Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Theodora Malka e Qastuntunya (3)

Theodora Malka e Qastuntunya (3)

تھیوڈورا ملکہ قسطنطنیہ (3)

ایک مؤرخ وارن ٹریڈگولڈ لکھتے ہیں کہ استنبول واپس پہنچنے تک تھیوڈورا 22 برس کی ہو چکی تھی، اس نے اپنی بیٹی کو ایمانداری کی زندگی دینے کے لیے اون بننے والی ایک دکان میں کام شروع کر دیا، "اس دکان میں ایک روز اس کی 40 سالہ (چھوٹے قد، گھنگریالے بال، خوش شکل اور دوستانہ تاثرات والے) جسٹینین سے پہلی ملاقات ہوئی، جسٹینین اس کی شخصیت اور خوبصورتی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، یقیناً وہ اس کی غمگین کہانی اور بہتر مستقبل کے عزم سے بھی متاثر ہوا ہوگا، ملاقاتیں بڑھیں اور دونوں ایک دوسرے کی گہری محبت میں گرفتار ہو گئے"۔

یہ اس زمانے میں سب کے لیے ناقابل یقین بات تھی کہ جسٹینین کی حیثیت کا آدمی تھیوڈورا جیسی عورت سے شادی کا سوچ رہا ہے، کسی شہنشاہ یا ولی عہد کا درجنوں عورتوں سے تعلقات رکھنا لوگوں کے لیے عجیب بات نہ تھی لیکن تھیوڈورا جیسے پس منظر کی عورت سے شادی الگ بات تھی، جسٹینین شہر کے اعلیٰ حلقوں میں تھیوڈورا کے بارے میں کی جانے والی باتوں سے بالکل خوش نہیں تھا لیکن وہ فیصلہ کر چکا تھا، "جسٹینین کو معلوم تھا کہ اس کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں کی جاتی تھیں"۔

سب سے اہم معاملہ دونوں کی مختلف فرقوں سے وابستگی کا تھا، جسٹینین چیلسیڈونین فرقے کے مخالفین کو سزائیں دینے کے حق میں تھے جبکہ تھیوڈورا چیلسیڈونین مخالف تھی، شہنشاہ جسٹن اپنے بھانجے کی محبوبہ کی سرکاری مذہب سے بغاوت کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار تھے لیکن ان کی ملکہ یوفیمیا نہیں، ملکہ ماضی میں تھیٹر پر ناچنے والی جسم فروش اور اب مذہبی باغی لڑکی سے جسٹینین کی شادی کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ ملکہ کو اپنے منہ بولے بیٹے سے بہت پیار تھا اور وہ اس کی کسی بات سے انکار نہیں کرتی تھی لیکن تھیوڈورا کے معاملے میں اس کا مؤقف سخت تھا، لیکن یہاں بھی قسمت کی دیوی تھیوڈورا پر مہربان تھی، ایونز بتاتے ہیں کہ تاریخ میں ملکہ یوفیمیا کی موت کی صحیح تاریخ نہیں ملتی لیکن سنہ 523 کے آخر میں کسی وقت اس کا انتقال ہوگیا۔

ملکہ کے انتقال کے بعد شہنشاہ جسٹن نے جسٹینین کی بات مانتے ہوئے تھیوڈورا کو "پیٹریشین" (اشرافیہ) کا درجہ دے دیا، جسٹینین کی بیوی بننے سے پہلے ہی اسے وہی حیثیت ملنے لگی جو عام طور پر کسی عورت کو سلطنت روم میں پیٹریشین خاوند کی وجہ سے ملتی تھی، وہ تیزی سے اثر و رسوخ والی عورت کے طور پر جانی جانے لگی، ابھی وہ ملکہ نہیں بنی تھی لیکن مونوفیسائیٹ فرقے کے لوگ اس کے پاس تعاون اور پناہ کے لیے آتے اور وہ انھیں انکار نہیں کرتی تھی۔

