China Ki Kifayat Shayari Muhim
چین کی کفایت شعاری مہم

دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں چین کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ نہ صرف یہ کہ چین اقتصادی اعتبار سے مضبوط ہوا ہے بلکہ سیاسی اور انتظامی لحاظ سے بھی اس نے کئی اصلاحات متعارف کرائی ہیں جن کا مقصد عوامی دولت کا درست استعمال، بدعنوانی کا خاتمہ اور ریاستی نظام کو شفاف بنانا ہے۔ ان ہی اصلاحات میں سے ایک حالیہ خبر دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بنی ہے۔ "چینی سرکاری ملازمین کو dine-out یعنی سرکاری یا ذاتی حیثیت میں باہر کھانے پر پابندیاں لگائی گئی ہیں اور یہ سب کچھ ہو رہا ہے ایک نئی austerity drive یا کفایت شعاری مہم کے تحت"۔
یہ خبر معمولی سی لگ سکتی ہے، مگر اس کا دائرہ اثر نہ صرف چین کے اندرونی نظام تک محدود ہے، بلکہ دنیا کو ایک طاقتور پیغام بھی دیتی ہے۔ حکمرانی کا حسن، سادگی میں ہے۔ میرے بنیٌ نے یہ بات ذاتی مثال سے ہمیں صدیوں پہلے سمجھا دی۔
کفایت شعاری یا austerity ایک ایسا لفظ ہے جو اکثر مالی بحران کے دنوں میں سننے کو ملتا ہے۔ مگر چین میں اسے صرف معاشی حالات سے منسلک نہیں کیا جا رہا، بلکہ اسے ایک اخلاقی و انتظامی اصلاح کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
صدر شی جن پنگ کی قیادت میں چین نے بدعنوانی کے خلاف ایک طویل جدوجہد شروع کر رکھی ہے۔ ان کی حکومت سمجھتی ہے کہ ریاستی وسائل پر عیش و عشرت، سرکاری فنڈز کے ذاتی استعمال اور عیاش طرزِ زندگی عوام میں مایوسی اور اداروں میں عدم اعتماد پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ 2023 کے آخر میں یہ اعلان کیا گیا کہ سرکاری ملازمین خواہ کسی بھی عہدے پر ہوں، ان کے لیے باہر کھانے، خاص طور پر سرکاری خرچ پر دعوتیں، محدود یا ممنوع ہوں گی۔
یہ پالیسی دراصل ایک "سوفٹ ریفارم" ہے، یعنی ایسا اقدام جو کسی بڑی قانونی یا آئینی تبدیلی کے بغیر عوامی رویوں کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ایک سرکاری اہلکار روزانہ شام کو مہنگے ہوٹل میں کھاتا ہے، دفتر کی میٹنگ کسی فائیو اسٹار ریسٹورنٹ میں ہوتی ہے اور ہر چھوٹا سا اجلاس بھی دعوت کا روپ دھار لیتا ہے، تو ایک عام شہری سوال اٹھاتا ہے: یہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ اور کیوں آ رہا ہے؟
چین نے اس روش کو روکا اور یہ محض کھانے سے جڑی پابندی نہیں، بلکہ ایک علامت ہے اس بڑے فلسفے کی جس کے تحت عوامی خدمت کو ذاتی مفاد سے الگ کیا جا رہا ہے۔
ترقی پذیر ممالک، خصوصاً جنوبی ایشیا کے لیے یہ ایک نہایت اہم پیغام ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، ان سب کے ہاں سرکاری دفاتر میں غیر ضروری دعوتیں، ہوٹلوں میں کانفرنسیں اور VIP کلچر ایک معمول کی بات ہے۔ ہمیں اکثر سننے کو ملتا ہے کہ "یہ فنڈز سرکاری ہیں"۔ گویا عوام کے پیسے کا استعمال عیش و عشرت کے لیے ایک جائز جواز بن گیا ہو۔
چین نے یہاں پر ایک مثال قائم کی ہے۔ وہاں جہاں ایک وقت میں سرکاری دعوتیں شان و شوکت کی علامت سمجھی جاتی تھیں، اب یہ بات قابلِ فخر مانی جا رہی ہے کہ ایک افسر سادہ طرزِ زندگی اختیار کرے۔
اس فیصلے کے ممکنہ فوائد کیا ہوں گے؟
