Theodora Malka e Qastuntunya (4)
تھیوڈورا ملکہ قسطنطنیہ (4)

ایونز کا کہنا ہے کہ پروکوپیس نے جو الفاظ تھیوڈورا سے منسوب کیے وہ اگر وہ تعلیم یافتہ ہوتی تو تسلیم کیے جا سکتے تھے لیکن ضروری نہیں اس نے بالکل اسی طرح بات کی ہو، تاہم وہ کہتے ہیں تھیوڈورا کا سکول تھیٹر تھا اور اگر اس کی تقریر اتنی اعلیٰ نہیں بھی تھی تو اتنی ڈرامائی ضرور رہی ہوگی، ان کے خیال میں تھیوڈورا کا شہنشاہ جسٹینین پر اثر ورسوخ مدنظر رکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ یہ تھیوڈورا کا ہی مشورہ ہو کہ اب ہجوم ہپوڈروم میں جمع ہے انھیں شکست دینا آسان ہوگا، استنبول کی تنگ گلیوں میں شاہی دستے مظاہرین سے نمٹنے میں ناکام رہے تھے لیکن جب سب لوگ ایک سٹیڈیم میں جمع ہوئے تب معاملہ مختلف تھا، یہ جس کا بھی مشورہ تھا لیکن ہوا یہی کہ جرنیل بیلیساریس اپنے وفادار دستوں کے ساتھ ہپوٹروم گئے، ہر طرف سے دروازے بند کرکے بڑا قتل عام ہوا، تاجپوشی والا نیا شہنشاہ بھی مارا گیا اور جسٹینین اور تھیوڈورا کا دور جاری رہا۔
فسادات نے جہاں بہت کچھ جلا دیا تھا وہیں شہر میں نئی تعمیرات کا موقع بھی فراہم کیا جن سے نہ صرف استنبول کی شکل بدل گئی بلکہ شہر کے نوجوانوں کے لیے روز گار کے موقع بھی فراہم ہوئے، ایونز لکھتے ہیں"ان میں شہر کا سب سے بڑا چرچ آیا صوفیہ بھی شامل تھا، پرانا آیا صوفیہ مکمل طور پر جل گیا تھا" ایونز تاریخی حوالوں سے بتاتے ہیں کہ پرانے چرچ کی تباہی کے صرف 40 دن کے بعد نئے آیا صوفیہ پر کام شروع ہوگیا تھا اور اس کام میں"ہزاروں مزدور شامل تھے"۔ اس نئے آیا صوفیہ کے ستونوں پر جسٹینین کے ساتھ ساتھ تھیوڈورا کا مونوگرام بھی آویزاں کیا گیا، کئی تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ ملکہ تھیوڈورا کی خواہش پر شہنشاہ جسٹینین نے رب کی خوشنودی کیلئے آیا صوفیہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تھا، موجودہ آیا صوفیہ انہی کا بنایا ہوا ہے۔
جسٹینین اور تھیوڈورا کا رشتہ عام شہنشاہ اور ملکہ کا رشتہ نہیں تھا، ایونز لکھتے ہیں، "جسٹینین کی طرف سے واضح تھا کہ تھیوڈورا اس کے اختیارات میں برابر کی شریک تھی"۔ وہ لکھتے ہیں کہ وہ دونوں اہم معاملوں میں اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ وفادار تھے "جیسے کسی خاص طاقت نے انھیں آپس میں باندھ رکھا تھا"۔ ایونز لکھتے ہیں کیا یہ "باہمی احترام تھا؟ یا اپنی عوام کو کنفیوز کرنے کا طریقہ کہ وہ شہنشاہ کے خلاف ایک نہ ہو سکیں؟ یا پھر یہ کسی جادو ٹونے کا نتیجہ تھا؟"
لوگوں کا حیران ہونا درست تھا، آج کے سیکولر دور میں دونوں فرقے ایک دوسرے سے اختلاف کرنے پر اتفاق کرکے ساتھ رہ سکتے تھے لیکن، "بازنطین کا شہنشاہ زمین پر خدا کا نمائندہ تھا، اس کی سلطنت زمین پر جنت کا نمونہ تھی اور زمین پر جنت کی اس تصویر میں صرف ایک سوچ کی گنجائش تھی"۔ بازنطین کی نظریاتی دنیا میں"ایک سلطنت تھی، ایک مذہب تھا اور وفاداری اس بات کو تسلیم کرنا تھا" اور یہاں شہنشاہ چیلسیڈونین فرقے سے تھا اور ملکہ غیر قانونی قرار دیے گئے مونفیسائیٹ نظریے کی پیروکار تھی۔
تھیوڈورا کو جب اختیار اور دولت حاصل ہوئی تو بتایا جاتا ہے کہ اس نے ان کے استعمال میں کوئی تکلف نہیں برتا، "وہ دیر تک سوتی، ناشتے سے پہلے حمام میں وقت گزارتی اور کھانے پینے کا خوب خیال رکھتی تھی"۔ "اسے معلوم تھا کہ وہ ایک خوبصورت عورت ہے، اس نے ہمیشہ احتیاط برتی اور چہرے پر جھریوں سے بچنے کے لیے خیال رکھا کہ وہ اپنے آپ کو زیادہ نہ تھکائے"۔
جسٹینین کا زیادہ تر وقت کام میں گزرتا تھا اور وہ کم کھاتا تھا، لیکن تھیوڈورا اپنے ایجنڈے کے مطابق چلتی تھی، وہ گرمیوں میں استنبول کے شمال میں ایک ساحلی مقام پر چلی جاتی تھی جس کا راستہ بہت مشکل تھا، لیکن مؤرخ لکھتے ہیں تھیوڈورا کو اس کی پرواہ نہیں تھی، "تھیوڈورا کے نزدیک اس کا انتظام کرنا اس کے ماتحتوں کا مسئلہ تھا اس کا نہیں"۔
جسٹینین اور تھیوڈورا شہنشاہ و ملکہ تو بن گئے تھے لیکن سلطنت کی پرانی اشرافیہ کے لیے شاید وہ ایسے ہی تھے جیسے کوئی نو "دولتیا یا کل کے نواب"۔ ایونز لکھتے ہیں کہ مسئلہ ان کے غریب پس منظر نہیں تھا، بازنطینی سلطنت میں مناسب رویہ اور تعلیم اشرافیہ میں داخلے کے راستے کھول سکتی تھی، مسئلہ یہ تھا کہ وہاں"اصلاح کا تصور صرف غیر ضروری ہی نہیں بلکہ غلط اور خطرناک تھا"۔ جسٹینین اور تھیوڈورا تبدیلیاں لانا چاہتے تھے، وہ ان روایات کو بدلنا چاہتے تھے جن کو وقت کے ساتھ ساتھ تقدس حاصل ہو چکا تھا۔
سب سے پہلے تھیوڈورا نے کم عمر لڑکیوں کی سمگلنگ کے خلاف جہاد شروع کیا، سنہ 528 میں اقتدار میں آنے کے صرف ایک سال کے بعد اس نے استنبول میں سیکس کے کاروبار سے وابستہ افراد کو جمع کیا اور ان سے پچھلے ایک سال میں غریب ماں باپ سے خریدی گئی یا اغوا شدہ لڑکیوں کی تفصیل مانگی اور ہر شخص کو اس کی طرف سے خرچ کی گئی رقم ادا کرکے تمام لڑکیوں کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ انھیں ایک ایک سونے کا سکہ اور نئے لباس بھی دیے اور شہر میں جسم فروشی کے تمام اڈے بند کر دیے گئے، تاہم اگر تھیوڈورا کا خیال تھا کہ اس طرح مسئلہ حل ہو جائے گا تو یہ اس کی سادگی تھی، کچھ لڑکیوں نے پھر بھی جسم فروشی جاری رکھی جنھیں پکڑ کر گناہوں کےکفارے کے لیے ایک کانونٹ بھیج دیا گیا۔
جسٹینین اور تھیوڈورا ایک ایسے روایت پسند معاشرے میں نئے طریقے تلاش کر رہے تھے جس میں تبدیلی سخت ناپسند کی جاتی تھی، خاص طور وہ تبدیلیاں جو تھیوڈورا خاندانی نظام میں لانے کی کوشش کر رہی تھی، وہ شادی میں عورت کو برتری دلوانا چاہتی تھی، "پریشان حال عورتیں مدد کے لیے اس سے رجوع کر سکتی تھیں، روایت پسند شکایت کر رہے تھے کے تھیوڈورا ایک خاندان میں شوہر کی برتری ختم کر رہی تھی اور عورتیں منہ زور ہوتی جا رہی ہیں"۔
روم کی سلطنت کے عظیم بادشاہ اور ملکائیں ہمیشہ سے مذہبی اور فلاحی اداروں کی سرپرستی کرتے آئے ہیں، ایونز لکھتے ہیں تھیوڈورا بھی پیچھے رہنے والی نہیں تھی، ملکہ بننے کے دو سال بعد سنہ 529 میں اس نے استنبول سے 80 کلومیٹر دور پائیتھین کا سفر کیا جہاں گرم پانی کے چشمے تھے، اس کی سواری جہاں سے گزری تاریخ بتاتی ہے اس نے اپنے رتبے اور دولت کی نمائش کی، اس سفر میں خادماؤں اور خواجہ سراؤں پر مشتمل چار ہزار افراد کا عملہ ان کے ساتھ تھا، وہ راستے میں پڑنے والے گرجا گھروں، خانقاہوں، ہسپتالوں کو عطیات دیتی گئی، جسٹینین نے تھیوڈورا کا رجحان دیکھتے ہوئے اس کے لیے گرم پانی کے ان چشموں کے قریب ایک محل بھی بنوا دیا۔
اگر ایک طرف کچھ طبقات کو تھیوڈورا کے ملکہ بننے سے فائدہ ہوا اور ان کی شکایات دور ہوئیں، وہیں وہ اشرافیہ بھی تھی جن کے لیے اس غلطی کی قیمت چکانے کا وقت آ گیا تھا جو انھوں نے جسٹن کو شہنشاہ منتخب کرتے وقت کی تھی، ان کے اندازے کے مطابق بوڑھا شہشناہ جسٹن جلد وفات تو پا گیا تھا لیکن اس سے پہلے وہ اپنے بھانجے جسٹینین کے شہنشاہ بننے کا راستہ ہموار کر گیا تھا۔
ایونز لکھتے ہیں کہ پرانی روایت کے مطابق اعلیٰ حیثیت والے سینیٹر شہنشاہ کے سامنے پیش ہونے پر جھک کر اس کے دائیں سینے پر بوسہ دیتے تھے، عام طور پر سینیٹر ملکہ کو سلام نہیں کرتے تھے لیکن یہ سب بدل گیا، جسٹینین اور تھیوڈورا نے نیا پروٹول نافذ کر دیا، اب تمام سینیٹروں کے لیے لازمی تھا کہ وہ جھک کر شہنشاہ اور ملکہ دونوں کا ایک ایک جوتا چومیں، سینیٹر اس پروٹوکول سے ہانپتے کانپتے اٹھتے تھے لیکن تھیوڈورا کے نقطہ نظر سے یہ سب بہت ضروری تھا۔
اس کے علاوہ ملکہ سے ملاقات کے خواہشمندوں کے لیے بھی صورتحال بالکل بدل چکی تھی، "مونوفیسائیٹ فرقے کی کوئی ہستی پھٹے ہوئے اور بدبودار کپڑوں کے ساتھ معززین کو انتظار کرتا چھوڑ کر، قطار کو نظر انداز کرتے ہوئے سیدھا ملکہ کے سامنے حاضر ہو جاتی تھی اور اعلیٰ عہدیداروں کو کئی بار یہ موقع گھنٹوں انتظار کے بعد ملتا تھا، ملکہ تھیوڈورا سے ملاقات کے خواہشمندوں اور درخواستگذاروں کو انتظار کے لیے ایک چھوٹے سے کمرے میں جمع کیا جاتا تھا، اشرافیہ اور عام آدمی میں کوئی تمیز نہیں کی جاتی تھی"۔
کئی ایسے لوگ بھی تھے جو بوڑھے شہنشاہ کی بے پناہ خوب صورت ملکہ کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بغیر کسی مقصد آن دھمکتے تھے، تھیوڈورا نے پہلی مرتبہ یہ سرکاری پروٹوکول نافذ کیا کہ ایک رجسٹر میں ملاقات کیلئے آرزومندوں کی آمد کا مقصد لکھا جائے، فقط ملکہ کی ایک جھلک دیکھنے کے خواہشمندوں کو وہ کئی کئی گھنٹے انتظار میں بٹھا دیتی، جن کو شاہی عملہ ملکہ کے دیدار کے بغیر ہی چلتا کر دیتا تھا۔

