Lenin Hostel Number 3
لینن ہوسٹل نمبر 3

لینن ایونیو، دریا ارتش کے کنارے سے شروع ہو کر سیمی شہر کے وسط تک جاتی تھی، پانچ منزلہ ہوسٹل کی اس بلڈنگ کو لینینا 3 بھی پکارا جاتا تھا، ہوسٹل کی عمارت باہر سے پرانی نظر آتی تھی، عمارت کے باہر ایک کونے پر تنہا شجر بھی تھا، تین سیڑھیوں والے دو فٹ اونچے چبوترے کے بعد مین گیٹ تھا، باہر والا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو ایک چھوٹا ہال نما کمرہ تھا، ہر بڑی رہائشی یا سرکاری عمارت میں داخل ہونے کے بعد ایسا ہال نما کمرہ ضرور ملتا ہے جس کا مقصد سردیوں میں آنے والی ٹھنڈ سے بچاؤ ہے۔
آگے ایک مزید دروازہ کھول کر کوریڈور، جس کے بائیں جانب ہوسٹل کمانڈنٹ، وارڈن اور ڈیوٹی پر موجود چوکیدار کے کمرے، لکڑی کی بنی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والے فلور پر گئے، استقبالیہ پر موجود انتہائی خوب صورت، دراز قد، گہری لپ اسٹک لگائے اور ہونٹوں پر "دوبرو پژالووت" یعنی خوش آمدید، سلویسٹر سٹالون کی فلم میں رشین باکسر ڈولف لنڈگرن کی بیوی کا رول ادا کرنے والی لڑکی سے متشابہہ تھی، معلوم ہوا کہ یہ یونیورسٹی کنٹریکٹر کی سیکرٹری ہے، ضروری اندراج کے بعد ملک یوسف اور مجھے چوتھے فلور پر روم نمبر 417 الاٹ کر دیا گیا، پہلوان کو ہمراہ لیکر معظم فلیٹ پر چلا گیا۔
کمرہ کیا تھا؟ فقیر کی کُٹیا تھا، داخلی دروازے کے بعد دائیں بائیں لکڑی کے دو عدد وارڈ روب، دو آہنی بستر جو فولڈ شُدہ حالت میں تھے، لکڑی کا فرش بغیر کسی قالین، کھڑکی بہت بڑی لیکن شیشہ ٹوٹا ہوا، کمرے کے وسط میں ایک بلب، کُل ملا کر بس یہی کمرہ تھا، سفر کی تھکاوٹ طاری تھی، پہلے اپنے بیگ ایک کونے میں رکھے، کمرہ سونے کے قابل بنایا اور سو گئے۔
ہوسٹل میں سہولیات کچھ دستیاب اور کچھ ناپید، ہر فلور پر کوریڈور کے دائیں بائیں واش روم بنے تھے، نہانے کیلئے زمینی فلور پر مشترکہ غسل خانہ، دروازے سے داخل ہو کر انتظار گاہ میں بیٹھنے کیلئے بنچ، اس کے بعد ہال نما کمرہ جس میں لوہے اور لکڑی کی پارٹیشن نما غسل خانے لیکن دروازے غائب یعنی جو بھی نہانا چاہے سب اس کا نظارہ کریں، ہوسٹل میں یہ افواہ پھیلی تھی کہ یہاں کپڑے پہن کر نہانے پر جرمانہ عائد ہوتا ہے، ڈرتے اُدھر کا رُخ ہی نہ کیا۔
گرچہ ہر کمرے میں دو دو سٹوڈنٹ مقیم تھے لیکن اکثریت کا آپس میں پرائیویسی کو لیکر جھگڑا ہی رہتا تھا، ہر کوئی سنگل کمرہ چاہتا تھا، کچھ سٹوڈنٹس ہوسٹل سے باہر فلیٹس میں بھی مقیم تھے اور انکی بہت عزت کی جاتی تھی، ہوسٹل کا پورے سال کا کرایہ فی کمرہ دو سو ڈالر برائے دو سٹوڈنٹس تھا اور فلیٹ پر رہنے کا ماہانہ خرچہ دو سو ڈالر بن جاتا تھا، ایسے میں کئی افراد فلیٹ میں رہنا چاہتے ہوئے بھی افورڈ نہ کرنے کی بناء پر ہوسٹل میں ہی قیام پر مجبور تھے، لڑکے جب کسی کے فلیٹ پر جاتے تو واپس آ کر سب کو بتاتے، گویا وہ ایک طرح سے اپنی شان و شوکت بڑھاتے تھے۔
ایک چیز جو واضح طور پر محسوس کی وہ پنجابی اور افغانی کی چپقلش تھی، ان ہر دو پارٹیوں کے درمیان ماضی میں کئی خونریز تصادم بھی سنے، ہم سے ایک سال پہلے 1998 میں ایک ایسے ہی تصادم میں دو سٹوڈنٹ آئی سی یو میں منتقل ہوئے، کچھ سیمی چھوڑ کر بشکیک، اوش اور وسط سائبیریا کی یونیورسٹی نووسیبرسک چلے گئے، پاکستانی پٹھان عام طور پر اتنے متعصب نہ تھے جتنے افغانی پٹھان یا وہ پٹھان جن کی سرحد پار رشتہ داریاں تھیں، زیادہ تر لڑائیوں کا سبب یہی افراد ہوتے تھے، بعد میں چالیس چالیس افراد کا جتھہ بنا کر لڑائیاں میں خود دیکھی تھیں، ان لوگوں کے بارے سنا کہ پیدا ہوتے ہی مائیں دودھ پلانے کے ساتھ یہ سبق بھی پڑھاتی ہیں کہ ہر پنجابی تمہارا دشمن ہے چاہے وہ مسلم، ہندو یا سکھ، پنجاب میں پٹھان افراد کا رویہ مختلف ہوتا ہے لیکن پاکستان سے باہر اس مادری تربیت کے اثرات جابجا نظر آتے ہیں۔
ہوسٹل میں موجود افراد کی زبانی معلوم ہوا کہ سیمی پلاٹنسک کی جغرافیائی حدود سے افسانوی کوہ قاف کا علاقہ شروع ہوتا ہے، یہ میرے لئے ایک انوکھا انکشاف تھا، پریوں کا مسکن اور جنات کا ٹھکانہ جس کے بارے بچپن سے اب تک قصے کہانیاں پڑھتے آئے تھے لیکن اب اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع مل رہا تھا، شہر میں رشین آبادی زیادہ 70 فیصد اور مقامی قازق لوگ 30 فیصد تھے، اب تک پہاڑیاں وغیرہ نظر نہ آئی تھیں، استفسار پر معلوم ہوا کہ کوہ قاف ایک بہت وسیع علاقہ ہے جو روس کی کئی ریاستوں پر مشتمل ہے، شہر سے باہر چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں عام نظر آئیں گی۔
عمرو عیار نامی کردار کی افسانوی کہانیاں جو بچپن میں پڑھتے تھے، اس کا تعلق بھی کوہ قاف سے ظاہر کیا جاتا تھا، عیار کا مطلب چالاک، ہوشیار، تیز و طرار ہے، جسے پنجابی میں کھوچل بھی بولتے ہیں اور عیار نامی قبیلہ عرب میں بھی پایا جاتا ہے، کویت میں مرکز منیرہ العیار الصحی کے نام سے ایک کلینک بھی دیکھا تھا۔
بعد میں بذات خود مشاہدہ کیا کہ عین برلب دریا کنارے واقع ہونے باعث آدھا شہر اور بالخصوص لڑکیاں ہوسٹل کے اردگرد منڈلاتی رہتی تھیں، جب بھی باہر نکلتے، تین چار لڑکیوں کا ٹولا ضرور نظر آتا، "موژنا پزناکومتسیا" یعنی تعارف کی اجازت والے الفاظ سے کام شروع ہو کر سچی محبت کی تلاش پر گامزن ہو جاتا لیکن یہ محبت چند روز ہی چلتی تھی، میں نوٹ کر چکا تھا کہ اکثریت آوارہ یا بیروزگار لڑکیاں تھیں جن کا خرچہ اپنے ذمہ لو تو یہ ہمہ وقت دستیاب تھیں، صاف، بے داغ، گورا رنگ، ماڈرن، قابل دسترس اور پراعتماد رشین لڑکیوں کی ادائیں دیکھ کر سب کی رالیں ٹپکتی تھیں۔
بعد میں انہیں کبھی ایک کے ساتھ گھومتے دیکھتا تو کبھی دوسرے کے ساتھ، پہلے پہل میں انہیں اچھی لڑکیاں نہیں سمجھتا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ سب کے ساتھ اپنے اپنے مسائل ہیں جو ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں، قریب جانے پر ہی ان کے مسائل معلوم ہو سکتے تھے، ہر انسان اندر سے بُرا نہیں ہوتا، دراصل ہم دیکھنے والی بصیرت نہیں رکھتے، ہم فقط ظاہری شکل و صورت دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں جو غلط بھی ہو سکتا ہے، میں گاؤں کا باسی تھا اس لئے پردیس کے طور طریقے اور یہ سچائیاں سمجھنے میں مجھے بہت وقت لگا۔
پہلے دن جب باہر نکلے تو ایک انتہائی خوب صورت رشین دوشیزہ ایک سالہ بچے کو گود میں اٹھائے ہوسٹل کے باہر نظر آئی، وہ باہر موجود لڑکوں سے کچھ پوچھ رہی تھی، بعد میں دوستوں نے بتایا کہ یہ ایک پاکستانی لڑکے کی بیوی ہے جو بچے کی پیدائش سے پہلے یہاں سے بھاگ گیا تھا، ابھی تک پاکستانیوں کا امیج کسی حد تک اچھا تھا لیکن کئی حضرات اس امیج کو مسلسل داغدار کرنے کی بھرپور سعی میں دن رات کوشاں تھے۔
میرے وہاں قیام کے دوران اور بعد میں بھی کئی پاکستانیوں نے وہاں رشین اور قازق لڑکیوں سے شادیاں کیں، بچے بھی پیدا کئے، چند ایک پاکستان بھی آئیں اور اکثریت وہاں بیوی بچوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر نکل بھاگے، پاکستانی کمیونٹی کے ماتھے پر یہ داغ اب تک ابھرا نہیں تھا لیکن آثار نظر آنا شروع ہوگئے تھے، حتیٰ کہ بعد میں اپنے دوستوں کے ہمراہ جب سفر کو نکلتے، کچھ ایسے علاقوں سے بھی گزر ہوا جنہوں نے غیر ملکی افراد زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھے تھے، حافظ سید افتخار الحسن نماز کی امامت کرواتا تو حافظ صاحب کی دوستی کی وجہ سے ہم کو بھی مجبورا نماز پڑھنا پڑھتی تھی، لوگ ہمارے ہاتھ چومتے تھے۔
ایک سٹوڈنٹ بندہ جو اپنے تمام تر اخرجات کیلئے گھر والوں کا محتاج ہوتا ہے، اسے جذبات کی رو میں اس حد تک آگے نہیں جانا چاہیئے، دوران تعلیم وہاں مستقل گرل فرینڈ رکھنے یا شادی کرنے کا مطلب ایک مستقل اضافی خرچہ تھا جو سٹوڈنٹ اپنے گھر والوں سے جھوٹ بول کر منگواتے تھے۔

