Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Matlab Parast Siasatdan Aur Ghareeb Awam

Matlab Parast Siasatdan Aur Ghareeb Awam

مطلب پرست سیاستدان اور غریب عوام

نظر گل نظر نے بتایا کہ رات کے وقت میں گھر میں موجود تھا اور بیوی پریشان تھی کہہ رہی تھی کہ آٹا بھی ختم ہوگیا آج تو روٹی کھالیں گے لیکن کل؟ بیوی نے کہا کہ بچی بھی بیمار ہے میں نے کہا کہ میں کچھ کروں گا کسی سے ادھار۔۔ نظر گل نے بتایا کہ بیوی سے کہا کہ میں تو روز صبح کام کے لیے چلا جاتا ہوں اور شام کو واپس آتا ہوں لیکن میں بھی انسان ہوں آخر کیا کروں ٹھیکیدار صاحب چھٹی کی وقت آٹھ سو روپے دیتے ہیں، تو اس آٹھ روپے میں میں کیا کیا خریدوں؟

مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے بازار میں کسی چیز کے پاس تک نہیں جاسکتے جب قیمت پوچھتے ہیں تو سامنے والا بندہ ایسی قیمت بتاتا ہے کہ میں خود حیران ہوتا ہوں کہ اس چیز کو کیسے خریدوں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے بیوی کو جھوٹی تسلی دی اور کہا کہ کل میں آٹے کی بندوبست کروں گا لیکن دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ بیس کلو آٹے کی قیمت تو آج کل ستائیس سو روپے ہیں آٹھ سو روپے میں کیسے خریدوں لیکن نظر گل کا دل بڑا تھا انھوں نے کسی طریقے سے بیوی کو جھوٹی تسلی دے کر خاموش کر دیا۔

نظر گل نے بتایا کہ میں نے آٹے کا مسلہ تو حل کردیا کہ کل گھر میں آٹا ہوگا لیکن اس کے بعد بیوی نے غصے میں بولی کہ تم تو صبح گھر سے چلے جاتے ہوں لیکن ہماری چھوٹی بیٹی آمنہ کئی دنوں سے بیمار ہے کل بانو باجی آئی تھی کہ رہی تھی کہ جب سردی تازہ تازہ شروع ہوتی ہے تو مختلف بیماریاں بھی اپنے ساتھ لاتی ہیں بچی کی چند دنوں سے سخت بخار ہے میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں اس کا پرائیویٹ ہسپتال سے علاج کراؤں۔ لمبی چوڑی تقریر سنے کے بعد نظر گل نے اپنی بیوی کو بتایا کہ تو آسان کام کیوں نہیں کرتیں سرکاری ہسپتال جاؤں وہاں پر بھی ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ وہ بھی مریضوں کی علاج کرتے ہیں ہماری بچی کا معائنہ بھی کریں گے اور سرکاری ہسپتال میں تو دوا بھی فری مفت ملتی ہے۔

کچھ سیکنڈ کے لیے بیوی خاموش ہوئی اور غصے سے بولی آمنہ کے آبا تو کس جہاں میں رہتے ہو، پاگل تو نہیں ہو۔ یہ سن کر نظر گل نے بیوی پر غصہ کیا۔ بس اپنی منہ بند کرو بیوی نے کہا نہیں نہیں جناب میری پوری بات تو سنو میں نے یہ تجربہ بھی کیا ہے کل ہسپتال گئی تھی جب ڈاکٹر صاحبہ کے کمرے میں داخل ہوئی تو ڈاکٹر صاحبہ نے پوچھا کیا مسئلہ ہے میں نے کہا میری بچی چار دنوں سے بیمار ہے سخت بخار ہے اس نے یہ تک نہیں کہا کہ کرسی پر بیٹھ جاؤ، پوری بات تک نہیں سنی اور نہ مجھ سے بچی کے متعلق کچھ پوچھا کہ کب سے یہ بچی بیمار ہے، میں کھڑے کھڑے مرض کے متعلق بتاتی رہی اور اس نے جلدی جلدی کاغذ پر کچھ لکھا کہا جاؤ۔ میں وہاں گئی جہاں پر مفت دوا ملتی ہے تو وہاں پر موجود بندے نے کہا یہ دوا یہاں پر دستیاب نہیں ہے باہر سے خریدو۔ میں نکلی، میرے پاس پیسے نہیں تھے۔

نظر گل نے بتایا کہ میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس دوران گھر کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا میں نے کہا اس وقت پر کون آگیا۔ خیر جب میں نے دروازہ کھولا اور دیکھا تین آدمی کھڑے تھے ایک نے سفید کاٹن کا جوڑا پہنا تھا اور دو لوگ اس کے دائیں بائیں کھڑے تھے جس نے سفید کپڑے پہنے تھے اچانک میرے قریب آیا اور مجھے سے مصافحہ کیا کہا کیسے چاچا طبعیت کیسی ہے بجلی نہیں تھی گلی میں تاریکی تھی میں نے پوچھا آپ کون تو جو دو آدمی اس کے دائیں بائیں کھڑے تھے انھوں نے کہا کہ یہ ایم پی اے صاحب ہیں میں نے کہا کہ آپ سے میں نے نہیں پوچھا میں نے ان سے پوچھا ہے اس آدمی نے کہا کہ میرا نام یہ ہے اور میں ایم پی اے تھا۔

میں نے ڈائریکٹ کہا تو میں کیا کروں تو اس نے کہا کہ ہم تو دعا کرنے کے لیے آئے ہیں ٹریفک حادثے میں آپکے بیٹے کا انتقال ہوا تھا میں نے کہا ایک سال بعد آپ کو اب فرصت ملی ہے انہوں نے کہا نہیں نہیں میں تو۔۔ میں تو۔۔ وہ وہ۔۔ اس آدمی کی زبان وہیں رک گئی جو چپڑاسی اس کے ساتھ آئے تھے وہ شروع ہورہے تھے لیکن میں نے دونوں کی بات کاٹ دی اور کہا کہ آپ اس لیے آئے ہو کہ مجھے ووٹ دے دوں اس کے علاؤہ آپ کا کوئی مقصد نہیں دعا تو صرف ایک بہانہ ہے۔

نظر گل نے بتایا میں نے ان تینوں کو وہیں پر کھری کھری سنا دیں اور تلخ لہجے میں کہا کہ دفع ہو جاو یہاں سے آیندہ غلطی سے بھی اس طرف مت آنا نظر گل نظر نے بتایا کہ میری عمر چالیس سال ہے اور یہ لوگ ہر پانچ سال بعد یہاں آتے ہیں بھیک مانگنے کہ مجھے ووٹ دے دو اور جب منتخب ہوتے ہیں تو گاؤں بھی چھوڑ جاتے ہیں اور کہیں دور جاکر اپنے بنگلے میں بیٹھ کر غریب کا خون پیتے ہیں، عیاشیاں کرتے ہیں جب ہم وہاں جاتے ہیں تو یہ چپڑاسی ہمیں کہتے ہیں کہ صاحب نہیں ہے حالانکہ وہ گھر میں موجود ہوتا ہے۔

نظر گل نے بتایا کہ چار دن پہلے کی بات ہے ٹھیکیدار صاحب کہ رہے تھے کہ ہمارے علاقے میں ا ب ت پارٹی نے بہت کام کیا ہے اور وہ بلکل کرپٹ نہیں انھوں نے سب مزدور کو کہا کہ آیندہ انتخابات میں اس جماعت کے امیدواروں کو ووٹ دو۔ میں نے ہنس کر دوسرے ساتھی کو بتایا کہ یہ اس لیے تعریف کرتا ہے کہ ان کو ٹھیکہ ملتا ہے۔ پھر میں نے کہا ٹھیکیدار صاحب یہ سب ایک گدھے کے کان ہے۔ ان میں کوئی بھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں بس اپنی پیٹ بھرنے کے لیے الیکشن سے پہلے یہ گیم عوام کے ساتھ کھیلتے ہیں ان کا کام ہی سادہ لوح لوگوں کو بے وقوف بنانا۔ اس پر ٹھیکیدار غصہ ہوئے کہا تم تو اپنا کام کرو۔

اگر دیکھا جائے تو نظر گل نظر کی ساری باتیں سولہ آنے درست ہیں نظر گل نظر کی کہانی دراصل میں ایک افسانہ ہے لیکن اگر ہم اس پر غور کریں تو یہ حقیقت بھی ہے۔

انتخابات میں کم وقت باقی ہیں۔ لیکن سیاسی جماعتوں نے اب سے اپنی ٹیمیں بنارہے ہیں اس میں کچھ سوشل میڈیا پر اور کچھ گلی محلوں میں سیاسی جماعتوں کے بارے میں باتیں شروع کرینگے اور کہے گے کہ یہ سیاسی جماعت محب وطن ہے کیونکہ عمران خان کو جب سے جیل میں بند کیا ہے اسی دن سے پاکستان تحریک انصاف ورکرز کبھی فوج کی خلاف باتیں کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی نواز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں عمران خان کی جیل جانے کے بعد ان کے کارکنوں کے ذہن میں یہی بات کسی نے ڈالی ہیں کہ فوج کرپٹ ہے ملک دشمن ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ان لوگوں کے خیال میں زرداری ڈاکو ہے نون لیگ چور ہے اور جب مولانا فضل الرحمان کا نام آتا ہے تو ان کو گالیاں دیتے ہیں یہ لوگ عمران دور حکومت میں بھی یہی کہتے تھے اور اب بھی یہی کہ رہے ہیں۔

اس کے علاؤہ ہر سیاسی جماعت نے اپنے بندے رکھے ہیں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے کے لیے ان کا کام دوسروں کو گالیاں دینا، مخالف سیاست دان کے بارے میں پروپیگنڈا کرنا، جھوٹ بولنا اور پھیلانا لیکن عوام کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہ کریں اور خود فیصلہ کریں کہ کس کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں یہ بھی نفسیاتی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے کہ کسی کے پاس کسی چیز یا کسی کام کرنے کا اختیار ہو اور وہ پھر بھی اپنے اس اختیار کا خیال نہیں رکھتے اور دوسروں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ اور خود اپنا فیصلہ نہیں کرتا تو یہ بندہ بھی کسی سطح پر نفسیاتی بیماری کا شکار ہے۔ ان کو چاہیے کہ اپنا علاج ووٹ دینے سے پہلے اپنا علاج کرائیں۔

Check Also

Hamari Qaumi Nafsiat Ka Jawab

By Muhammad Irfan Nadeem