1۔ سرکاری اخراجات میں کمی: صرف کھانے پینے کی مد میں اربوں یوآن کی بچت ممکن ہے۔
2۔ شفافیت میں اضافہ: جب دعوتیں ختم ہوں گی تو سرکاری معاہدوں، فائلوں اور تعلقات میں شفافیت بڑھے گی۔
3۔ سوسائٹی میں برابری کا تصور: جب افسر خود باہر کھانے سے پرہیز کرے گا تو زیریں درجے کے ملازمین پر بھی بوجھ نہیں پڑے گا۔
4۔ عوامی اعتماد میں اضافہ: عوام کو یہ محسوس ہوگا کہ ان کے نمائندے بھی انہی جیسے ہیں، نہ کہ کسی الگ اشرافیہ کا حصہ۔
5۔ بدعنوانی کی روک تھام: چونکہ دعوتوں کے پیچھے اکثر پوشیدہ مفادات چھپے ہوتے ہیں، اس پر پابندی سے کرپشن کی کئی راہیں بند ہوں گی۔
یقیناً کچھ افراد اس پالیسی کو حد سے زیادہ سخت یا غیر ضروری قرار دیں گے۔ کچھ کہیں گے کہ "مہمان نوازی" تو ہمارے کلچر کا حصہ ہے، یا "پیشہ ورانہ تعلقات" کے لیے کھانے ضروری ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرکاری وسائل کو بچانے اور ایک اصولی نظام قائم کرنے کے لیے کچھ قربانیاں دینا ہی پڑتی ہیں۔ اگر ایک افسر اپنے دوستوں یا مہمانوں کو دعوت دینا چاہتا ہے، تو وہ اپنی جیب سے دے، ریاستی خرچ سے نہیں۔
پاکستانی تناظر میں کیا ہم سیکھ سکتے ہیں؟ پاکستان جیسے ملک میں جہاں قرضوں پر معیشت چلتی ہے، وہاں وزیر سے لے کر کلرک تک سرکاری فنڈز پر ہوٹلنگ، بیرونِ ملک دورے اور VIP ٹریٹمنٹ روز کا معمول ہے۔
کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم بھی چینی ماڈل سے سیکھتے ہوئے درج ذیل اصلاحات کریں:
سرکاری میٹنگز صرف دفتر میں ہوں
چائے بسکٹ سے آگے کچھ نہ پیش کیا جائے
افسران کے ذاتی اخراجات ریاستی بجٹ سے نہ اٹھائے جائیں۔
بیرونِ ملک دورے محدود کیے جائیں اور رپورٹنگ لازمی ہو۔
VIP کلچر ختم کیا جائے۔
اگر ہم اتنے بڑے اقدامات نہیں بھی کر سکتے تو کم از کم ایک سمت تو طے کر سکتے ہیں۔ وہ سمت جو سادگی کی ہو، اخلاص کی ہو، دیانت داری کی ہو۔
اسلام بھی سادگی کو پسند کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ سادہ زندگی گزاری، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: "سادگی ایمان کا حصہ ہے"۔ (ابو داؤد)
اگر ہمارے حکمران اور بیوروکریٹ محض اس اصول پر عمل پیرا ہو جائیں، کہ وہ عوام کے پیسے کو عوام کی امانت سمجھ کر خرچ کریں، تو نہ صرف ہمارے مسائل کم ہوں بلکہ معاشرے میں انصاف، برابری اور اخوت کو فروغ ملے۔
اگر ہمیں زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں حکمرانی کے انداز بدلنے ہوں گے۔ چین کی جانب سے سرکاری ملازمین کو dine-out کی پابندی کا فیصلہ بظاہر چھوٹا مگر حقیقت میں انقلابی قدم ہے۔ یہ فیصلہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم بھی ایک ایسا نظام قائم کر سکتے ہیں جہاں عوامی عہدہ، عوامی خدمت کا ذریعہ ہو، نہ کہ ذاتی مفاد کا؟
اگر چین جیسا ترقی یافتہ ملک اپنے افسران سے سادگی کی توقع کر سکتا ہے، تو پاکستان جیسے قرض زدہ ملک میں تو یہ اور بھی ناگزیر ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم نعرے چھوڑ کر اصل میں سادگی، دیانت اور شفافیت کو اپنائیں۔ کیونکہ قومیں نعرے سے نہیں، نظام سے ترقی کرتی ہیں اور نظام وہی کامیاب ہوتا ہے جو سادہ، صاف اور عوام دوست ہو۔

