Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Jab Tabdeeli Ne Roti Cheen Li

Jab Tabdeeli Ne Roti Cheen Li

جب تبدیلی نے روٹی چھین لی

تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے جو قافلہ چلا تھا، وہ جب منزل پر پہنچا تو لوگوں کے ہاتھ میں خوابوں کے بجائے خالی جھولیاں تھیں۔ یہ نعرہ جس نے نوجوانوں کو جگایا، بوڑھوں کو امید دی، عورتوں کو تحفظ کا یقین دلایا، غریب کو عزت کا وعدہ کیا، وہ نعرہ جب اقتدار میں ڈھلا تو اس کے اندر صرف نالائقی، ضد، نفرت، نااہلی اور جھوٹ باقی رہ گیا۔ لوگ سوچتے تھے کہ یہ شخص پاکستان کو ایک نیا پاکستان دے گا۔ لیکن جب اسے اختیار ملا، تو اس نے ان سے وہ بھی چھین لیا جو پرانے پاکستان میں انہیں میسر تھا۔ ان کی عزت، ان کا روزگار، ان کا سکھ، ان کی روٹی۔

یہ بات سچ ہے کہ ہر نیا آنے والا حاکم پچھلوں کو کوستا ہے، لیکن عمران خان نے تو اس روایت کو معراج پر پہنچا دیا۔ ساڑھے تین سال تک اس کی تقریریں صرف ایک ہی جملے کے گرد گھومتی رہیں: "پچھلے چور تھے، ڈاکو تھے، ملک کو تباہ کر گئے، میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، مافیا بہت مضبوط ہے، سازشیں ہو رہی ہیں، ادارے ساتھ نہیں دے رہے، میڈیا بکا ہوا ہے، عوام سمجھ نہیں رہے"۔  سوال یہ ہے کہ اگر اتنی ہی مجبوریوں میں جکڑا ہوا تھا تو پھر اقتدار کی ہوس کیوں تھی؟ وعدے کیوں کیے گئے؟ عوام کو خواب کیوں بیچے گئے؟

اس کی حکومت میں عام آدمی کی زندگی جس تیزی سے برباد ہوئی، شاید ہی کسی اور دور میں اتنی شدت سے ہوئی ہو۔ مزدور نے ناشتہ چھوڑا، تنخواہ دار نے دوپہر کی چائے ترک کی، سفید پوش نے بچوں کی فیس بھری تو دوا نہیں خریدی، بازار میں گئے تو صرف قیمتیں دیکھیں، سودا نہیں خریدا۔ بجلی کا بل آیا تو جوتے بیچ کر جمع کرایا، گیس کا کنکشن تھا لیکن گیس نہیں تھی، راشن کی لائن میں لگے تو عزت گئی، رشوت دی تو نوکری ملی، دھکے کھائے تو علاج ملا۔ عمران خان کے نئے پاکستان میں سب کچھ مہنگا ہوا، لیکن سب سے مہنگی "زندگی" ہوئی۔

خان صاحب نے سب سے پہلا حملہ نوجوان کرکٹرز پر کیا۔ یہ انہی نوجوانوں کی کمر پر پیر رکھ کر وہ خود کرکٹ کے بادشاہ بنے تھے۔ لیکن جب اقتدار ملا تو اُن نوجوانوں کے رزق کا ذریعہ ہی بند کر دیا۔ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ختم کی، بینکوں، اداروں، ریلوے، واپڈا اور پی آئی اے جیسے اداروں کی ٹیمیں ختم ہوئیں۔ ہزاروں کھلاڑی بے روزگار ہو گئے۔ ان کے ساتھ کوچز، اسکوررز، گراؤنڈز مین، امپائرز اور ٹیکنیکل اسٹاف بھی متاثر ہوا۔ یہ لوگ نہ احتجاج کر سکتے تھے، نہ میڈیا پر آ سکتے تھے۔ ان کا سب کچھ میدان تھا اور میدان ہی بند ہوگیا۔ خان صاحب نے خواب بیچے اور زمین چھین لی۔

میڈیکل کالجز میں اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے جو کوٹہ برسوں سے موجود تھا، وہ ختم کر دیا گیا۔ ان بچوں کے والدین وہ تھے جو پردیس میں پسینہ بیچ کر پاکستان کی معیشت چلاتے تھے۔ ان کے بچوں کو پاکستان میں تعلیم دینا، وطن سے جوڑنا، ملک سے وابستہ رکھنا ایک مثبت قدم تھا، لیکن تبدیلی سرکار نے اسے "میرٹ" کے نام پر مٹا دیا۔ جو بچہ سعودی عرب، دبئی، لندن یا قطر سے آتا، وہ یہاں کے تعلیمی معیار سے ہم آہنگ نہ تھا، لیکن دل سے پاکستان کا تھا۔ اب وہی بچہ مایوس ہو کر ملک چھوڑتا ہے، واپس نہیں آتا، اپنے رشتہ داروں سے دور ہو جاتا ہے۔ عمران خان کی حکومت نے وطن سے محبت کو جرم بنا دیا۔

اوورسیز پاکستانی، جنہیں خان صاحب دل کے قریب کہتے تھے، ان کے لیے موبائل فون رجسٹریشن کے بہانے ٹیکسوں کی وہ دیوار کھڑی کر دی گئی کہ عزت خاک میں مل گئی۔ ائیرپورٹ پر اترتے ہی موبائل بند۔ مہنگے فون پر ہزاروں روپے کا ٹیکس، ورنہ ڈیوائس بلاک۔ کیا یہی سلوک ہوتا ہے ان لوگوں کے ساتھ جو اپنی جان سے زیادہ ملک سے پیار کرتے ہیں؟ جو اپنی اولاد کو وطن کی مٹی میں تربیت دینے آتے ہیں؟ جو تحفے لاتے ہیں، زخم نہیں؟

اور یہ سب ہوتا رہا اور خان صاحب ہر روز ایک نئی تقریر کرتے رہے۔ "ریاستِ مدینہ" کا نعرہ لگاتے رہے۔ اس نعرے سے بڑا کوئی نام نہیں، لیکن اس نعرے کو سب سے زیادہ بے توقیر بھی شاید اسی دور میں کیا گیا۔ ریاستِ مدینہ میں غریب کی فریاد سب سے پہلے سنی جاتی تھی، یہاں فریاد کرنے والے کو گالی سننی پڑتی تھی۔ وہاں حکمران راتوں کو گلیوں میں گشت کرتا تھا، یہاں حکمران دن کے اجالے میں بنی گالہ کے محل سے نہ نکلتا تھا۔ وہاں خلیفہ عام آدمی کے سامنے حساب دیتا تھا، یہاں وزیراعظم صحافیوں کے سوالوں پر ناراض ہو جاتا تھا۔

معیشت کی خرابی صرف عالمی حالات پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ یہ بات مان لی جائے کہ کورونا آیا، دنیا بند ہوئی، اشیاء مہنگی ہوئیں، لیکن پھر دوسروں نے کیسے سنبھالا؟ بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا جیسے ملکوں میں بھی مہنگائی آئی، لیکن وہاں کے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف دیا۔ عمران خان کی حکومت میں عوام کو صرف تسلیاں ملیں، سبسڈی ختم ہوئی، مہنگائی بڑھی، ٹیکس بڑھا اور جو کچھ بچا، وہ یوٹیلیٹی اسٹورز سے بھی غائب ہوگیا۔

تبدیلی نے صرف مہنگائی نہیں کی، تبدیلی نے ذہنوں کو بانٹ دیا۔ معاشرہ تقسیم ہوگیا۔ گالی، بہتان، نفرت، الزام تراشی اور کردار کشی کا وہ زہر پھیلایا گیا کہ خاندانوں میں دراڑ پڑ گئی، دوست دشمن ہو گئے، سچ اور جھوٹ کی تمیز مٹ گئی۔ جو خان کے ساتھ نہیں تھا، وہ غدار تھا۔ جو سوال کرتا تھا، وہ دشمن تھا۔ جو آئینہ دکھاتا تھا، وہ ایجنٹ تھا۔

عمران خان کے حمایتی آج بھی کہہ رہے ہیں کہ اس کی نیت نیک تھی۔ لیکن نیت سے ملک نہیں چلتا، فیصلے سے چلتا ہے۔ نیت سے دعائیں ملتی ہیں، پالیسیاں نہیں بنتیں۔ اگر نیت نیک ہو اور فیصلے ظالمانہ ہوں، تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے؟ اگر نیت نیک ہو اور عوام کے منہ سے نوالہ چھن جائے، تو اس نیت کا فائدہ کس کو ہے؟

آج بھی وہ جلسے کرتا ہے، لوگوں کو اکساتا ہے، الزامات لگاتا ہے، لیکن ان ہزاروں کرکٹرز کا کوئی ذکر نہیں کرتا جو اس کی پالیسیوں سے بے روزگار ہوئے۔ ان بچوں کا کوئی ذکر نہیں کرتا جو میڈیکل کالجز میں داخلہ نہ لے سکے۔ ان اوورسیز پاکستانیوں کا کوئی شکریہ ادا نہیں کرتا جنہیں اس نے "دل کے قریب" کہہ کر ٹیکس کی گہری کھائی میں دھکیل دیا۔

کاش وہ اس روٹی کا احساس کرتا جو اس کے ہاتھوں لوگوں کے ہاتھ سے چھن گئی۔

کاش وہ ان خوابوں کا ذکر کرتا جو اس کے وعدوں میں دفن ہو گئے۔

کاش وہ اتنا ہی روئے جتنا عوام روتے رہے، بجلی کے بل دیکھ کر، راشن کے حساب لگا کر، بچوں کی فیس ادا نہ کرکے۔

تبدیلی آتی ہے تو راحت لے کر آتی ہے۔ یہ جو تبدیلی آئی تھی، یہ ایک سخت گرم تھپیڑے کی طرح آئی۔

روٹی چھینی، امید توڑی، نیت پر سوال اٹھایا اور عوام کے صبر کو آزمائش کی آخری حد تک لے گئی۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari