Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Iqbal Ki Farsi Shayari, Israr e Khudi

Iqbal Ki Farsi Shayari, Israr e Khudi

اقبال کی فارسی شاعری، اسرارخودی

اقبال کی شاعری صرف الفاظ کی بازیگری نہیں، یہ روح کی بیداری کا ایک مسلسل عمل ہے۔ خاص طور پر ان کی فارسی شاعری، جو اردو کے مقابلے میں نہ صرف زیادہ ہے بلکہ کہیں زیادہ فکری، روحانی اور نظریاتی گہرائی رکھتی ہے، وہ قاری کو ایک سفر پر لے جاتی ہے جو کہیں دل کے اندر چھپی دنیا میں لے جاتا ہے اور کہیں زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہو کر عالم بالا کی سیر کرواتا ہے۔ اقبال کی فارسی شاعری کا پہلا بڑا مجموعہ اسرارِ خودی ہے، جو 1915 میں شائع ہوا۔ یہ کتاب نہ صرف اقبال کی فکری بنیاد کی نمائندہ ہے، بلکہ بیسویں صدی کے مسلمان فرد کے لیے ایک فکری، روحانی اور عملی منشور بھی ہے۔

جب ہم اقبال کی فارسی شاعری کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے جس چیز کا سامنا ہوتا ہے، وہ "خودی" کا تصور ہے۔ عام قاری کے لیے یہ لفظ شاید غرور یا انا سے مشابہ لگتا ہو، مگر اقبال نے اسے ایک نئی معنویت دی۔ ان کے نزدیک خودی وہ باطنی قوت ہے جو انسان کو محض حیوان ناطق ہونے سے نکال کر خلیفۃُ اللہ ہونے کے مقام پر پہنچاتی ہے۔ خودی ایک ایسا جوہر ہے جو انسان میں پہلے سے موجود ہوتا ہے، مگر بیدار نہیں۔ اقبال کا اصرار ہے کہ خودی کو پہلے پہچانا جائے، پھر اسے پروان چڑھایا جائے اور آخرکار اس درجے تک بلند کیا جائے کہ انسان خدا کے حضور کہہ سکے: "اگر خودی را فزونی دہی، من و تو"۔ یعنی اگر خودی کو کمال بخشا جائے تو بندہ اور خدا کے درمیان فاصلہ کم ہو جاتا ہے، ایک مکالمہ جنم لیتا ہے۔

اسرارِ خودی دراصل ایک مثنوی ہے، یعنی منظوم نصیحت نامہ، جس کا مقصد ہے کہ نوجوان، خاص طور پر مسلمان نوجوان، اپنے وجود کی اہمیت سمجھے، اپنی شخصیت کے اندر چھپی خدائی صفات کو پہچانے اور زندگی کو ایک مقصد کے ساتھ گزارے۔ اقبال کے نزدیک زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان اپنی اہمیت، اپنی طاقت اور اپنی فطری ذمہ داری کو بھول چکا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس قوم کا جوان بے خود ہو جائے، بے مقصد زندگی گزارے، یا صرف ماضی کے قصوں میں کھو جائے، وہ قوم کبھی بیدار نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری بیداری کی شاعری ہے۔ وہ دل کو مخاطب کرتے ہیں، دماغ کو جھنجھوڑتے ہیں اور روح کو آواز دیتے ہیں۔

اقبال خودی کو ایک درخت کی مانند دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خودی کا درخت آسانی سے نہیں اگتا۔ اس کے لیے قربانی، جدوجہد، مسلسل محنت، صدق دل اور یقین کامل درکار ہے۔ خودی کی نشوونما کے لیے دو بڑے اصول اقبال بار بار بیان کرتے ہیں: عشق اور عمل۔ عشق صرف جذباتی وابستگی کا نام نہیں، بلکہ یہ وہ روحانی قوت ہے جو انسان کو اپنے مقصد سے جوڑتی ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ہی وہ آگ ہے جو خودی کو کندن بناتی ہے اور عمل، یعنی مسلسل جدوجہد، کوشش، عمل پیہم، خودی کی زمین کو زرخیز بناتا ہے۔ بغیر عمل کے، خودی ایک خیال ہی رہ جاتی ہے اور بغیر عشق کے، عمل ایک بےجان مشین بن جاتا ہے۔

اسرارِ خودی میں اقبال نے خودی کی وضاحت محض نظری انداز میں نہیں کی، بلکہ قصوں، تمثیلوں، حکایتوں اور علامتوں کے ذریعے ایک زندہ منظرنامہ پیش کیا۔ وہ رومی، سعدی اور حافظ جیسے شعرا کے اسلوب کو اپناتے ہیں، مگر ساتھ ہی جدید فکر اور اسلامی روح کو ایک نئی صورت میں ڈھالتے ہیں۔ ایک مشہور حکایت میں وہ نوجوان کو سمجھاتے ہیں کہ اگر وہ اپنی خودی کو پہچان لے، تو وہ بادشاہوں سے بہتر ہے، کیونکہ ایک باشعور انسان پوری دنیا کے نظام کو بدل سکتا ہے۔ اسی کتاب میں اقبال نے "فرشتوں کا مکالمہ" شامل کیا ہے، جہاں وہ انسان کی تخلیق اور مقام پر سوال اٹھاتے ہیں اور پھر اس کا جواب دیتے ہیں کہ انسان میں جو "آتشِ عشق" ہے، وہ کسی اور مخلوق میں نہیں۔

اقبال کی فارسی شاعری کا یہ پہلا دور، اسرارِ خودی، ان کی انفرادی فکر کا نمائندہ ہے۔ یہاں وہ فرد کو مرکز بناتے ہیں، اسے بیدار کرتے ہیں اور یاد دلاتے ہیں کہ تو محض ایک مٹی کا پتلا نہیں، بلکہ تو رازِ کن فیکون ہے، اپنی آنکھوں کو وا کر۔ یہی اقبال کا وہ پہلا قدم تھا جس نے بیسویں صدی کے مسلم نوجوان کو جھنجھوڑا۔ یہ کلام ہندوستان، ایران، ترکی اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر پڑھا گیا اور کئی دانشوروں نے اس کے فلسفے کو اپنا شعار بنایا۔

یہاں اقبال کا لہجہ مصلح کا ہے، لیکن شاعرانہ جمالیات کے ساتھ۔ ان کا ہر شعر محض قافیہ یا ردیف کے حسن کا مظہر نہیں بلکہ ایک فکری بم ہے جو دل میں پھٹتا ہے اور ایک نیا سوال جنم دیتا ہے۔ مثلاً ایک رباعی میں اقبال لکھتے ہیں:

خودی را بیفزا زِ عشقِ جلیل
کہ دل را زند آتشِ بے دلیل

(اپنی خودی کو بلند کر اس عشقِ جلیل سے، کیونکہ عشق بے دلیل دل کو زندہ کر دیتا ہے)۔

اس رباعی میں اقبال عشق کو وہ دلیل بناتے ہیں جو منطق کی محتاج نہیں، مگر روح کو زندہ کر دیتی ہے۔ یہ عشق خدا سے بھی ہو سکتا ہے، وطن سے بھی، امت سے بھی اور کسی اعلیٰ نصب العین سے بھی۔ اقبال کے نزدیک عشق وہ آگ ہے جس سے شخصیت کندن بنتی ہے اور یہی عشق، خودی کو بیدار کرتا ہے۔

اقبال کی فارسی شاعری کا یہ پہلا قدم ایک مسلسل سفر کا آغاز ہے۔ بعد میں وہ رموزِ بیخودی میں اسی فرد کو قوم کے قالب میں ڈھالتے ہیں، پیامِ مشرق میں مشرق و مغرب کے تصادم کا جائزہ لیتے ہیں، زبورِ عجم میں روحانی واردات کو بیان کرتے ہیں اور جاوید نامہ میں اسے ایک آفاقی سفر پر روانہ کرتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ اسی وقت سمجھ میں آتا ہے جب ہم "اسرارِ خودی" کے مفہوم کو گہرائی سے سمجھ لیں، کیونکہ یہی وہ اساس ہے جس پر اقبال کی پوری فارسی شاعری کی عمارت کھڑی ہے۔

آج کے دور میں، جہاں فرد شناخت کے بحران کا شکار ہے، جہاں نوجوان اپنی قدر سے ناواقف ہے، جہاں قومیں ماضی کی زنجیروں میں قید اور مستقبل سے مایوس ہیں، وہاں اقبال کی فارسی شاعری ایک نجات دہندہ نسخہ ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ نجات باہر نہیں، اندر ہے، انقلاب باہر سے نہیں، اندر سے آتا ہے اور ترقی کا راز کسی نظام یا نظریے میں نہیں بلکہ اس "خودی" میں ہے جسے ہم نے بھلا دیا ہے۔

اقبال کی فارسی شاعری کو پڑھنا محض ادب سے لطف اندوز ہونا نہیں، بلکہ اپنے آپ سے ملنے کا ایک سفر ہے۔ یہ شاعری ہمیں ہمارے اندر کی گہرائیوں میں لے جاتی ہے، جہاں ہم اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں: کیا میں جانتا ہوں کہ میں کون ہوں؟ کیا میری زندگی کسی مقصد سے جڑی ہے؟ کیا میں وہ ہوں جو مجھے ہونا چاہیے؟ اقبال ان سوالوں کے جواب نہیں دیتے، وہ صرف ہمیں یہ سوال کرنے پر آمادہ کرتے ہیں اور شاید یہی کسی بڑے شاعر کی اصل کامیابی ہوتی ہے۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz