Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Ali Durrani
  4. Private Taleemi Idare Ya Mafia?

Private Taleemi Idare Ya Mafia?

پرائیوٹ تعلیمی ادارے یا مافیا؟

یہ تو سب کو معلوم ہے کہ پاکستانی میڈیا پر سیاست پر بات چیت ہوتی ہے۔ اکثر شام کے وقت تمام ٹی وی چینلز پر سیاسی بحث مباحثے جاری ہوتے ہیں، لیکن پاکستان میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ہر قدم پر کوئی نہ کوئی مسئلہ نظر آتا ہے۔ کچھ مسائل ایسے ہیں جنہیں عوام بھی مسئلہ نہیں سمجھتی کیونکہ وہ بھی اتنے پریشان ہیں کہ کس کس غم کا سوگ منائیں۔

ایک واقعہ جو اتنا پرانا بھی نہیں ہے، ہمارے علاقے میں سڑک کی تعمیر کا ہے۔ پہلے جس ٹھیکیدار نے سڑک کا کام لیا، اس نے پرانی سڑک کو اس حالت میں پہنچا دیا کہ مریضوں کو علاج کے بغیر گردے سے پتھر گر جاتے۔ بعد میں سڑک پر ریت اور پتھر ڈالے گئے تاکہ گاڑیوں کا بوجھ برداشت کر سکے، لیکن اس دوران سڑک پر دھواں ہوتا تھا، جس کی وجہ سے چند قدم کے فاصلے پر بھی کوئی کسی کو نظر نہیں آتا تھا۔ ایک دکاندار، جو اس دھویں سے پریشان تھا، نے کہا کہ اگر انگریز ایک دن بھی یہاں زندہ رہے، تو وہ اپنا کاروبار چھوڑ دے گا۔

اب سب سے بڑا مسئلہ تعلیم ہے۔ چند برس پہلے تک، جب پرائیوٹ تعلیمی ادارے اتنے عام نہیں ہوئے تھے، تعلیم کی قدر تھی۔ اساتذہ کی تعلیم کم تھی، لیکن وہ بہتر طریقے سے پڑھاتے تھے، اور میٹرک یا ایف اے کرنے والے طلباء وطالبات کی قدر کی جاتی تھیں۔ لیکن جب سے ملک میں پرائیوٹ تعلیمی اداروں نے اپنا کاروبار شروع کیا، تعلیم کی اہمیت کم ہوگئی۔ آج کل کے بعض اساتذہ انسانیت سے عاری ہیں۔

تاریخ یاد نہیں لیکن کئی سال پہلے ایک پرائیوٹ یونیورسٹی کی استانی نے مجھے اپنا نمبر بتانے کو کہا جب میں نے اُردو میں نمبر بتایا، تو استانی نے کہا کہ یہ نمبر انگریزی میں بتاؤ۔ لیکن اردو قومی زبان ہے، کیا کہ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ادارے کم اور مافیا زیادہ ہیں۔

پرائیوٹ یونیورسٹی میں فیل ہونے کی صورت میں طالب علم کو گرمیوں کی چھٹیوں میں دوبارہ رجسٹر کرایا جاتا ہے۔ یونیورسٹی والے کبھی کہتے ہیں کہ یوٹیوب سے پڑھائی کرو، اور کچھ اساتذہ حلال رزق کے لیے کلاسز لیتے ہیں۔ بعد میں یونیورسٹی کی طرف سے آن لائن امتحان کا اعلان ہوتا ہے، جیسے کرونا وائرس کے دوران لیا گیا تھا۔ طالب علم انٹرنیٹ سے پیپر حل کرکے جمع کر دیتے ہیں۔

بنیادی سوال ہے کہ پرائیوٹ یونیورسٹی آن لائن امتحان کیوں لے رہی ہے؟ کوئی نئی وبا تو نہیں آئی، یا یہ وبا صرف ان یونیورسٹیوں میں ہے؟ لیکن میڈیا کو سیاست سے فرصت ملے تو وہ اس معاملے پر بات کریں۔

پاکستان میں بعض تعلیمی اداروں کے مالکان کے اعلیٰ افراد سے قریبی تعلقات بھی ہوتے ہیں۔ سیب کی ناراضگی بڑا مسئلہ بھی کرییٹ کر سکتا ہے۔ طالب علم جو میٹرک میں آسی فیصد سے زائد نمبر حاصل کرتے ہیں، اگر اُسے اُردو کے اشعار کی تشریح کرنے کو کہا جائے، تو مشکل سے کر پائیں گے۔ ان نمبروں کا کیا فائدہ؟ کیا یہ لوگ ان نمبروں کا اچھا استعمال کریں گے، یا نوکری نہ ملنے پر پاکستان کو گالیاں دیں گے؟

میں حیران ہوں کہ یہ لوگ ان نمبروں کا کیا کریں گے کیا وہ ان کا اچار ڈالیں گے یا پھر نوکری نہ ملنے کی صورت میں پاکستان کو گالیاں دیں گے؟ یہ فیصلہ آپ پر ہے۔ آپ خود سوچیں کہ ہم کس صدی میں رہ رہے ہیں۔ کیا ان اداروں سے گریجویٹ ہونے والے طلباء و طالبات مغربی ممالک کے ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی میں مقابلہ کر سکیں گے؟ ایک طالب علم جو آن لائن امتحان دیتا ہے، کیا وہ تحقیق کے میدان میں دوسرے ترقی پذیر ممالک کا مقابلہ کر سکے گا؟ کیا وہ کسی اعلیٰ ادارے میں بھرتی ہوگا؟

پھر یہ طالب علم سیاستدانوں کے خلاف شکایات کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے بہت کرپشن کی ہے، لیکن خود بھی آن لائن امتحان دیتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ کیا یہ طالب علم ایک مڈل یا میٹرک کلاس کے بچے کو انگریزی صحیح طریقے سے پڑھا سکے گا؟ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام ظاہری شکل و صورت کو دیکھ کر جلد دھوکہ کھا جاتے ہیں، کیونکہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی عمارتیں بہت اچھی اور پرکشش ہوتی ہیں۔

میں، ایک کم علم صحافی اور کالم نگار کے طور پر، مشورہ دیتا ہوں کہ اگر آپ اپنے بچوں پر فیس کی صورت میں ہزاروں روپے خرچ کر رہے ہیں تو پہلے اپنے شہر میں ان پرائیوٹ تعلیمی اداروں پر تحقیق کریں۔ صرف داخلہ ہی نہ لیں، بلکہ ہر ماہ ان اداروں کا ماحول بھی دیکھیں کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ یہ نوجوان ہمارے ملک کا مستقبل ہیں، انہیں ضائع نہ کریں، ورنہ بعد میں بہت پچھتاوے کا سامنا ہوگا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam