Filmi Naseehat
فلمی نصیحت

فلم کی کہانی اکثر ہمارے اپنے معاشرے کی جھلک ہوتی ہے، یہ کسی سچے واقعے سے جنم لیتی ہے جسے ہنر مند اپنے ذوق اور فلمی ضرورت کے سنوارتے، مناظر تراشتے اور چمک دمک میں سینما کی سلور سکرین پر پیش کرتے ہیں، اس تمام فنی آرائش کا اصل مقصد لوگوں کو خوشی، مسکراہٹ اور چند لمحوں کی تفریح دینا یا پھر ایسا سبق سکھانا جو زندگی کی تاریک راہوں میں روشنی کا کام دے، وہ بھی بغیر اس کٹھن تجربے سے گزرے، یوں فلم نہ صرف دل بہلاتی ہے بلکہ سوچ کے نئے دریچے بھی کھولتی ہے۔
گذشتہ روز فلم گووندا نام میرا دیکھی، ایک دلچسپ پیشکش جس نے یہ کالم لکھنے پر مجبور کر دیا، سکرپٹ اگرچہ جاندار سے ذرا کمزور ہے، لیکن اداکاری، ڈائریکشن اور لوکیشن اس کمی کو بخوبی سنبھال لیتے ہیں، ڈائریکشن تو اعلیٰ درجے کی ہے ہی، ہر منظر میں فلمی رنگ آمیزی موجود ہے، مگر یہ رنگ غیر ضروری نہیں لگتے بلکہ کہانی کے بہاؤ اور دلچسپی کو بڑھاتے ہیں۔
فلم کا ہیرو وکی کوشل بذات خود سٹرگل سے دوچار ہے، بیوی بھومیکا پڈنیکر سے اس کی نہیں بنتی، نوبت طلاق تک آن پہنچی ہے، بیوی طلاق کیلئے دو کروڑ مانگتی ہے، ہیرو وقتی فرار حاصل کرنے کیلئے ایک فلمی ڈانسر کیارا ایڈوانی کی زلفوں کا اسیر ہو چکا ہے جو اس جیسی سٹرگلر ہے، ہیرو ایک فلمی ڈانسر ماں اور ایکشن ڈائریکٹر باپ کی جلدبازی میں فلمی سیٹ پر ہوئی شادی اور محبت کا ثمر ہے، شادی کے چند ہی ماہ بعد ایکشن ڈائریکٹر ایک شوٹنگ کے دوران حادثے کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، باپ کی آخری رسومات ممبئی کے آشا نواس بنگلے میں چل رہی ہوتی ہیں کہ اس کی پہلی بیوی اپنے بچے کو لے کر آ جاتی ہے، بنگلے کی مالیت 150 کروڑ ہے، یہاں سے کہانی میں ایسے موڑ آنا شروع ہوتے ہیں جو ناظرین کو بار بار چونکا دیتے ہیں اور ہر نیا موڑ پچھلے سے زیادہ دلچسپ محسوس ہوتا ہے، کہانی میں کہیں بھی جمود نہیں ہے، یوں فلم اپنے سادہ مزاج کے باوجود دل پر اثر چھوڑتی اور آخری سین تک تجسس برقرار رکھتی ہے۔
بنگلے کی ملکیت کا مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے، جہاں ہیرو کی لقوہ زدہ ماں پُر اعتماد انداز میں خود کو قانونی مالک قرار دیتی ہے اور شادی کی تصویریں بطور ثبوت پیش کرتی ہے لیکن یہ لمحہ اس وقت ڈرامائی موڑ اختیار کر لیتا ہے جب یہ تصویریں ٹھوس ثبوت کی روشنی میں فلمی شوٹنگ کا حصہ قرار دیکر مسترد ہوتی ہیں، کہانی ایک ایسے راستے پر مڑتی ہے جہاں ہر سین، ہر مکالمہ اور ہر انکشاف ناظرین کی دلچسپی کو مزید بڑھا دیتا ہے بلکہ ہر منظر میں اگلے پل کا تجسس کرداروں کے چہروں پر جھلکتا رہتا ہے۔
اداکاری کے پہلو سے دیکھا جائے تو فلم میں سبھی فنکاروں نے شاندار کارکردگی دکھائی ہے، مگر وکی کوشل سب سے نمایاں نظر آتے ہیں، ان کے کام میں وہ اعتماد اور اثر انگیزی جھلکتی ہے جو ایک بڑے اسٹار کی پہچان ہوتی ہے، اگر وہ ڈائیلاگ ادا کرتے وقت کردار کو اسی شدت سے اپنے اوپر طاری کریں جیسے انہوں نے فلم ڈنکی میں کیا تھا تو ان کا ہر منظر جاندار ہو سکتا ہے، بے شک دلیپ کمار جیسی اداکاری کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
کیارا ایڈوانی کی اداکاری بھی وقت کے ساتھ نکھرتی جا رہی ہے، خاص طور پر وہ منظر جب ہیرو کی معذور ماں کو کھانا کھلاتے ہوئے ماں بھڑک اٹھتی ہے، تو کیارا کا غصے پر قابو رکھنا اور جذبات کو اندر ہی اندر سمو لینا بالکل حقیقی محسوس ہوتا ہے، حالات کی ماری لڑکی لوگوں کی نظروں سے بچ کر اپنا گھر بسانا چاہتی ہے اور یہ جذبہ اس کی آنکھوں اور تاثرات میں واضح جھلکتا ہے، یہ مجبوریاں اسے ہیرو کی بیوی کا قتل چھپانے کیلئے مدد کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
بنگلے پر عدالتی عملے کی ریڈ والا سین، کیارا کا مایوسی بھری نم آنکھوں کے آنسو چھپانے کیلئے گردن گھما کر اوپر ہوا میں دیکھنے والی ناامیدی کی حقیقی اداکاری کہ آسمان اب سر پر گرا یا تب گرا، آنسو چھلکنے کیلئے کناروں پر مگر وہ حالات کے جبر کا کسی سے شکوہ بھی نہیں کر سکتی، اگر اس چند سیکنڈ سین کے بیک گراؤنڈ میں"باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے، جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے" کا میوزک پلے کر دیا جاتا تو کیارا کی اداکاری کو ایوارڈ مل جاتا، اسی طرح تھانے کے مناظر میں ڈری سہمی، ہیرو کی بیوی کے قتل سے خود کو بری الذمہ قرار دینے کی معصومیت کو بھرپور انداز میں پورا کرتی ہے، یہ سب کچھ اتنا نیچرل پیش کیا گیا ہے کہ میں لمحہ بھر کے لیے بھی پردے سے نظر نہیں ہٹا پایا، بے شک اس کردار کیلئے کیارا ایڈوانی سے بڑھ کر کوئی حقدار نہیں تھا۔
فلم میں ہر کردار نے نہ صرف اپنی اداکاری کا حق ادا کیا ہے بلکہ ایک دوسرے کی بھرپور معاونت بھی کی ہے، جس سے کہانی میں تسلسل اور روانی قائم رہتی ہے، سیاجی شنڈے اپنے نشئی گلوکار بیٹے سے سخت نالاں ہے اور اسی بیٹے کی میوزک وڈیو لانچ کرنے کے لیے وکی کوشل اور کیارا کی خدمات تیس لاکھ کے عوض لیتا ہے، مگر بدقسمتی سے شوٹنگ کے دوران گلوکار نشے میں دھت رہتا ہے، نتیجتاً سیاجی شنڈے وڈیو مسترد کر دیتا ہے اور رقم بمع سود واپس مانگتا ہے، حالات اس نہج پر پہنچتے ہیں کہ مار پیٹ کے بعد وکی کوشل کو نکال دیا جاتا ہے۔
کہانی ایک نئے رخ پر مڑتی ہے جہاں صرف مشکلات اور بند گلیاں ہیں، عدالتی کارروائیاں ہیرو کا گھر چھیننے کو تیار ہیں، سوتیلی ماں اور بھائی دو کروڑ روپے کی آفر دیتے ہیں کہ یہ "مونگ پھلی" پکڑو اور 150 کروڑ کا گھر خالی کرو، ہر طرف سے مایوسی، دھوکہ اور نقصان کے سائے منڈلا رہے ہیں لیکن ایسے کٹھن حالات میں بھی ہیرو ہار ماننے والا نہیں، بلکہ وہ ایک بڑے پلان کی کوشش میں نشئی گلوکار کی گاڑی سے ایک کلو ڈرگز کا پیکٹ اڑا لیتا ہے، یہ قدم کہانی کو مزید سنسنی، تجسس اور ڈرامائی موڑ کی طرف لے جاتا ہے اور ناظرین کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اگلا سین دیکھنے کے لیے پلک بھی نہ جھپکیں۔
فلم کا کلائیمیکس واقعی ایک اعلیٰ درجے کے لکھاری کی ذہانت اور مہارت کا شاہکار ہے، اس قدر باریک بینی اور پیچیدگی سے لکھا گیا کہ اس چونکا دینے والے چند منٹ کے کلائمیکس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مجھے تین مرتبہ ریورس کرکے دیکھنا پڑا لیکن یہی تو اس کی خوبصورتی ہے، ایسا انجام جو ناظر کو حیران بھی کرے اور سوچنے پر بھی مجبور کر دے۔
فلم محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ نصیحتوں کا خزانہ بھی ہے، پیسے کی چمک بعض اوقات آنکھوں کو اس قدر خیرہ کر دیتی ہے کہ ہم حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں اور حقائق سے ہٹ کر جذباتی رو میں کیا گیا ایک غلط فیصلہ زندگی کو بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، ایسے میں اگر اولاد فرمانبردار اور ساتھ دینے والی ہو، تو یہ رب کا خاص انعام اور صبر کا پھل ہے۔
قصہ مختصر یہ فلم نہ صرف ایک سے زیادہ بار دیکھنے کے قابل ہے بلکہ ہر بار نئے زاویے سے لطف دیتی ہے، گانوں کی تعداد کم ہے لیکن وہ بھی کہانی کی ڈیمانڈ کے عین مطابق ہیں، اگر گانے نہ بھی ہوتے تب بھی سکرپٹ میں ضرورت نہ تھی، میری رائے میں یہ فلم دس میں سے مضبوط آٹھ نمبر کی حق دار ہے، ایک مکمل پیکج جو دل کو بہلاتا، دماغ کو جھنجھوڑتا اور آنکھوں کو بھاتا بھی ہے۔
اچھوتا مگر مختصر کلائیمیکس اپنی سادگی میں گہری معنویت سموئے ہوئے ہے، یہ ناظر کو ایک بنیادی مگر زندگی بدل دینے والا سبق دیتا ہے کہ کسی پر دل سے فدا ہونے سے پہلے ذرا رُک کر آنکھیں کھولو، حالات کا بغور جائزہ لو اور خود سے یہ سوال کرو کہ "کیا یہ فیصلہ واقعی مجھے کرنا چاہیئے؟" کیونکہ جوانی کا جوش اور جذبات کی تیزی اکثر انسان کو ایسی بڑی غلطیوں کی طرف دھکیل دیتی ہے جن کا خمیازہ عمر بھر بھگتنا پڑتا ہے۔
پولیس فورس کا ایک جاندار ڈائیلاگ اس پیغام کو مزید وزن دیتا ہے کہ تفتیش کی گاڑی شک کے پٹرول سے چلتی ہے، جیسے ہی ڈور کا سرا ہاتھ آتا ہے، پوری کہانی کا تانا بانا کھل کر سامنے آ جاتا ہے لیکن اس سرے تک پہنچنے کی پیچیدگیاں برقرار رہتی ہیں، مصنف کی یہی معراج ہے کہ اس نے آخر تک کہانی کو سلجھن نما الجھن میں مبتلا رکھا ہے۔

