرار دیا اور چوتھی بار باپ کا ذکر فرمایا؟ یہ اس لیے کہ ماں کی عظمت الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ وہ اپنا سب کچھ دے دیتی ہے، لیکن بدلے میں کچھ نہیں مانگتی۔

اکثر لوگ ماں کو کمزور سمجھتے ہیں۔ لیکن درحقیقت، ماں ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اگر دنیا کے تمام سائنسدان، مفکرین، فلسفی، لیڈر اور جرنیل اپنی کامیابی کے پیچھے کسی ایک قوت کو مانیں گے، تو وہ ماں کی دعا ہوگی۔ دنیا کے بڑے بڑے انقلابات کے پیچھے کسی نہ کسی ماں کی آنکھوں کے آنسو ہوتے ہیں۔

ماں وہ ہے جو اپنے بیٹے کو میدان جنگ میں بھیجتی ہے اور اس کے شہید ہونے پر بھی صبر سے کہتی ہے: "الحمدللہ، میرا بیٹا دین پر قربان ہوگیا"۔

ماں وہ ہے جو اپنی بیٹی کو گھر بسانے کی دعائیں دیتی ہے اور خود تنہائی کے سائے میں جی لیتی ہے۔

ماں وہ ہے جو خود بھوکی رہتی ہے، مگر بیٹے کو روٹی کھلا کر خوش ہو جاتی ہے۔

ماں وہ ہے جو بےآرامی میں سکون ڈھونڈ لیتی ہے، صرف اس لیے کہ اس کے بچے آرام سے سو رہے ہوں۔

لیکن آج کا انسان، جدید دنیا میں ماں کو نظرانداز کرتا جا رہا ہے۔ اس کے جذبات کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ اُسے اولڈ ہومز میں چھوڑا جانے لگا ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ انسانیت کی موت ہے۔ جب کوئی قوم اپنی ماؤں کو تنہا چھوڑ دیتی ہے، تو دراصل وہ خود اپنی قبر کھود رہی ہوتی ہے۔

آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں سکون آئے، ہمارے گھروں میں برکت ہو، ہمارے دلوں میں رحم ہو، تو ہمیں ماں کے قدموں میں جھکنا ہوگا۔ اُس کی خدمت میں زندگی گزارنی ہوگی۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ لانا ہوگی۔

دنیا کی سب سے بڑی نیکی، سب سے عظیم عبادت، سب سے بلند کردار، یہ سب ماں سے جُڑے ہیں۔ آپ ماں کو خوش رکھیں، دنیا و آخرت میں کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ آپ ماں کو ناراض کریں، پھر چاہے جتنے مرضی وظیفے پڑھ لیں، چین نہیں ملے گا۔

کبھی کبھار زندگی میں ہم اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ ماں کو وقت دینا بھول جاتے ہیں۔ اُس کے دل میں جھانکنے کا وقت نہیں ملتا۔ لیکن یاد رکھیں، ماں کا دل آئینہ ہے۔ وہ آپ کے لفظوں سے زیادہ آپ کی خاموشی کو پڑھ لیتی ہے۔ وہ آپ کی تھکن، آپ کی اُداسی، آپ کے خواب، آپ کے خوف سب جانتی ہے۔

لہٰذا، اگر آپ کامیاب زندگی چاہتے ہیں تو ماں کو گلے لگائیے۔ اُس کے ہاتھ چومیے۔ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہیے:

"ماں، تُو رب سچے دی جھلک ہے، تیرے بغیر میں کچھ بھی نہیں"۔

کیونکہ جو شخص ماں کو راضی کر لیتا ہے، گویا وہ رب کو راضی کر لیتا ہے۔

اور جو رب کو پا لیتا ہے، وہ سب کچھ پا لیتا ہے۔

ماں، رب سچے دی پہچان اے
ماں، اس جہان دی شان اے

ماں، تے رب دے نال ناتا اے
بس جتھے ماں، اوتھے ہی جنت دا پتا اے

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam