Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asif Ali Durrani/
  4. Kya Imran Khan Clerk Ke Qabil Thay?

Kya Imran Khan Clerk Ke Qabil Thay?

کیا عمران خان کلرک کے قابل تھے؟

سنہ دو ہزار سولہ اور سترہ میں آٹے کی بیس کلو بوری کی قیمت تقریباً آٹھ سو روپے تھی اس کے علاوہ دیگر اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بھی آج کے موجودہ قیمتوں کے مقابلے میں بہت کم تھیں۔ یہ پاکستان مسلم لیگ ن کا دور حکومت تھا۔ ملک میں خوشحالی تھی۔ ایک ڈالر کی قیمت سو روپے سے زیادہ نہیں تھی۔

اس دوران تحریک انصاف کے چیئرمین اور پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں تبدیلی کا نعرہ شروع کیا اور کہ رہا تھا کہ میں نیا پاکستان بناؤں گا۔ میرے علاوہ سارے سیاستدان کرپٹ، ملک دشمن اور غدار ہیں حتیٰ کہ انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کو بھی نہیں چھوڑا حلانکہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہان نے اس مٹی پر امن قائم کرنے کے لیے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔

عمران خان کس طرح سے اقتدار کی کرسی تک پہنچا اس کہانی کو دو ٹوک الفاظ میں بیان کرنا غیر مناسب بات ہے۔ تو کہانی کا آغاز کرتے ہیں عمران خان کی اہلیہ محترمہ بشریٰٰ خاور مانیکا کی بیوی تھی۔ بشریٰ کی خاور مانیکا کے ساتھ شادی کیسے ہوئی یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ جب پاکستان آزاد نہیں ہوا تھا تو یہاں پر انگریزوں کی حکمرانی تھی اور انگریزوں کے پاس مال دولت بھی بہت زیادہ تھا۔ جاگیردار تھے انہوں نے اپنے زمینوں کو کاشت کرنے کے لیے مزدور رکھے تھے۔

وہ انگریز کی زمین میں فصلیں کاشت کرتے تھے اور سارا سرمایہ انگریز کی جیب میں جاتا اور زمینداروں کو ماہانہ تنخواء دیتے اس طرح یہ سلسلہ جاری تھا۔ جب زمینداروں کے خاندان میں کوئی شخص فوت ہوتا تو اس کو دفن کرتے اور اسکی قبر کو بعض لوگ پختہ کرتے تاکہ ہمارے آنے والی نسل ہمارے آباؤ اجداد کو پہچان سکے۔ یہ سلسلہ جاری تھا وقت گزرتا گیا جن لوگوں نے اپنے باپ، دادا کے قبر کو پختہ کیا تھا۔ ان کی آنے والی نسل نے ان پختہ قبروں سے زیارت، دربار تعمیر کیے۔

یہ سلسلہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بہت مقبول تھا۔ اُس وقت دور دراز کے لوگ جب کسی کام کے سلسلے میں اس زیارت یا دربار کی طرف آتے تھے۔ تو یہ لوگ جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے یہ دربار بناۓ تھے کسی نہ کسی طریقے وہ دور دراز سے آنے والے افراد کو اس زیارت کے بارے میں جھوٹے قصے کہانیاں سناتے تھے۔ یہ جو دربار آپ دیکھ رہے ہیں یہ ہزاروں سال پرانا ہے اور اس میں ہمارے بزرگ دفن ہے۔ کسی نہ کسی طریقے سے اس اجنبی مطلب دوسرے قبیلے کے لوگوں کو دھوکا دیتے تھے۔

دربار تو ظاہر سی بات ہے جھوٹا تھا لیکن یہ انگریز کے نوکر چاکر جنہوں نے جو جھوٹے دربار تعمیر کیے تھے اس دربار میں اس کے اپنے بندے بیٹھے ہوتے تھے۔ جب اجنبی شخص ان لوگوں کی باتوں سے متاثر ہوتا تو وہ دربار جاتا اور وہاں پر وہ جاتا اس جھوٹے ولی سے سوال کرتا۔ اس دوران انگریز کے غلام ملنگ کے روپ میں اس اجنبی کے پاس جاتا اور اسے کہتا کہ کیا مسئلہ ہے مجھے بتا دو اور دو تین نعرے بھی اس جعلی پیر یا قبر کے بارے میں لگاتے۔

وہ اجنبی شخص اس کو اپنا مسئلہ بیان کرتا کہ مجھے یہ مسئلہ درپیش ہے اگر یہ بابا میرا یہ مسئلہ حل کریں تو میں سکون کی سانس لونگا۔ اس طرح وہ ملنگ جو اصل میں انگریز کا نوکر تھا وہ اس اجنبی کو کہتا کہ آپ کا کام اتنے دن میں ہوگا چونکہ یہ ملنگ اصل میں انگریزوں کا نوکر تھا اسکا ہر حکم مانتا تھا تو یہ شخص انگریز کی منت سماجت کر کے اور خوشامد کر کے کہتا کہ سرکار فلاں بندے کا یہ کام ہے وہ کرو۔ وہ انگریز اپنے نوکروں کو حکم دیتا اور اس طرح اُس اجنبی کا کام ہوتا۔

یہاں ہر یہ جعلی اور فراڈی شخص خوش ہوتا کہ بندے کا کام ہوا اور وہاں پر وہ اجنبی حیران ہوتا کہ اس دربار میں خدا جانے کون سا ولی، بزرگ دفن ہے جو میری فریاد سنتا ہے۔ کیونکہ میرا بہت بڑا کام ہوگیا۔ اس طرح وہ جس علاقے میں رہتا تھا اس علاقے کے عوام کو کہتا کہ فلاں شہر میں ایک دربار ہے اگر آپ لوگوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہو کسی سے تنگ ہوں تو جا کے وہاں پر مانگو۔

اس طرح وہ لوگ آتے بہت سے پیسے چندے کی شکل میں دیتے اور چلے جاتے۔ سو میں سے آٹھ دس بندوں کی سفارش وہ انگریز کا نوکر انگریزوں کے بڑے سربراہ کو کرتے اور وہ ان لوگوں کے کام کرتے۔ یہ سلسلہ جاری تھا کئی سال گزر گئے اور درباروں کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ پاکستان وجود میں آیا تو پنجاب میں یہ دربار سینکڑوں سالوں سے آباد تھے لوگوں نے مسئلے حل کرنے کی ایک راہ ڈھونڈ لی تھی۔

پڑھنے والوں سے معذرت کہانی کو میں نے بہت مختصر بیان کیا۔ خاور مانیکا کا تعلق بھی اس خاندان سے ہے جس نے انگریز کے دور میں درباری نظام شروع کیا تھا۔ بشریٰ جس کو بہت سے لوگ پنکی بھی کہتے ہیں لفظ پنکی کا مطلب "آزاد"۔ یوں کہیں آزاد عورت بشریٰ نے خاور مانیکا سے شادی کی خاور مانیکا چونکہ خود امیر گھرانے سے انکا تعلق ہے اور بہت سے پیسے وہ درباروں سے وصول کرتے ہیں۔ شادی کے بعد انہوں نے، بشریٰ نے بھی دربار جانا شروع کیا اور وہاں کے لوگ اسکی بہت قدر کرتے تھے۔

یہ روز دربار جاتی اور وہاں پر جھوٹا دم درود کرتی اور وہاں کے لوگوں کو کہتی کہ میں معلمہ ہوں۔ خاور مانیکا کا خاندان بہت مالدار ہے وہ اس لیے کیونکہ وہ ان درباریوں سے مہینے کے لاکھوں روپے پیدا کرتے ہیں کیونکہ پنجابی زیادہ تر درباروں اور زیارت وغیرہ پر جاتے ہیں اس طرح یہ سلسلہ جاری تھا۔ بشریٰ چونکہ اصل میں ایک آزاد عورت تھی اور اسکی تعلقات دوسرے لوگوں، مردوں سے بھی تھے۔ ریٹائرڈ فیض حمید کے ساتھ بھی بشریٰ کے بہت قریبی تعلقات تھے۔

فلم انڈسٹری کی ایک اداکارہ تھی نورہ نام تھا اس ادکارہ کا۔ نورہ کی تین بار طلاق ہو چکی تھی جب نورہ کی بشریٰ سے ملاقات ہوئی تو بشریٰ نے اسے یہ کہا کہ میں تمہاری چوتھی شادی اپنی مرضی سے کرونگی۔ بشریٰ نے نورہ کی شادی اپنے قریبی دوست سے کی اور کچھ وقت گزارنے کے بعد اپنی بیٹی کی شادی دوسرے دوست سے کی۔ تینوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ فیض حمید کا اپنا الگ تعلق بشریٰ کے ساتھ تھا لیکن بشریٰ کے مرد دوست کا کہنا ہے کہ ہم دیکھتے تھے وہ بشریٰ کے گھر آتے جاتے تھے۔

اس دوران عمران خان نے ریحام خان کو طلاق دی۔ بشریٰ کے دوست نے کہا کہ جب مجھے طلاق کا پتہ چلا تو میں بہت افسردہ ہوا کہ یہ خان صاحب نے کیا کیا۔ میں بنی گالا گیا خان صاحب سے ملا وہ بےحد افسردہ تھے میں نے کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ طلاق کے بعد وہ کافی دنوں تک مینٹلی طور پر ٹھیک نہیں تھے۔ دوسری ملاقات میں میں نے خان صاحب کو کہا کہ میری گاڑی میں بیٹھو میں آپکو ایک معلمہ سے ملاتا ہوں۔ خیر خان صاحب گاڑی میں بیٹھ گئے اور میں نے عمران خان کو بشریٰ کے پاس لے گیا۔

جب میں نے گاڑی بشریٰ کے گھر میں داخل کی اور خان صاحب گاڑی سے باہر نکلے اس دوران اچانک بشریٰ آ گئی اور عمران خان کے چہرے پر اپنے دونوں ہاتھ کچھ سیکنڈ کے لیے رکھے۔ بشریٰ کے دوست کا کہنا ہے کہ میں حیران رہ گیا کہ بشریٰ نے کیا کیا چند منٹ گزرنے کے بعد بشریٰ نے خان صاحب سے پوچھا طبعیت کچھ ٹھیک ہوئی کہ نہیں؟ عمران خان خاموش تھے میں عجیب کشمش میں تھا کہ بشریٰ کو کس نے بتایا کہ عمران سخت پریشان ہے؟

کچھ دنوں کے بعد خان صاحب نے کہا کہ بشریٰ کے گھر چلتے ہیں میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن میں حالات کو دیکھ کر کنفیوز تھا کہ کچھ تو ہے۔ جب ہم دوبارہ گھر میں داخل ہوۓ تو بشریٰ آ کے خان کے ساتھ بیٹھ گئی اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ میں اتنے مصروف تھے کہ مجھے موقع نہیں دیا۔ بشریٰ نے عمران خان کو یہ بھی کہا کہ میرے ساتھ جادوئی علم ہے اور اس کے ذریعے میں کچھ بھی کر سکتی ہوں۔

کچھ دنوں بعد بنی گالا کے قریب گلی نمبر دو میں ایک گھر ہے بشریٰ وہاں آئی۔ میری پریشانی میں اور بھی اضافہ ہوا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں کر رہی ہے؟ بشریٰ عمران خان کے گھر کے قریب تھی وہ روزانہ شام کو بشریٰ کے گھر جاتا تھا اس دوران بشریٰ نے طلاق بھی خاور مانیکا سے لی تھی۔ عمران خان اور بشریٰ کی محبت کو دیکھ کر میں کافی حیران تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور خان صاحب کیوں ایسا کر رہا ہے؟

ایک دن بشریٰ نے عمران خان کو کہا کہ میں اپنی مرضی سے تمہاری شادی کرونگا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد عمران خان نے مجھے کہا نکاح کی تیاری کرو میں نے کہا آپ کس سے نکاح کر رہے ہو؟ عمران خان نے کہا بشریٰ سے، میں نے سوال کیا کیوں؟ انہوں نے کہا کہ اس نے، بشریٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تم مجھ سے شادی کرو میں تمہیں وزیراعظم بنا دونگی کیونکہ میرے پاس جنات کا علم ہے۔ میں حیران رہ گیا کہ خان صاحب سوچ لو یہ تم کیا کر رہے ہو۔

خان صاحب نے کہا میری پارٹی زیادہ سے زیادہ تیس سیٹیں جیتے گی اور بشریٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ میں حیران تھا کہ بشریٰ کون سی چال چلا رہی ہے کہ اس نے خان کو دھوکہ دیا، خیر میں نے نکاح کا بندوست کیا نکاح کے وقت حق مہر میں بشریٰ نے کہا کہ یہ بنی گالا میرے نام کر دو۔ عمران خان نے کہا ٹھیک ہے لکھو، میں نے خان صاحب کو کہا آپ نشے میں تو نہیں ہو یہ کیا کر رہے ہو؟ خیر کافی بات چیت کے بعد میں نے خان اور بشریٰ کو الگ الگ سمجھایا۔

آخر میں بشریٰ نے کہا کہ زمان پارک میں جو گھر ہے اور باقی جو مہنگی زمین ہے وہ میرے نام کر دو۔ عمران خان نے کہا ٹھیک ہے لکھو، نکاح تو ہوا لیکن بشریٰ نے خان صاحب کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے وہ جو بھی کرتا تھا بشریٰ کی اجازت کے بغیر نہیں کرتا تھا۔ جب پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم ہو رہی تھی اس شام بنی گالا میں ایک پروگرام تھا۔ خان بشریٰ کی اجازت کے مطابق اپنے ایم این اے اور ایم پی اے کی ٹکٹ تقسیم کر رہا تھا لیکن اس سے قبل خان صاحب نے اپنے قریبی دوست جسکو بشریٰ بھی جانتی تھی اور خان کا قریبی دوست بھی تھا کو کال کی کہ تم پارٹی میں مت آؤ۔

خان کے دوست کے مطابق میں نے خان صاحب کو کہا کیوں میرے سارے دوست پارٹی میں ہونگے اور میں نہیں یہ تو سراسر غلط بات ہے۔ خان نے غصے سے کہا کہ بشریٰ نے کہا ہے کہ اس بندے کو مت بلاؤ کچھ ہفتوں کے بعد مجھے پتہ چلا کہ پارٹی میں کیا ہوا تھا اور ساری کہانی کے پیچھے کون تھا جس نے سب کچھ کر دیا۔ اس سارے گیم میں دو لوگ شامل تھے ایک فیض حمید اور دوسرا ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ دونوں نے سارا پلین بنایا تھا۔

جس وقت ٹکٹ تقسیم ہو رہے تھے تو ایم پی اے کی ٹکٹ کی قیمت تین کروڑ تھی اور ایم این اے کی سات کروڑ تھی۔ تین اور سات کروڑ میں عمران خان نے سنہ دو ہزار اٹھارہ کے ٹکٹ فروخت کیے تھے۔ سات کروڑ میں چار کروڑ بشریٰ کے اور تین کروڑ روپے فیض حمید نے وصول کیے تھے۔ اور فیض حمید نے دعویٰ کیا تھا ٹکٹ تقسیم کرتے وقت امیدواروں کے ساتھ کہ میں آپکو پاس کر دونگا۔ یہ تھی عمران خان کی چار سالہ حکومت کی داستان۔

Check Also

Hafiz Ki Jamaat

By Najam Wali Khan