Pehli Martaba Russian Train Ka Safar
پہلی مرتبہ رشین ٹرین کا سفر

صبح ہوئی تو ملک یوسف نے مجھے جگایا، ناشتہ اس نے بنایا جو ہم سب نے کھایا، میں پھر سے کھڑکی میں اُداس اُلو کی طرح جا بیٹھا، آنے جانے والوں کو دیکھتا رہا، صبح نو بجے کے قریب میر حسین آیا اور بتایا "بذریعہ ٹرین جائیں گے"۔ الماتی سے سیمی کا فاصلہ بذریعہ ٹرین لگ بھگ 837 کیلومیٹر، بذریعہ روڈ 1100 کیلومیٹر لیکن تب اتنے لمبے فاصلے کیلئے بذریعہ سڑک سفر کرنا غیرمناسب تھا، وہ ہمارے پاسپورٹ لیکر اوور نائٹ ٹرین کی کوپے کلاس ٹکٹیں خرید لایا، جو صبح پونے گیارہ بجے الماتی سے روانہ ہو کر اگلی صبح سات بجے سیمی پہنچنی تھی، سفر انیس سے بیس گھنٹے کا تھا، رات کا کھانا بھی ٹرین میں ملتا، سونے کیلئے برتھ اور گرم بستر بھی۔
میر حسین کا کزن معظم کشمیری بطور گائیڈ ہمارے ساتھ تھا، اس نے ہمیں سیمی پلاٹنسک پہنچانا تھا، ٹیکسی لی اور ووگزال یعنی ریلوے اسٹیشن پہنچے، الماتی کا سنٹرل ریلوے اسٹیشن بہت منظم ہے، تمام سابقہ سوویت یونین ریاستوں میں ابھی تک روس کی بنی ہوئی ٹرینیں ہی چلتی تھیں، مشاہدہ کیا کہ افغان جنگ کی بدولت روس کی مالی حالت پتلی ہوئی تو تین نسلوں سے محکوم اقوام نے موقع غنیمت جانتے ہوئے فقط آزاد ہونے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک روس کی محتاج تھیں، ہر چیز میں ایک ترتیب، سب جگہ رشین نظام ہی چل رہا تھا، فقط ریاستی داخلی امور کی محدود آزادی، بیرونی دنیا کیلئے خارجہ امور پر روسی دباؤ برقرار، کرنسی کی شکل تبدیل ہوئی، رشین روبل کی جگہ کرنسی نوٹ پر ہر ریاست کے اپنے مقامی ہیروز کی تصاویر لیکن دفاع اور دیگر حساس نوعیت کے معاملات پر ابھی تک روس کا غلبہ تھا۔
روس ان تمام ریاستوں کو ایک طرح کے بفر زون یا اگلے مورچے کے طور پر استعمال کرتا تھا جس کا مقصد بیرونی حملہ آوروں کو سنٹرل ماسکو تک پہنچنے سے روکنا تھا، سابقہ سوویت یونین نے کمیونزم کا ایک ایسا مربوط نظام اختیار کیا تھا کہ ہر ریاست ایک دوسرے کی محتاج تھی، ایک طرح سے سب کو جوڑ کر رکھا ہوا تھا، کمیونٹی لفظ کمیون سے ہے جس کا مطلب اکٹھے رہنا، مل جُل کر رہنا، بھائی چارہ یا مشترکہ معاشرہ ہے، اس نظام کی بدولت لوگ خوش تھے، پیٹ بھرنے کیلئے روٹی، سر چھپانے کیلئے چھت اور تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی۔
ٹرین میں داخل ہوئے، اندر کا منظر جہان رنگ و خوشبو کی جیتی جاگتی مثال تھا، ہم اپنے مطلوبہ چار مسافروں والے کوپے میں پہنچے لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ہم چار افراد کو دو مختلف کوپے میں جگہ ملی ہے، ہمارے والے چار افراد کے کُوپے میں ایک جوان رشین عورت اپنی چھوٹی چار سالہ بچی کے ہمراہ تھی، تب تک بڑوں کو مخاطب کرنے کیلئے روسی سلام "دراست وچے"، ہم عمر یا دوستوں کیلئے "پریویت"، ہم عمر کا حال احوال پوچھنے کیلئے "کک دیلا" اور بڑے افراد کا حال احوال پوچھنےکیلئے "کک واس دیلا" معلوم ہوگیا تھا، اس کے بعد نارمل کیلئے "نارملنا"، اچھے کیلئے "خراشو" اور بُرے کیلئے "پلوخا"، میری حیرت تب گم ہوئی جب یس یعنی ہاں کیلئے "دا" کا لفظ معلوم ہوا، اس رشین عورت کو دراست وچے بولا، اس کی بیٹی کو مسکراہٹ کے ساتھ پریویت، جواب میں انہوں نے مسکرا کر دراست وچے بولا، کُوپے میں سامان رکھنے والا خانہ تلاش کرکے سامان بحفاظت رکھا۔
ٹرین تیز رفتار نہ تھی لیکن بہت صاف ستھری تھی، آمنے سامنے بیٹھنے کیلئے دو کرسی اور درمیان میں فولڈ ہونے والی میز، دو فرشی برتھ اور اوپر دو برتھ، معظم نے دوپہر کے کھانے کا پوچھا تو کہا "ابھی بھوک نہیں ہے راستے میں ہی کچھ خرید لیں گے"۔ وہ ہمیں باہر نکلنے سے منع کرکے اپنے کُوپے میں چلا گیا، پہلوان بھی اسی کے کُوپے میں تھا اور یہ والے کُوپے میں ملک یوسف اور میں، ٹرین روانہ ہونے میں ابھی وقت تھا، میں کرسی پر بیٹھ کر باہر جھانکنے لگا، رنگ برنگے خوب صورت لوگ آ جا رہے تھے، ان کی زبان میرے لئے اجنبی تھی، محض گنتی کے چند الفاظ سمجھ آتے تھے۔
چھوٹی رشین لڑکی جس کا نام میرا تھا (بعد میں معلوم ہوا کہ رشین زبان میں میرا کا مطلب دنیا ہے)، میرے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھ کر مجھ سے مخاطب ہوئی، میں ہنسا اور کہا "روسکی یا نی زنایُو" یہ مجھے معظم نے بتایا تھا جس کا مطلب کہ مجھے رشین زبان نہیں آتی، میرے جواب سے اسے مایوسی ہوئی تھی، معصوم سا منہ بنا کر گردن نیچے کرلی، پھر اپنی ماں سے مخاطب ہوئی اور ہماری طرف اشارے کرے گویا ماں کی مدد چاہ رہی تھی، ماں نے مسکراتے ہوئے اسے کچھ سمجھایا جس پر وہ خاموش ہوگئی، غالباََ یہی کہا ہوگا "جو بھی بولو گی سامنے والا اس وقت گونگا بہرہ ہے لہذا اشاروں سے ہی کام چلاؤ"۔
بچی نے اپنی ماں کے ہینڈ بیگ سے ایک سیب نکال کر میری طرف بڑھایا، میں مسکرا کر "سپیسیبا" یعنی شکریہ کہا، اب وہ ضد کرے، اس کی ماں بولی "پژا لوستا" یعنی پلیز، میں سیب لیکر درمیانی ٹیبل پر رکھ لیا، وہ بچی پھر شور مچائے، ماں پھر مدد کو آئی، اشارے سے بتایا کہ سیب کھاؤ، میں سیب اٹھا کر ایک مرتبہ دانتوں سے کاٹا، واللہ ایسا مزیدار، میٹھا اور رس بھرا سیب زندگی میں پہلی مرتبہ کھایا تھا، ایک سیب کے بعد اس بچی نے دوسرا سیب مجھے پکڑا دیا جو میں ٹیبل پر رکھ دیا، بعد میں معظم نے بتایا کہ وہ سیب ان کے گھر کے آنگن میں لگے پیڑ کا پھل ہے۔
ٹرین آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوئی، الماتی کی حدود سے باہر نکلتے کئی خوش نما مناظر آئے اور پیچھے رہ گئے، درخت بہت زیادہ تھے، شہر کی حدود سے باہر ایک جھیل کے ساتھ ساتھ پندرہ بیس منٹ تک چلتی رہی، اس عورت کی زبانی بیکال لفظ کی سمجھ آئی کہ یہ مشہور زمانہ جھیل بیکال ہے، جھیل پر کافی رونق نظر آ رہی تھی لیکن ہم ٹرین کی کھڑکی سے فقط دیکھ اور ہاتھ ہلا سکتے تھے۔
راستے میں چار پانچ مرتبہ ٹرین مختلف اسٹیشنوں پر رکی، کبھی چند منٹ، کبھی طویل انتظار، جیسے جیسے ٹرین آگے بڑھ رہی تھی سردی میں اضافہ ہو رہا تھا، اب میرے اوسان کچھ کچھ بحال ہونا شروع ہو چکے تھے، اپنوں سے جُدا ہونے والے جذباتی صدمہ سے میں کسی حد تک باہر نکل رہا تھا، معظم کے ساتھ گفتگو میں پیش رفت ہوئی، چند مزید الفاظ سیکھے، خدا حافظ کیلئے "دس ودانیا" اور چھوٹوں کیلئے "پکا" یعنی بائی بائی، ہر آنے والے اسٹیشن پر اُتر کر میں باہر پلیٹ فارم پر گھومنے اور لوگوں کے ساتھ بات چیت کی کوشش کرنے لگا۔
تقریباً ہر سٹیشن پر غریب دیہاتی لوگ اپنی گھریلو تیار کردہ اشیاء فروخت کیلئے زمین پر رکھے موجود تھے، ابلے انڈے، مرغی، سرکے میں ڈوبا سلاد، دوپہر کا کھانا معظم خرید کر لایا، مرغی کھال اور پروں سمیت پکی ہوئی تھی، میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ حلال ذبح یا بقعدے کے وار سے جھٹکا شدہ، کس طرح پکائی ہوگی؟ مجھے سوچ میں غلطاں دیکھ کر معظم بولا "یہ کُوری نینا یعنی مرغی، حلال ہے، اسے کھا سکتے ہو"۔
رشین عورت بھی ویسی مرغی مزے لیکر کھال سمیت رہی تھی، میرے لئے چونکہ پہلا موقع تھا، بڑی احتیاط سے مرغی کی کھال اتاری، پَر وغیرہ سمیٹے اور پھر کھائی، کھانے کے بعد بڑی نفاست سے باقی ماندہ سمیٹ کر پلاسٹک کے بیگ میں ڈالا اور کاریڈور میں لگے بڑے ڈسٹ بِن میں پھینکنے کیلئے باہر نکلا، کاریڈور میں کافی رونق تھی، کئی لوگ کھانے کے بعد سگریٹ سلگائے تمباکو نوشی کر رہے تھے، ایک کونے میں گرم پانی والا سماوار اور مفت کوفی کی سہولت تھی، اتنے میں ٹرین میں رشین نغمہ گونجنا شروع ہوگیا، پوری ٹرین کے ہر کاریڈور میں سپیکر لگے تھے، زبان اجنبی لیکن میوزک بہت عمدہ تھا، سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن پنجابی والی چَس بہت آ رہی تھی۔
رات کے کھانے کے بعد کُوپے میں دو پولیس والے آن پہنچے اور ہم سے پوچھ گچھ کرنے لگے، رشین عورت نے انہیں کچھ بتایا تو ایک پولیس والا دوسرے کُوپے میں جا کر معظم اور پہلوان کو لے آیا، کسی اسٹیشن پر اجنبی غیرملکی یعنی مجھے گھومتا دیکھ کر کسی نے پولیس کو اطلاع کی تھی، معظم کے ساتھ ان کی آدھے گھنٹے تک بات چیت ہوتی رہی، انہوں نے پاسپورٹ پکڑے اور اپنے ساتھ لے گئے، میرے اوسان خطا ہوگئے کہ اب یہ کیا ہو رہا ہے؟ معظم نے بتایا "کچھ نہیں ہوگا، بس معمول کی کاروائی ہے وہ ویزہ وغیرہ چیک کریں گے تم جہاں دل چاہے آرام سے گھومو پھرو، کوئی مسئلہ نہیں، بس کسی سے لڑائی مت کرنا"۔
دو گھنٹے بعد پولیس والے پاسپورٹ واپس دیکر گئے تب میری جان میں جان آئی، باقی سفر کتاب پڑھتے، اس چھوٹی رشین بچی کی شرارتوں سے محظوظ ہوتے گزرا، جہاں کہیں ٹرین رکتی میں نیچے اتر کر گھومنے لگتا، رات کے کھانے پر معظم نے بتایا "گرم کپڑے نکال لو کیونکہ سیمی میں بہت سردی ہے"۔ جب سردی زیادہ ہوئی تب گرم کپڑے پہن کر اوپر برتھ پر چڑھ کر سو گیا۔