شہنشاہ جسٹن نے تھیٹر میں ناچنے والے والی عورت اور ایک سینیٹر کے درمیان شادی کی قانونی رکاوٹ دور کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی، غالباً سنہ 525 میں تھیوڈورا کی جسٹینین سے شادی ہوگئی، اس جوڑے کی شادی کے پانچویں سال، شہنشاہ جسٹن اول نے بڑھتی عمر اور خراب ہوتی صحت کے ہاتھوں مجبور ہو کر جسٹینین کو اپنا شریک حکمران بنا دیا۔

یکم اپریل سنہ 527 کو ایک مؤرخ کی زبان میں"آیا صوفیہ میں ایک شاندار تقریب میں استنبول کے بشپ نے سلطنت روم کے شاہی تاج ایک کسان اور طوائف کے سر پر رکھ دیے"۔

جسٹینین کی تاجپوشی سے ٹھیک چار ماہ بعد یکم اگست کو بادشاہ جسٹن اول کا انتقال ہوگیا، سلطنت روم اب جسٹینین اور تھیوڈورا کے ہاتھ میں تھی، "وہ چھوٹی سی بچی جس نے کبھی ہپوڈروم میں سبز ٹیم کے سامنے اپنے خاندان کو فاقوں سے بچانے کے لیے بھیک مانگی تھی اب ملکہ بن چکی تھی، وہ تاریخ پر اپنا نشان چھوڑنے کے لیے پر عزم تھی"۔

تاجپوشی کے بعد ہپوڈروم میں آمد پر، ایونز اس دن کا منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہپوڈروم میں"زمین پر خدا کا نمائندہ اپنی ملکہ کے ساتھ اپنی عوام کے سامنے جلوہ افروز ہوا"۔ کھچھا کھچ بھرا ہوا سٹیڈیم نئے شہنشاہ اور ملکہ کی شان میں نعروں سے گونج رہا تھا۔

انگریزی زبان کے شاعر اور ادیب رابرٹ براؤننگ نے جسٹینین اور تھیوڈورا کی زندگی پر اپنی مشہور کتاب میں اس دن کی منظر کشی کچھ یوں"اسی ہپوڈروم میں جہاں اس نے اپنے عجیب کیریئر کا آغاز کیا تھا، اب شاہانہ انداز کی تصویر بنی چمکتے ہوئے ریشم اور روم کی ملکہ کے زیورات سے سجی ہوئی تھیوڈورا کے ذہن میں کیا چل رہا تھا؟ کیا اس کی اور گہری سوچ میں ڈوبے اور سنجیدگی کی تصویر بنے اس کے شوہر کی نظریں ملی ہوں گی؟ کیا انھوں نے اس لمحے تھیوڈورا کے ماضی کے بارے میں سوچا ہوگا؟ یا پھر اپنی بہن کومیٹا کے ساتھ اس کی نظریں ملی ہوں گی جو اب ایک جرنیل کی بیوی بننے والی تھی؟"

براؤننگ لکھتے ہیں کہ "یہ ہم کبھی نہیں جان سکیں گے، لیکن ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس دن اس نے اپنی زندگی کی بہترین پرفارمنس دکھائی ہوگی"۔

یہاں مستقبل میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر ضروری ہے جس سے شاید ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس دن وہ ہپوڈورم میں اپنے نئے کردار کے بارے میں کیا سوچ رہی تھی، جسٹینین اور تھیوڈورا کی تاجپوشی کو پانچ برس گزر چکے تھے جب سنہ 532 میں استنبول میں"نیکا فسادات" پھوٹ پڑے، رتھ ریسنگ کے دھڑوں بلیوز اور گرینز کے درمیان تنازعات اکثر چھٹی صدی میں سڑکوں پر تشدد کا باعث بنے، جسٹنین اور تھیوڈورا دونوں کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بلیوز کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، نتیجتاً گرینز نے خود کو الگ تھلگ اور مایوس محسوس کیا، جنوری 532 کے اوائل میں دونوں دھڑوں کے درمیان فسادات کے بعد، گرین اور بلیو دونوں رہنماؤں کے ایک گروپ کو موت کی سزا سنائی گئی لیکن دو مجرم، ایک بلیو اور ایک گرین، پھانسی سے بچ گئے، جب شہنشاہ سرکس کے دھڑوں کی طرف سے دونوں کو معاف کرنے کے مطالبات پر لاتعلق رہا تو ناراض دھڑوں نے متحد ہو کر "نیکا" کا نعرہ لگایا، جس کا مطلب ہے "فتح"۔

ایونز لکھتے ہیں، "اس وقت ایک انہونی ہوگئی، نیلی اور سبز ٹیم کے فین اکٹھے ہو گئے، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ استنبول کی تنگ گلیوں میں غصے میں بپھرے ہوئے نوجوانوں کے گروپوں کے سامنے فوج کی ناکامی کے بعد بات نئے شہنشاہ کی تلاش تک آن پہنچی، سینیٹ میں بھی اسی طرح کی تقریریں ہونے لگیں، ہجوم ہپوڈروم میں جمع ہو چکا تھا جہاں اناستیس کے بھتیجے کی تاجپوشی کی گئی اور جسٹینین سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ بھی کیا گیا، صورت حال اس قدر گھمبیر تھی کہ سلطنت کے سب سے اہم جرنیل بیلیساریس بھی متفق تھے کہ جسٹینین کو فرار ہو جانا چاہیے"۔

اس زمانے کے مشہور مؤرخ پروکوپیس نے لکھا ہے "اس وقت جب جسٹینین خاموش، گھبرائے ہوئے اور بے یقینی کی کیفیت میں بیٹھے تھے کہ اس کمرے میں موجود تھیوڈورا اپنی جگہ سے اٹھی، یہ وہ وقت تھا جب سینیٹ میں تحمل کا پیغام دیا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ شاہی محل پر حملہ نہ کیا جائے، جسٹینین کو شہر سے جانے دیں، سب ٹھیک ہو جائے گا، کوئی رسک لینے کی ضرورت نہیں"۔

ایونز لکھتے ہیں کہ اس دن کے واقعات کے لیے تاریخ کا زیادہ تر انحصار مؤرخ پروکوپیس کی تحریروں پر ہے جو اول تو شاید موقع پر موجود تھے اور اگر نہیں بھی تھے تو انھیں آنکھوں دیکھے احوال سننے کو ملے ہوں گے، پروکوپیس لکھتے ہیں کہ تھیوڈورا نے اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر سب سے پہلے بات کرنے کی جرات پر معافی مانگی، "میرے آقا، موجودہ موقع بہت سنجیدہ ہے کہ مجھے اس کنونشن پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے کہ عورت کو مرد کی مجلس میں بات نہیں کرنی چاہیے، جن کے مفادات کو شدید خطرات لاحق ہوں انہیں صرف حکمت عملی کے بارے میں سوچنا چاہیے، کنونشن کے بارے میں نہیں، میری رائے میں فرار صحیح راستہ نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر یہ ہمیں حفاظت میں لے جائے، ایک شخص کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ اس دنیا میں پیدا ہوا ہو، مرنا نہیں، لیکن جس نے حکومت کی ہے اس کے لیے بھگوڑا ہونا ناقابل برداشت ہے، میں اس جامنی رنگ کے لباس سے کبھی محروم نہ رہوں اور وہ دن نہ دیکھوں جب مجھ سے ملنے والے مجھے مہارانی نہ پکاریں، اگر آپ اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں، میرے مالک، کوئی مشکل نہیں ہے، ہم امیر ہیں، سامنے سمندر ہے اور اس کے اوپر بحری جہاز ہیں، پھر بھی ایک لمحے کے لیے غور کریں کہ کیا، جب آپ ایک بار محفوظ جگہ پر فرار ہو چکے ہیں، تو کیا موت وہاں آپ کا پیچھا نہ کرے گی؟ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں اس کہاوت سے اتفاق کرتی ہوں، کہ شاہی جامنی بہترین کفن ہے"۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood