Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Parde Mein Rehne Do

Parde Mein Rehne Do

پردے میں رہنے دو

کسی زمانے میں ایک گاوں میں ایک آدمی رہتا تھا اور اس پر جن کا سایہ تھا تو سایہ نکلوانے کے لیے اس آدمی کے بیٹے اس کو ایک فقیر کے پاس لے گے جسے عام طور پر یا عام زبان میں پیر یا مولوی کہتے ہیں۔ تو پیر صاحب نے اس بندے کی انگلیوں کے درمیان میں ایک ڈنڈا یا اسٹک تھما دی اور اس اسٹک کو زور دینے لگا پیر نے اس اسٹک کو اتنا زور دیا کہ اس آدمی جس پر جن کا اثر تھا اس کی جگہ مخصوصہ سے پد یا ہوا نکل گی پیر کی حجرے میں لوگ زیادہ تھے۔

وہ آدمی جس پر سایہ تھا اس کے ایک بیٹے نے پیر سے پوچھا یہ پد یا ہوا جو نکلی یہ ہمارے والد محترم کی جگہ مخصوصہ سے نکلی یا جنات کے۔۔ پیر نے جواب دیا کہ ہوا یا پد تو جنات سے نکلی لیکن جگہ مخصوصہ آپ کے والد محترم کا استعمال کیا کچھ ایسی ہی حالات آج کل سابق وزیراعظم عمران خان کی ہے۔ عمران خان روز کوئی بیان دیتا ہے کوی ایک نئی بات وہ ضرور منہ سے نکلواتا ہے۔ بقول عمران خان انکی حکومت میں قمر جاوید باجوہ بادشاہ بنا ہوا تھا بقول عمران خان انکی حکومت میں سارے فیصلے باجوہ کرتا تھا آج کل عمران خان کہتا ہے کہ میری حکومت میں ساری پالیسیاں فوج اور باجوہ بنارہے تھے۔

عمران خان جب وزیراعظم تھا تو اس وقت عمران کے کارکنان فوجی سربراہ کے حق میں دن رات سوشل میڈیا پر تعریفیں کرنے میں مصروف ہوتے تھے عمران خان کے وزراء سارا دن فوج اور فوجی سربراہ کی تعریف کیا کرتے تھے۔ اس طرح تحریک انصاف کے صحافی چوبیس گھنٹے ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر فوجی سربراہان کے تعریفیں کرتے تھے، تحریک انصاف کا ایک مولوی رو رو کر باجوہ کے لیے دعائیں مانگتے تھے۔ ان سب کے باوجود عمران خان نے دوسری ایکسٹینشن کی پیشکش بھی کی تھی۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب ایک پیج پر تھے تو یہ پیج کیوں اور کیسے ٹوٹ گیا عمران کے کارکنان اور وہ خود باجوہ اور فوج کے خلاف کیوں ہوا۔ وہی لوگ جس کی نظر میں وہ بادشاہ تھا آج وہ زیرو ہے۔

ہیرو سے زیرو بننے کا سفر کیسے شروع ہوا؟ عمران خان اب جو باتیں باجوہ اور فوج کے بارے میں کررہے ہیں تو جس وقت سب کچھ باجوہ اور فوج کرہا تھا اس وقت عمران خان نے کیوں نہیں بتایا وہ کیوں چھپ تھے جب سب کچھ باجوہ کے کنٹرول میں تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ سیر کے لیے وزیراعظم ہاوس جاتے تھے؟ ہاں عمران خان صرف سیر کے لیے وزیراعظم ہاوس جاتا تھا عمران کی اس کہانی پر آج سے تین مہینے پہلے میں نے ایک ویب سائٹ کے لیے کالم لکھا تھا کیا عمران خان کلرک کے قابل تھے؟ اس کالم میں پوری کہانی بیان کی ہے کہ وہ کس طرح وزیراعظم کی کرسی تک پہنچ گیا تھا۔ کس طرح وہ بشریٰ بی بی سے ملا تھا۔ یہ ملاقات اور نکاح کہاں ہوئی تھی۔

دراصل بات یہ ہے کہ عمران خان کا اپنا کوئی وژن، سوچ اور نظریہ نہیں ہے اور اس بات کو میں دلیل کے ساتھ آخر میں بیان کرونگا لیکن سب سے پہلے ان لوگوں کے بارے میں بتاتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہے جو عمران خان کو یہ سب بتاتے بلکہ سکھاتے ہیں کہ آپ نے یہ بولنا ہے اور پھر خان صاحب کیمرے کے سامنے بیٹھ کر شروع ہوتا ہے تین یا پانچ لوگ ہیں جو عمران خان کو یہ سب کچھ بتاتے ہیں۔

عمران خان میں خود بات کرنے اور جواب دینے کی صلاحیت تک نہیں ہے دو دن پہلے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملی اس ویڈیو میں ایک لڑکا عمران خان سے سوال پوچھتا ہے عمران خان کے پاس جواب نہیں تھا اور وہ ہوسٹ میزبان کو کہتا ہے کہ دوسرے بندے کو مائک دو یہ کوئی سوال نہیں ہے آج سے تقریباً ایک سال پہلے پشاور میں ایک صحافی نے عمران خان سے سوال پوچھا تھا تو عمران خان کے پاس جواب نہیں تھا اور اس نے پوری پریس کانفرنس چھوڑ دی اور باہر نکلے۔

موضوع کی طرف آتے ہیں عمران خان آج کل جو باتیں کررہے ہیں تین یا پانچ بندے ہے جو اس کو بتاتے ہیں وہ بندے عمران خان سے زیادہ ہوشیار ہیں۔ ایک بندے کے پاس اتنا علم نہ ہو کہ وہ ایک لڑکے کو جواب دے تو وہ اتنی بڑی بڑی باتیں کیسے کرسکتا ہے۔ لیکن عمران خان میں ایک اور عادت بھی ہے کہ وہ یوٹرن بہت جلد لیتا ہے اور ایسا یوٹرن مارتا ہے کہ خود اس کے چاہنے والے میں حیران ہوجاتے ہیں لیکن ان کے کارکنوں میں عقل تھوڑی زیادہ ہے اس لیے وہ یوٹرن پر بھی فخر کرتے ہیں آج عمران خان جو کچھ کہ رہا ہے کہ مجھے اس نے کہا تھا کہ یہ کروں اور باجوہ نے یہ کہا تھا مجھے علم نہیں تھا لیکن اس بندے نے یہ مشورہ دیا تھا۔

وہ وقت زیادہ دور نہیں عمران خان ان سب باتوں سے انکار کریگا ایک اور یوٹرن۔۔ کہے گا مجھے فلاح شخص نے یہ کہا تھا میں نے خود سے نہیں بولا تھا عمران خان نے زیادہ تر وقت کرکٹ میں گزارا ہے اور وہ کرکٹ بہت اچھی طرح جانتا ہے لیکن سیاست کو وہ بلکل نہیں سمجھتے بلکہ اس نے سیاست کو کھیل سمجھ رکھا ہے عمران خان کو عسکری لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا وہ براے نام سیاست دان ہے بلکہ وہ ایک اچھے کرکٹر ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے عمران خان کی یہ بد قسمتی بھی ہے اور خوش قسمتی بھی کہ ان کے ساتھ ایک ایسا گروپ ہے جو میڈیا کو استعمال کرکے عمران خان کو بطور ہیرو پیش کرتا ہے اور ہمارے سادہ عوام زیرو کو ہیرو سمجھ کر دھوکہ کھا جاتتے ہیں۔

اس گروپ کے کچھ بندے عمران خان کو زلیل بھی کررہے ہیں کیوں کہ آج کل جب وہ عدالت جاتا ہے تو سر پر بالٹی پہن کر چلتا ہے ایک ہجوم اس سے آگے اور ایک پیچھے ہوتا ہے یہ وہ عمران خان ہے جو جلسوں میں کہتا تھا کہ میں بزدل نہیں ہوں میں کسی سے نہیں ڈرتا چوروں سے تو بلکل بھی نہیں۔

Check Also

Sunen, Aaj Kya Pakaun

By Azhar Hussain Azmi