Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Golda Meir, Mashriq e Wusta Ki Sinf e Aahan

Golda Meir, Mashriq e Wusta Ki Sinf e Aahan

گولڈا میئر، مشرقِ وسطیٰ کی صنفِ آہن

گولڈا میئر کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد کا نام تھی، ایک ایسی عورت کی کہانی جو مردوں سے بھرے ہر کمرے میں ہمیشہ تنہا تھی، مگر اپنی تنہائی کو کمزوری نہ بننے دیا۔ وہ نہ صرف اسرائیل کی واحد خاتون وزیرِ اعظم تھیں بلکہ اس کے بانیوں میں بھی شامل تھیں۔ تاریخ کے دھارے پر جن شخصیات نے گہرا اثر چھوڑا، ان میں گولڈا میئر کا شمار بھی اُن ہی میں ہوتا ہے، ایک لوہے کی عورت، جس کے حوصلے فولاد سے بھی سخت نکلے۔

وہ 1898 میں کیئو میں پیدا ہوئیں، جو اُس وقت روسی سلطنت کا حصہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی یورپ میں یہودیوں کی زندگی ایک مستقل خطرے اور پسماندگی کی تصویر تھی۔ گولڈا نے خود کہا کہ اُن کی ابتدائی یادیں اُن کے والد کی ہیں، جو مشتعل ہجوم سے اپنے گھر کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ آٹھ برس کی عمر میں اُن کا خاندان امریکہ ہجرت کر گیا۔ غربت، اجنبیت اور محرومیوں سے بھرپور برسوں میں اُنہوں نے وہ پختگی حاصل کی جو آگے چل کر ایک عالمی رہنما کے مزاج کی بنیاد بنی۔

امریکہ میں قیام کے دوران اُنہوں نے پہلی بار صیہونیت کا ذکر سنا، وہ خواب جس میں یہودیوں کی قدیم سرزمین پر ایک ریاست کے قیام کی تمنا تھی۔ یہی خواب اُن کی زندگی کا مشن بن گیا۔ 1921 میں وہ فلسطین آئیں، اُس وقت کا فلسطین جو ابھی برطانوی زیرِ انتظام تھا، مگر تاریخ کی کئی صدیوں سے سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ رہا تھا۔ وہ ایک چھوٹی یہودی بستی میں بس گئیں، ایک کبوتز میں۔ وہاں انھوں نے نہ صرف اپنا گھر بسایا بلکہ ویمن یونینز کے ذریعے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔

گولڈا میئر کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ وہ الفاظ سے زیادہ عمل کی عورت تھیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد وہ برطانوی حکام اور فلسطینی یہودیوں کے درمیان اہم مذاکرات کار بن گئیں اور جب 1948 میں اسرائیل کی آزادی کا اعلان ہوا، تو اس پر دستخط کرنے والوں میں گولڈا میئر بھی شامل تھیں۔ ان کا نام اسرائیل کے بانیوں میں لکھا گیا۔ اس کے فوراً بعد جب نوزائیدہ ریاست کو اپنے عرب ہمسایوں کی مخالفت کا سامنا ہوا، تو گولڈا امریکہ گئیں اور پچاس ملین ڈالرز جمع کیے، جو اسرائیل کی دفاعی طاقت کو بڑھانے میں استعمال ہوئے۔ ان کے لیے اسرائیل کی آزادی ایک خواب کی تکمیل تھی، لیکن اسی لمحے فلسطینیوں کے لیے یہ نکبہ (آفت) کا آغاز تھا، وہ دکھ جو آج تک جاری ہے۔

سیاسی میدان میں گولڈا میئر ایک غیر معمولی موجودگی تھیں۔ وہ سات سال تک وزیرِ محنت اور دس سال وزیرِ خارجہ رہیں۔ وہی تھیں جنہوں نے امریکہ کو اسرائیل کو ہتھیار بیچنے پر آمادہ کیا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب امریکہ اور اسرائیل کے رشتے ابھی ویسے نہیں تھے جیسے آج ہیں۔ انہوں نے کئی نئی آزاد افریقی ریاستوں سے بھی اسرائیل کو تسلیم کروایا اور سفارتی سطح پر اسرائیل کو عالمی نقشے پر ایک پائیدار وجود بنایا۔ وہ ایک جہاندیدہ، مگر سخت گیر رہنما تھیں۔ اُن کا انداز نرم خو نہیں تھا، مگر ان کے اندر وہ غیر مرئی کشش تھی جو بڑے لیڈروں کے حصے میں آتی ہے۔

1969 میں 71 برس کی عمر میں، جب وہ بیمار تھیں اور عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکی تھیں، اسرائیل کے وزیرِ اعظم کی اچانک وفات نے انہیں دوبارہ میدان میں لا کھڑا کیا۔ پارٹی نے اُن کے کندھوں پر قیادت کا بوجھ رکھا اور وہ وزیرِ اعظم بن گئیں۔ وہ وقت اسرائیل کے لیے انتہائی کٹھن تھا۔ 1972 میں میونخ اولمپکس میں فلسطینی گروہ نے گیارہ اسرائیلی کھلاڑیوں کو اغوا کرکے قتل کر دیا۔ دنیا خاموش رہی اور گولڈا میئر نے اس کا جواب آپریشن خدا کا غضب، کے ذریعے دیا، جس میں ذمہ داروں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ وہ فیصلہ ساز تھیں، جذبات سے مغلوب نہیں، لیکن اپنی قوم کے لیے جذباتی ضرور تھیں۔

لیکن سب سے بڑا دھچکا 1973 کی یومِ کپور جنگ تھی۔ یہودیوں کے مقدس ترین دن پر، جب اسرائیلی فوجیں آرام پر تھیں، شام اور مصر نے ایک اچانک حملہ کر دیا۔ گولڈا کو اس خطرے سے خبردار کیا گیا تھا، مگر اسرائیلی انٹیلی جنس نے اسے کم اہمیت دی اور گولڈا نے پیشگی اقدام نہیں کیا۔ جب حملہ ہوا، تو شروع میں اسرائیل کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ بعد میں اگرچہ اسرائیلی فوج نے جنگی پانسہ پلٹ دیا، مگر تقریباً 2700 سپاہیوں کی ہلاکت نے گولڈا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ اپنی فوج کے لیے ماتم کرتی رہیں اور یہ احساس انہیں ہمیشہ کچوکے دیتا رہا کہ شاید وہ جنگ روک سکتی تھیں۔ اسی جرمِ ضعیفی کو وہ اپنی زندگی کا گناہ سمجھتی رہیں۔

عوام نے ان پر تنقید کی اور بالآخر 1974 میں انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اگرچہ جنگ کے بعد 1978 کا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ وجود میں آیا، مگر گولڈا کا سیاسی سفر اختتام کو پہنچ چکا تھا۔

تاہم تنازع صرف جنگ تک محدود نہ تھا۔ 1969 میں اُن کا ایک انٹرویو، آج بھی اسرائیلی پالیسی کی تنقید کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ فلسطینی قوم کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ اُن کا یہ بیان صیہونیت کی اُس روش کو عیاں کرتا ہے جس نے مقامی عرب آبادی کے وجود اور حقِ خودارادیت کو رد کیا۔ اسی سبب وہ عرب دنیا میں ایک متنازع اور نفرت انگیز علامت بنیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گولڈا میئر نے عورتوں کے حقوق کی کسی باقاعدہ تحریک میں کبھی دلچسپی نہیں لی، اگرچہ امریکی حقوقِ نسواں کی تحریک اُنہیں بطور ہیروئن، اپنانا چاہتی تھی۔ اُن کے اقتدار کے اختتام پر اسرائیلی عورت کی حالت وہی تھی، جو اُن کے آغاز میں تھی۔ گولڈا نے عورت ہونے کو کبھی اپنی پہچان نہ بنایا، بلکہ اپنے عمل، قوتِ ارادی اور فہم و فراست کو اپنی شناخت بنایا۔

1978 میں وہ یروشلم میں انتقال کر گئیں، اس عمر میں کہ جہاں لوگ آرام کے خواہاں ہوتے ہیں، گولڈا اپنی پچھتاووں کا بوجھ اٹھائے دنیا سے رخصت ہوئیں۔ مگر وہ اپنی قوم کے لیے ایک وفادار شیرنی، تھیں، جیسا کہ شمعون پیریز نے اُنہیں کہا۔ اُن کی زندگی پر فلمیں بنی، کتابیں لکھی گئیں اور آج بھی جب اسرائیل کی تاریخ رقم کی جاتی ہے تو گولڈا میئر کا ذکر بہرصورت ہوتا ہے۔ چاہے انہیں پسند کیا جائے یا ناپسند، انکار ممکن نہیں۔ اُن کی شخصیت کی کشمکش اور تضاد ہی انہیں تاریخ کے آئینے میں ایک پراثر کردار بناتا ہے۔

گولڈا میئر مشرقِ وسطیٰ کی وہ صنفِ آہن تھیں جنہوں نے ایک متنازع مگر ناقابلِ فراموش میراث چھوڑی، ایک ایسی میراث جس سے کوئی نظریاتی اتفاق کرے یا اختلاف، مگر اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari