Theodora Malka e Qastuntunya (6)
تھیوڈورا ملکہ قسطنطنیہ (6)

پاپائے روم اگاپیٹس کے ہاتھوں تھیوڈورا کو بہت ہی تکلیف دہ شکست ملی تھی، تاہم اس نے صورتحال کا از سر نو جائزہ لیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ ابھی سب کچھ نہیں بگڑا، ایک اور شخص جس کو اس بات کی سمجھ تھی وہ روم سے سابق پاپائے روم اگاپیٹس کے ساتھ استنبول آنے والے ایک پادری ویجیلس تھے جن کی خود اس عہدے پر نظریں تھی، اس نے تھیوڈورا سے وعدے کیے کہ وہ اگر اس کی پاپائے روم بننے میں مدد کرے تو وہ دونوں ساتھ مل کر کام کریں گے، تھیوڈورا نے ان کو اپنی حمایت کے ساتھ روم روانہ کیا لیکن ان کے روم پہنچنے سے پہلے ہی وہاں پر ایک اور اعلیٰ پادری سلویریس نے اٹلی کے اس وقت کے اوسٹروگوتھ بادشاہ کی مدد سے اپنے آپ کو پاپائے روم بنوا لیا تھا۔
تھیوڈورا اتنی جلدی ہار ماننے والی نہیں تھی، کئی دیگر مواقع کی طرح ایک بار اس کا ہتھیار اس کی تھیٹر کے زمانے کی ساتھی اور اب سلطنت کے سب سے اہم جرنیل بیلیساریس کی بیوی اینٹونینا بنی، رومی فوجیں اٹلی دوبارہ فتح کرنے کے لیے تیار تھیں اور اینٹونینا نے پاپائے روم سلویریس پر شہنشاہ جسٹینین کے خلاف غداری کا إلزام لگا کر عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
یہ إلزام سچا تھا یا اینٹونینا کی تھیوڈورا کے ساتھ مل کر تیار کی گئی سازش، اس پر مختلف آرا موجود ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سلویریس کو پاپائے روم کا عہدہ چھوڑنا پڑا اور ویجیلس پاپائے روم بن گئے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے عہدہ سنبھالتے ہی تھیوڈورا سے کیے گئے تمام وعدے بھلا دیے، تھیوڈورا نے اپنا آخری پتا کھیل دیا تھا اور وہ ہار گئی تھی، وقتی طور پر وہ صرف غصہ ہو سکتی تھی۔
ایونز لکھتے ہیں لوگوں کو کچھ سمجھ نھیں آ رہا تھا۔ "یہ ایک ایسی شادی تھی جو شادی کے اس عام تصور کو جھٹلا رہی تھی جس میں مرد خاندان کا سربراہ ہوتا تھا"۔
ایونز کے خیال میں"جسٹینین کے لیے اسی میں فائدہ تھا کہ چیلسیڈونین مخالف لوگ سمجھیں کہ شاہی دربار میں ان کا کوئی ہمدرد ہے اور اس کام کے لیے ملکہ سے بہتر کون ہو سکتا تھا جس کی شہنشاہ سے وفاداری ہر شک سے بالاتر تھی۔۔ تھیوڈورا نے مرکزی دھاروں سے باہر ان لوگوں کی طرف ہاتھ بڑھایا جن کو ضرورت تھی کہ کوئی ان کے لیے آواز اٹھائے"۔
تھیوڈورا سنہ 548 میں وفات پا گئی، جسٹینین اس کے بعد 17 برس زندہ رہا اور سنہ 565 میں وفات پائی، شہنشاہ جسٹینین کے تقریباً چالیس سالہ دور میں رومی سلطنت میں اہم واقعات ہوئے جن میں تمام قوانین ایک جگہ اکٹھے کیے گئے، اس مجموعے کو "جسٹینین کوڈ" کہا جاتا ہے، سنہ 541 میں طاعون نے تباہی مچائی، مشرق میں ایران کے ساتھ جنگی مہمات ہوئیں، سلطنت کے یورپی اور دیگر دشمنوں کے خلاف کامیاب جنگوں کے بعد شمالی افریقہ اور اٹلی میں علاقے واپس حاصل کیے گئے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ فتوحات زیاد دیر پا ثابت نہیں ہوئیں کیونکہ چند دہائیوں بعد 7ویں صدی میں اسلام آمد کے بعد بازنطینی کو بہت سے علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑا، تاہم یہ آج کا موضوع نہیں، یہ کہانی تھیوڈورا اور جسٹینین کی محبت کی ہے۔
ان دونوں کے زندگی میں مذہبی معاملات میں جو بھی اختلافات تھے وہ اس وقت ختم ہو گئے جب جسٹینین نے اپنی وفات سے پہلے چیلسیڈونین نظریے سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا، مؤرخ لکھتے ہیں تھیوڈورا نے چرچ کو تقسیم نہیں کیا تھا لیکن اس کی راہ ضرور ہموار کی۔
شہنشاہ جسٹینین کی چیلسیڈونین نظریے سے لاتعلقی کے بارے میں ایونز لکھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا اور مذہبی علوم کا ماہر تھا لیکن اس کے ذہن میں شکوک تھے، "اس نے مذہب کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے راتوں کو جاگ کر غور کیا، وہ اپنی موت کے وقت بالآخر وہ کسی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا اور اسے جو جواب ملا وہ چیلسیڈونین نظریات میں نہیں تھا بلکہ پاپائے روم کے قبول شدہ نظریے سے ایک انتہائی مخالف سوچ میں ملا"۔
مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہی محل کے اندرونی حصے میں تھیوڈورا کے ساتھ تنہائی کے لمحات میں ہونے والی مذہبی بحثوں نے شاید شک کا بیج زندہ رکھا جو وقت کے ساتھ بڑھتا گیا، روایات کے مطابق جسٹینین، تھیوڈورا کی وفات کے بعد جتنے دن زندہ رہا ہر روز اس کی قبر پر جاتا رہا، آج تھیوڈورا کا نام کم لوگ جانتے ہوں گے لیکن جب آیا صوفیہ میں موزیک پتھر سے بنی تصویر دیکھتے ہیں تو یہ ضرور سوچتے ہیں کہ اس عالی شان عمارت میں یہ تصویر کیوں آویزاں ہے، بے شک رب تعالی جس کو چاہے عزت دے۔
معصوم جذبوں کو منزل بھی تب ملتی ہے جب ان میں سچائی ہو اور کاتب تقدیر نے مزید ایڈونچر مقدر میں نہ لکھا ہو، دیوداس کی کہانی کو امر بنانے والی بنیاد یا ڈرامائی موڑ دیوداس کی ماں کا پارو کی ماں کی بے عزتی کرنا تھا، اگر وہ واقعہ نہ ہوتا تو آج دنیا دیوداس کا نام بھی نہ جانتی، روزمرہ زندگی میں کئی کام یا واقعات روزانہ ہزاروں کی بنیاد پر ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ فلاں کام یا عمل کس نے پہلی مرتبہ کیا ہوگا؟ کیا پہلی مرتبہ ہی اس کا کام لاجواب پیمانے پر تھا کہ اسے سند قبولیت عام مل گئی اور مزید ردوبدل کی گنجائش نہ رہی؟
انطاکیہ میں وہ لٹیرا، تھیوڈورا کی جمع پونجی چُرا لے گیا، دھوکے کا شکار، دل سے حالات کو روتی کڑھتی تھیوڈورا کے آنسوؤں نے میسیڈونا کو اپنے جاسوسی ہدف حاصل کرنے کیلئے ایک بہترین آلہ کار مہیا کر دیا تھا لیکن کچھ کام قدرت کسی بہانے سے کرواتی ہے، بظاہر بہت سیدھا نظر آنے والا کام بھی، تاریخ میں خواتین کو قحبہ گری کیلئے استعمال کرنے پر سزا کا قانون پہلی مرتبہ تھیوڈورا نے پیش اور نافذ کیا تھا اور یہ اس کا تمام انسانیت پر احسان ہے کہ نفرت جرم سے کرو، مجرم سے نہیں۔
کبھی کسی شریف زادی کو برقعہ پہن کر خود کو چھپاتے گاہکوں سے ملنے آتے جاتے دیکھا ہے؟ کبھی کسی ظاہر طوائف کو نہا دھو کر پاک صاف لباس پہنے مندر کی سیڑھیاں چڑھتے، مسجد کے اندر داخل ہوتے یا کسی مزار پر آنکھیں بند کرکے منت مانگتے دیکھا ہے؟ ان لمحوں میں بہت روحانیت و پاکیزگی ہوتی ہے، کیونکہ وہ صدق دل سے فقط ایک رب سے مانگ رہی ہوتی ہے، دل ہی دل میں اللہ کا ڈر بھی ہوتا ہے، یہ ڈر کہ کیا پتہ وہ رب عطا کرے یا نہ کرے، اس رب سے مدد، خوشنودی حاصل کرنے اور بخشش ملنے کی آس کا ایک نام آیا صوفیہ ہے کہ پیسے والے اپنے گناہ آسانی سے بخشوا لیتے ہیں تو ہم رب کے وعدے پر اس کا گھر تعمیر کرتے ہیں کہ شائد ہماری بخشش ہو جائے، رب کا گھر تعمیر کرنے کیلئے دل میں رب کا ڈر ہونا شرط اولین ہے تب ہی رب وہ عمل قبول کرے گا یا کمتر درجے کی قبولیت ہوگی۔
ریاکاروں یعنی دکھاوے کی نماز پڑھنے والوں کیلئے وعید ہے کہ انسان جو بھی کرتا ہے اس کے دل میں پوشیدہ، ان کہے رازوں سے بھی رب واقف اور خوب جانتا ہے، انسان دنیا میں اپنی من مرضی کے نتائج حاصل کرنے اور خود کو برتر سمجھنے کیلئے بے لگام ہو کر جتنے دل چاہے جرائم کرے، اسے ایک دن ان جرائم کی سزا ملے گی اور وہ سزا رب دے گا جس پر سب کا ایمان ہونا لازم ہے، رب کے اس ڈر کا نام آیا صوفیہ ہے۔
اور تاریخ فقط انہی کا ذکر کرتی ہے جو موت کا ڈر ختم کر دیتے ہیں، جن کیلئے عزت سب سے بڑھ کر پیاری ہوتی ہے، اس عزت کیلیے وہ پیسے کی پرواہ بھی نہیں کرتے، جینے کیلئے موت سے ٹکرا جاتے ہیں، مشکلات سے گھبرا کر نہیں بھاگتے بلکہ سامنا کرتے ہیں، مونوفسٹ فرقے کے لوگوں نے تھیوڈورا کی مدد اللہ کی خوشنودی کیلئے کی تھی، تھیوڈورا نے اس نیکی کو آگے بڑھا کر آیا صوفیہ تعمیر کروا دیا، وہ ایک رب جو نام، مقام، خوشیاں اور ہمیشہ برقرار رہنے والی جوانی عطا کرنے پر قادر و مطلق ہے کہ سب اس کے در کی طرف دیکھیں، کسی دوسرے سے مدد کی امید نہ رکھیں، وہی سب کی ہر امید پوری کر سکتا ہے، وہ اس زمین پر امن دیکھنا چاہتا ہے، شیکسپیئر نے سچ کہا تھا۔۔
یہ دنیا ایک تھیٹر ہے، ہر کوئی آتا ہے، کہانی میں اپنا کردار ادا کرکے چلا جاتا ہے، ایک چھوٹا سا اضافہ کہ دنیاوی کہانیاں ختم ہو جاتی ہیں لیکن ایک کہانی، رب کی وحدانیت ہمیشہ زندہ رہے گی۔

