Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Kisan Hamara Mohsin

Kisan Hamara Mohsin

کسان ہمارا محسن

ہماری روزمرہ کی زندگی میں کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جو ہم دیکھتے نہیں، مگر ان کا اثر ہماری ہر سانس، ہر قدم اور ہر نوالے میں ہوتا ہے۔ ہم جن کے شکر گزار ہونا تو دور کی بات ہے، اُن کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے اور ایسا ہی ایک کردار ہے: کسان۔

جی ہاں، وہی کسان جو دھوپ میں جلتا ہے، بارش میں بھیگتا ہے، کبھی سخت سردی میں کھیتوں کی مٹی کو اپنے ہاتھوں سے الٹتا پلٹتا ہے اور کبھی تپتے سورج کے نیچے پانی کی بوند بوند کے لیے آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ ہم جسے اکثر "غریب کسان" کہہ کر یاد کرتے ہیں، وہی اصل میں ہمارا سب سے بڑا محسن ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کی سہولیات فراہم کرنے والوں کی فہرست میں اس کا نام تک یاد نہیں آتا، حالانکہ وکیل، ڈاکٹر، انجینئر، آرکیٹیکٹ یا سیاستدان سے ہمیں کبھی کبھار ہی واسطہ پڑتا ہے، مگر کسان تو دن میں تین مرتبہ ہماری میز پر حاضر ہوتا ہے، ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا۔

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ صبح کی چائے میں جو دودھ ہے، وہ کہاں سے آیا؟ جو آلو پراٹھا آپ نے ناشتے میں کھایا، اس کے پیچھے کتنی مشقت چھپی ہے؟ سالن میں جو سبزیاں ہیں، جو دال ہے، جو مرچیں اور مصالحے ہیں، وہ کسی سپر مارکیٹ میں خود بخود پیدا نہیں ہوگئیں۔ وہ سب کسان کی محنت کا نتیجہ ہیں۔ اس نے بیج بویا، فصل اگائی، وقت پر پانی دیا، کیڑے مارے، دن رات ایک کیا اور تب جا کر یہ نعمتیں ہمارے دسترخوان تک پہنچیں۔

کسان، اپنی زمین سے ایسا رشتہ رکھتا ہے جیسے ماں اپنے بچے سے۔ وہ جب زمین میں بیج ڈالتا ہے، تو صرف کھاد یا پانی نہیں دیتا، وہ اپنی امیدیں، خواب، زندگی کا سرمایہ اور کبھی کبھی اپنی صحت تک زمین کے سپرد کر دیتا ہے اور پھر وہ مہینوں اس انتظار میں جیتا ہے کہ فصل اچھی ہوگی، بارش وقت پر ہوگی، کیڑے نہیں لگیں گے، منڈی کا بھاؤ اچھا نکلے گا اور قرض چکانے کے بعد بچوں کے اسکول کی فیس اور بیوی کی دوائی بھی پوری ہو جائے گی۔

مگر کیا ہم میں سے کسی نے کبھی کسان کی ان دعاؤں، امیدوں اور مشکلات کا وزن محسوس کیا ہے؟ ہمیں تو صرف ٹماٹر مہنگا ہونے پر غصہ آتا ہے، آٹے کی قیمت بڑھ جائے تو سوشل میڈیا پر نعرے بلند ہوتے ہیں، لیکن ہم اس سچائی سے نظریں چرا لیتے ہیں کہ شاید وہی کسان جو اپنی زمین پر ٹماٹر اُگاتا ہے، خود بازار سے مہنگا ٹماٹر خریدنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جو ہمیں روٹی دیتا ہے، خود دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے۔

اگر کوئی ڈاکٹر اپنی ذمہ داری سے غافل ہو جائے تو شاید ایک مریض کی جان جائے، اگر کوئی وکیل نااہل نکلے تو ایک مقدمہ ہار دیا جائے، لیکن اگر کسان مایوس ہو جائے، ہاتھ کھینچ لے، یا زمین چھوڑ دے۔ تو پوری قوم فاقوں کی دہلیز پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ آج جب دنیا کی بڑی بڑی ریاستیں خوراک کو اسٹریٹیجک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں، تب ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کسان صرف غلہ نہیں اگاتا، وہ قوموں کی آزادی، خودمختاری اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔

یہ عجیب تضاد ہے کہ کسان کی اہمیت ہر معاشرے میں مسلم ہے، مگر عزت اسے کہیں نہیں ملتی۔ وہ جو سب کو کھلاتا ہے، خود سب سے کم کماتا ہے۔ جو سب کی ضروریات پوری کرتا ہے، اس کی ضروریات ہمیشہ ادھوری رہتی ہیں۔ سڑکوں پر احتجاج کرتا کسان، اپنے بچوں کو بہتر تعلیم، علاج اور خوشحال زندگی دینے کی آرزو میں تڑپتا کسان، قرض کی چکی میں پس کر خودکشی کرنے پر مجبور کسان، یہ سب مناظر ہمیں صرف خبروں میں دکھائی دیتے ہیں اور ہم لمحے بھر کو افسوس کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

کسان کو صرف اس کے کھیت، ہل اور ٹریکٹر تک محدود سمجھ لینا زیادتی ہے۔ وہ دراصل فطرت کا نباض ہے، زمین کی زبان سمجھنے والا، موسم کے تیور پہچاننے والا، قدرت کے ساتھ ہم آہنگی سے زندگی گزارنے والا وہ انسان ہے جو جدید دنیا کے شور میں بھی سکون کی ایک خاموش علامت ہے۔ وہ ہمارے شہروں کی بے رحم دوڑ سے کوسوں دور، اپنی مٹی سے جڑا ہوا، خاموشی سے ہمیں زندگی بخشنے والا ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر آج ہم اپنے بچوں کو صرف ڈاکٹر، انجینئر یا بینکر بننے کا خواب دکھائیں گے اور کسان کو محض ایک پسماندہ پیشہ سمجھیں گے تو کل کیا ہوگا؟ اگر سب لوگ دفتر میں بیٹھ کر کمپیوٹر پر کام کریں گے تو زمین پر ہل کون چلائے گا؟ اگر سب فائلوں اور اعداد و شمار کے ماہر ہوں گے تو اناج کہاں سے آئے گا؟ جو پیزا، برگر، پاستا یا بریانی ہم کھاتے ہیں، ان سب کی بنیادیں کسان کی کھیت سے ہی اٹھتی ہیں۔ زمین سے جو کچھ نکلتا ہے، وہی فیکٹریوں، دکانوں، ہوٹلوں اور ریستورانوں میں پہنچتا ہے۔ کسان نہ ہو تو دنیا کی سب سے بڑی معیشتیں بھی مفلوج ہو جائیں۔

ایسا نہیں کہ کسان کو عزت دینا کوئی فلسفیانہ بات ہے یا جذباتی نعرہ۔ یہ ایک عملی حقیقت ہے کہ اگر ہمیں اپنی روزمرہ زندگی کو برقرار رکھنا ہے، خوراک کے بحران سے بچنا ہے، مہنگائی پر قابو پانا ہے، تو ہمیں کسان کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اسے صرف سبسڈی دے کر یا قرض معاف کرکے مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ ہمیں اس کی سماجی حیثیت کو بلند کرنا ہوگا۔ ہمیں اس کے بچوں کے لیے معیاری تعلیم، اس کے گاؤں کے لیے بہتر صحت کی سہولیات اور اس کی فصلوں کے لیے منصفانہ قیمت کا انتظام کرنا ہوگا۔

ہمارے معاشرے میں عجیب تصور پایا جاتا ہے کہ اگر کوئی شہری شخص گاؤں چلا جائے اور کھیتی باڑی کرنے لگے تو لوگ حیرت سے اسے دیکھتے ہیں۔ جیسے یہ کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کے شایانِ شان نہیں۔ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ زمین سے جڑنا، اپنی خوراک خود اگانا اور دوسروں کے لیے روزی پیدا کرنا کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔ جو ہاتھ ہل چلاتے ہیں، وہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں اور اگر ریڑھ کی ہڈی کو جھکا کر رکھیں گے تو پورا جسم سیدھا کیسے رہے گا؟

ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ کسان ہونا کوئی کم تر بات نہیں، بلکہ یہ فخر کی علامت ہے۔ ہمیں اپنے نصابِ تعلیم میں کسان کی زندگی، اس کی جدوجہد، اس کی خدمات کو اجاگر کرنا ہوگا۔ ہمیں ٹی وی، ڈراموں اور فلموں میں اس کردار کو وقار دینا ہوگا۔ ہم نے پولیس، وکیل اور سیاستدان کو تو ہیرو کے طور پر دکھایا، مگر کسان ہمیشہ پس منظر میں رہا۔ خاک آلود، پسینے میں شرابور اور کمزور۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اسے اس کا اصل مقام دیں۔

کسان صرف غذا دینے والا نہیں، وہ تہذیب کا محافظ بھی ہے۔ وہ زبانوں کو زندہ رکھتا ہے، رسم و رواج کو قائم رکھتا ہے، موسموں کی روایتوں کو اپنی نسلوں تک منتقل کرتا ہے۔ وہ صرف ایک پیشہ ور نہیں، بلکہ ہماری تاریخ کا ایک تسلسل ہے۔ اس کے بغیر نہ دیہات آباد رہیں گے، نہ شہر سلامت۔ نہ بازار میں چہل پہل رہے گی، نہ گھروں میں خوشبو۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم کسان کو صرف ایک محنت کش نہیں، ایک "محسن" سمجھیں۔ ایسا محسن جس کی دعاؤں اور محنت کے بغیر ہم دن کا پہلا نوالہ بھی نہ لے سکیں۔

آئیے، اب جب ہم اگلی بار دسترخوان پر بیٹھیں تو لمحہ بھر رک کر سوچیں کہ یہ نوالہ کیسے آیا؟ کس نے اسے اگایا؟ کس نے گرمی میں پسینہ بہایا؟ کون تھا جو بھوک سہہ کر ہمیں سیراب کر گیا؟ تب شاید ہم ایک دعا اس کسان کے لیے بھی کریں اور دل میں اس کی عزت کے بیج بونے لگیں۔ عزت بھی وہی جو اس کا حق ہے، کیونکہ کسان ہمارا محسن ہے، روز کا، ہر دن کا، ہر نوالے کا۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan