Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Chal Ke Hum Ghair Ke Qadmon Se Kahi Ke Na Rahe

Chal Ke Hum Ghair Ke Qadmon Se Kahi Ke Na Rahe

چل کے ہم غیر کے قدموں سے کہیں کے نہ رہے

زندگی ایک لامحدود مسافت ہے، ایک ایسا سفر جس میں انسان کے قدم نہ صرف زمین پر نشان چھوڑتے ہیں بلکہ اس کی روح کی گہرائیوں میں بھی ایک کہانی رقم کرتے ہیں۔ مگر جب یہ قدم اپنے نہیں رہتے، جب ان کا رخ کسی اور کی خواہش یا تقلید کے تابع ہو جاتا ہے، تو وہ کہانی مٹنے لگتی ہے، دھندلا جاتی ہے اور بالآخر کسی اور کے افسانے کا ایک گم گشتہ باب بن جاتی ہے۔

"چل کے ہم غیر کے قدموں سے کہیں کے نہ رہے" صرف ایک مصرعہ نہیں بلکہ ایک چیخ ہے، ایک دہائی ہے، ایک المیہ ہے جو ہمارے زوال کی داستان سناتی ہے۔ وہ داستان جہاں ہم نے اپنی شناخت، اپنی تہذیب اور اپنی خودی کو غیر کی تقلید کے بوجھ تلے دبا دیا۔ ہم وہ چراغ ہیں جن کی لو پرانے طوفانوں سے نہیں بجھی، بلکہ اس وقت مدھم ہوئی جب ہم نے اپنے دیے کے بجائے دوسروں کی روشنی مستعار لے لی۔

تقلید ایک ایسی زنجیر ہے جو بظاہر سہولت کا وعدہ کرتی ہے، مگر اس کے بدلے ہمارے اختیار کی قیمت وصول کرتی ہے۔ ہم نے غیر کی چمک دمک سے مرعوب ہو کر اپنی زبان کے لافانی الفاظ کو بھلا دیا، اپنے لباس کی وقار بھری سادگی کو ترک کر دیا اور اپنی ثقافت کی نرالی خوشبو کو مغربی خوشبوؤں میں گم کر دیا۔ ہم اپنی زمین کے درخت تھے، لیکن اپنی جڑیں چھوڑ کر غیر کے باغ میں لگنے کی خواہش کرنے لگے۔ نتیجہ؟ ہم نہ اس باغ کے رہے، نہ اپنی زمین کے۔

یہ غم محض انفرادی نہیں، اجتماعی ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو تقلید کی ایسی گلیوں میں دھکیل دیا جہاں منزل تو دور، روشنی بھی غیر کی ہے۔ ہمارے خواب، ہمارے ارادے اور ہماری محنت، سب کسی اور کی پیمائش کے مطابق ڈھلنے لگے۔ ہم نے اپنے دلوں کی آواز کو دبا کر غیر کے طبل کی گونج کو اپنا نغمہ سمجھ لیا۔

مگر کیا یہ تقلید ہمیں سکون دے سکی؟ کیا ہم نے ان قدموں کے نشان پر چلتے ہوئے اپنی منزل پائی؟ شاید نہیں۔ کیونکہ منزلیں صرف ان کے نصیب میں ہوتی ہیں جو اپنی راہوں کے معمار ہوتے ہیں۔ جن کے دل میں اپنی شناخت کے چراغ روشن ہوں، جن کے ارادے کسی اور کی خوشنودی کے بجائے اپنی خودی کی تکمیل کے لیے ہوں۔

ہماری تہذیب وہ ہے جس نے دنیا کو علم، محبت اور اخلاق کے موتی دیے۔ ہماری تاریخ وہ ہے جس نے روشنی کے دیے جلائے، جب باقی دنیا اندھیروں میں تھی۔ تو پھر یہ سوال سر اٹھاتا ہے: کیا ہم اپنے اس عظیم ماضی کو قربان کرکے غیر کے قدموں کی خاک چاٹنے کے لیے پیدا ہوئے تھے؟

اقبال کی یہ پکار آج بھی ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے:

"خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر"

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ تقلید کا راستہ وہ گلی ہے جہاں اپنی شناخت کا سورج کبھی طلوع نہیں ہوتا۔ اپنی جڑوں کی مٹی سے محبت کرنا، اپنی ثقافت کا احترام کرنا اور اپنی زبان میں اپنی کہانی لکھنا ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں دوبارہ عروج کی طرف لے جا سکتا ہے۔

آؤ، اس مسحور کن خواب سے جاگیں، جہاں غیر کے قدموں کے پیچھے چلنے میں سکون کی امید کی جاتی ہے۔ آؤ، اپنے خوابوں کو اپنی راہوں پر چلائیں، اپنے نقش خود بنائیں اور اپنی کہانی کو اس شان سے لکھیں کہ آنے والی نسلیں اس پر فخر کریں۔ تبھی ہم اس المیے سے نکل پائیں گے کہ "چل کے ہم غیر کے قدموں سے کہیں کے نہ رہے۔ "

کبھی گرتے توکبھی گر کے سنبھلتے رہتے
بیٹھا رہنے سے اچھا تھا کہ کھڑے رہتے

اور چل کے ہم غیر کے قدموں سے کہیں کے نہ رہے
خود کے پیروں سے چلتے تو چلتے رہتے

چاہے وہ اپنے وقت کے نشے میں خوشیاں چھین لے تم سے
پر جب تم ہنسی بانٹو تو اس کو بھول مت مانا

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم ہی نکل سکو تو چلو

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دے گا
اسے ہرا کر جو تم سنبھل سکو تو چلو

اور کسی کے واسطے دنیا کہاں بدلتی ہے
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو

کانٹوں بھری راہوں سے گزرتا چلا گیا
جو دل میں میرے تھا وہی کرتا چلا گیا

اور منزل سمجھ کر بیٹھ گئے جس پہ کئی لوگ
ایسے راستوں سے میں گزرتا چلا گیا

ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم تم سے بڑے ہیں
لیکن یہ بہت ہے کہ ہم بھی ساتھ کھڑے ہیں

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari