Mehboob Ke Hont Ya Zindagi Ke Almiye?
محبوب کے ہونٹ یا زندگی کے المیے؟

مملکتِ خداداد پاکستان، عالی شان، زندہ پائندہ باد! ہر گزرتے دن کے ساتھ غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ سوچنا خطرناک ذہنی بیماری ہے۔ تو غریب جمع غریب کے ساتھ شعراء حضرات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ علوم نہ ہونے کی وجہ سے ان حضرات کی شاعری ہونٹ، رخسار اور بالوں تک محدود ہوتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ شاعری جذبات کی گواہی ہے، لیکن جب جذبات علم کے بغیر ہوں تو شاعری فقط الفاظ کی جگالی بن جاتی ہے۔ شاعری کی کوکھ میں غربت کا خون دوڑتا ہے، لیکن کم علم شاعروں کے ہاں غربت کا نوحہ نہیں، بلکہ محبوب کے ہونٹوں، زلفوں اور آنکھوں کے قصے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک غم صرف وصل و ہجر کا ہے اور زندگی کا المیہ فقط محبوب کے تیور ہیں۔
یہ دور جدید ہے، مگر سوچ دقیانوسی۔ الفاظ وہی، موضوع وہی، انداز وہی۔ کم علم شاعروں کی شاعری ندی نہیں، جو بہتی جائے، بلکہ ایک جوہڑ ہے جس میں پانی بھی ساکت اور خیالات بھی بوسیدہ۔ معاشرتی مسائل سے ناآشنا، فکری گہرائی سے محروم، یہ شاعری محض قافیہ پیمائی ہے۔
شاعر اگر نبضِ وقت پر ہاتھ نہ رکھے، اگر وہ فقط رومانوی سرابوں میں کھویا رہے، تو وہ شاعر نہیں، بس ایک جذباتی داستان گو ہے، جس کی تخلیق فقط لمحاتی سرور دے سکتی ہے، ذہنی ارتقا نہیں۔
شاعر محض الفاظ کا بازی گر نہیں، بلکہ مفکر ہوتا ہے۔ ایک ایسا ذہن جو وقت کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے اور روح کی گہرائیوں سے حقیقت کشید کرتا ہے۔ لیکن کم علم شاعر کا کینوس محدود ہوتا ہے، اس کی شاعری فقط جسمانی خدوخال کے گرد گھومتی ہے۔ وہ رخسار، زلف، آنکھ، ہونٹ اور ٹخنے سے آگے سوچ نہیں پاتا۔
یہ شاعری نہیں، محض الفاظ کی آرائش ہے بغیر روح کے ایک مجسمہ۔ اصل شاعری وہ ہے جو سماج کا آئینہ ہو، جو سوچ کے بند دروازے کھولے، جو اندھیرے میں چراغ جلائے۔ کم علم شاعر تخیل کی وسعت سے محروم ہوتا ہے، اس کا قلم صرف حسن کی تصویریں بناتا ہے، زندگی کے کرب، فکری بغاوت اور سچائی کی تپش سے ناواقف رہتا ہے۔
غربت شاعری کی ماں ضرور ہو سکتی ہے، مگر جب شعور ساتھ ہو۔ ہر بڑے شاعر نے کسی نہ کسی درد سے جنم لیا ہے، لیکن اس نے اس درد کو علم کی روشنی دی، معاشرتی حقیقتوں کو اپنی شاعری میں سمویا۔ مگر کم علم شاعر کے پاس غربت تو ہے، مگر سوچ کی گہرائی نہیں۔ وہ زندگی کے المیے کو ایک آہ میں سمیٹ کر فارغ ہو جاتا ہے۔ وہ بھوک کو محبت میں بدل دیتا ہے، احتجاج کو فریاد میں اور انقلاب کو آہیں بھرنے کی مشق میں دفن کر دیتا ہے۔
ایسا شاعر جو زندگی کی حقیقتوں کو نہ سمجھ سکے، جو صرف خواب بُننے میں مگن رہے، وہ شعور کی روشنی کیسے پھیلا سکتا ہے؟ اصل شاعر وہ ہے جو زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھے، جو صرف رومانوی محبت کے بجائے حقیقی مسائل پر بات کرے، جو محض جذباتی نہ ہو بلکہ فکری طور پر بیدار بھی ہو۔
شاعر کو صرف عاشق نہیں، مفکر ہونا چاہیے۔ ایسا مفکر جو ذہنوں میں انقلاب برپا کرے، نہ کہ صرف زلفوں میں الجھا رہے۔ شاعری اگر صرف ہونٹوں، زلفوں اور رخساروں کے گرد گھومتی رہے تو یہ حسن کی مدح سرائی تو ہو سکتی ہے، مگر فکر کی بلندی نہیں۔ اصل شاعری وہ ہے جو روح کو جھنجھوڑے، سماج پر سوال اٹھائے اور انسان کو خودی کی معراج تک لے جائے۔
کم علم شاعر کا تخیل محدود ہوتا ہے، وہ جسمانی خدوخال سے آگے نہیں دیکھ پاتا، جبکہ سچا شاعر حقیقت کی گہرائی میں اتر کر الفاظ کے ذریعے روشنی پھیلاتا ہے۔ وہ حسن کے فریب سے آگے نکل کر کائنات کی وسعتوں میں کھو جاتا ہے۔ اس کے اشعار فقط تعریف و توصیف نہیں، بلکہ ایک مکمل فلسفہ ہوتے ہیں، جو ذہنوں کو جھنجھوڑنے اور سوچنے پر مجبور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
حقیقی شاعری وہی ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں کو سمو لے۔ محض محبوب کے خد و خال پر نظمیں لکھنا شاعری نہیں، بلکہ تخیل کا افلاس ہے۔ کم علم شاعر دنیا کو صرف ایک چہرے میں مقید دیکھتا ہے، جبکہ عظیم شاعر ایک چہرے میں پوری دنیا دیکھتا ہے۔ یہی فرق ایک معمولی اور عظیم شاعر کے درمیان ہے۔

