Monday, 17 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ashfaq Inayat Kahlon
  4. Dur Dur

Dur Dur

دُر دُر

کسی زمانے میں بلدیہ کیمپ حائل کی گراؤنڈ میں شاندار کرکٹ میلہ سجتا تھا، مکمل گراؤنڈ میسر ہونے باعث سارا سال کرکٹ کھیلی جاتی، تین مہینے جاری رہنے والے سالانہ فلڈ لائٹ ٹورنامنٹ کی شان نرالی تھی جس میں صوبہ حائل کی سولہ بہترین ٹیمیں حصہ لیتیں، اچھی پرفارمنس والے کھلاڑی پر انعام واکرام کی بارش ہوتی، ریسٹورنٹس سے مفت کھانا و چائے ملتی، جو پلیئر فائنل میچ میں پرفارمنس دکھاتا، اسے چھٹی جانے کیلئے تحائف خریدنے کی ضرورت نہ رہتی، ایک مرتبہ عمدہ کیچ پکڑنے پر میری کلائیاں چھل گئیں لیکن سٹیزن کی مہنگی دستی گھڑی انعام ملی تھی، شومئی قسمت ہر مرتبہ فائنل بلدیہ اے الیون اور سماوی الیون کے درمیان ہوتا جو اپنے امپائروں کی مدد سے بلدیہ والے ہی جیتتے، ایک فائنل سماوی الیون نے جیتا اور سرپرست اعلیٰ اجمل خان نے انعامات کی برسات کردی، تمام ٹیم کو عمرہ، نقد انعامات، ایک مہینہ سماوی ہوٹل پر دو وقت مفت کھانا بھی ملا، جو نام و عزت سرفراز بلو کمبوہ فرام بھلوال نے کمائی، مثال ملنا مشکل ہے، فاسٹ باؤلرز کو چیلنج دیکر بندر کی طرح چھلانگیں مارتا ہوا پچ کے وسط میں جا کر لمبے چھکے مارتا تھا۔

جمعرات جمعہ کو میچز منعقد ہوتے، شہر کے علاوہ اردگرد کے علاقوں سے لوگ گاڑیاں بھر بھر آتے، پہلے آنے والوں کو مناسب پارکنگ کی جگہ مل جاتی لیکن جو لیٹ آتا وہ خجل وخوار ہوتا، میچ ختم ہونے بعد پارکنگ سے گاڑیاں نکالنا بھی مسئلہ بنتا، ہر میچ پر گیٹ سے لیکر گراؤنڈ تک راستے کو بارات کی گزرگاہ کی طرح سجایا جاتا، سموسے، پکوڑے، جلیبی، فروٹ چاٹ بیچنے والوں کی چاندی ہوتی وہ ایک رات میں ہی دو دو مہینے کی کمائی کر لیتے، ایک پرسنالٹی چاچا چس تھرمس میں بھر کر چائے بیچتا تھا، بڑی شان سے کپ میں کسٹمر کو پیش کرتا، کسٹمر چسکی لیتا تو وہ پوچھتا "سنا فیر چس آئی اے؟"، اس کی خوش ذائقہ چائے کی وجہ سے عرفیت ہی چاچا چس پڑ گئی۔

اس وقت جو تارک وطن پاکستان جاتا تو کرکٹ ٹورنامنٹ کی ایسی شان بیان کرتا کہ جو سنتا مست ہو جاتا، ایک فائنل کا مہمان خصوصی طرے والا کُلہ پہنے شاہد رانجھا بنا، دو میل لمبا گاڑیوں کا ہارن بجاتا قافلہ تھا، اطلاع ملنے پر پولیس کی بھاری نفری نے پورے قافلے اور گراؤنڈ کو گھیر لیا، میئر بلدیہ حائل نے گورنر حائل کو فون کرکے صورت حال بتائی اور ایسا پروٹوکول ملا کہ پولیس کی گاڑیاں آگے اور پیچھے دو میل لمبا گاڑیوں کا قافلہ، تمام گاڑیاں ڈبل اشارے جلائے اور ہارن بجاتے گزرتی رہیں، پولیس والے ہنس ہنس پوچھتے تھے "کیا مہمان خصوصی امیر حائل ہے؟"۔

کھلاڑیوں کی عزت ایک طرف رہی، جو نام و مرتبہ مہمان خصوصی کو ملتا وہ علاقہ ایم این اے کو بھی میسر نہ ہوتا تھا، لوگ فخر سے اسے دعوتوں میں مدعو کرتے، اپنے ساتھ فوٹوز بنواتے، فقط ایک میچ کا مہمان خصوصی بننے کیلئے لوگ اپنی جیب سے بھاری اخراجات ادا کرتے تھے کہ کسی طرح نام وشہرت ملے، کوئی صاحب حیثیت پوری ٹیم کو گود لے لیتا، کوئی ٹرانسپورٹ، کوئی کھانا، کوئی یونیفارم وغیرہ مہیا کرتا، اگر کوئی نیا کھلاڑی آتا تو اسے اپنی ٹیم میں شامل کرنے کیلئے لڑائی مار کٹائی تک ہوتی، سفارشیں کروائی جاتیں، اسے راغب کرنے کیلئے مالی مراعات اور روزگار بھی دلوایا جاتا۔

بندہ جب نیا نیا بارلے ملخ جاتا ہے تو نئی دنیا دیکھ کر حیران و پریشان ہونا قدرتی امر ہے، نئے ماحول میں کچھ نیا سیکھنے اور ایڈجسٹ ہونے کیلئے کچھ وقت درکار ہوتا ہے، اس دوران بعض اوقات وہ ایسی بونگیاں مارتا ہے جو ہمیشہ کیلئے سند کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں، پہلے پہل مجھ سے بھی ایسی کئی حرکات سرزد ہوئیں، کرکٹ کھیلنے کے شوق میں مفت میسر رہائش چھوڑ کر سماوی الیون کے ساتھ شفٹ ہوگیا تھا، جہاں کرایہ، بجلی و پانی کا بل بھی اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا تھا۔

تین کمروں کے فلیٹ میں پوری کرکٹ ٹیم مقیم تھی، فقط تین افراد یونس ماچھی آف 8 چک بھلوال بس ڈرائیور، عبدالرحمن عرف مانی ٹیرا فرام ساہیوال اور میں برسر روزگار تھے، باقی سارے ایک دم ویلے تھے جو مفت قیام وطعام میسر ہونے کے باعث سارا دن سوتے اور رات کو جاگتے تھے، اس دور میں ایک رجحان تھا کہ جو بندہ پاکستان میں کوئی کام نہیں کرتا اسے سعودی عرب بھیجو، اکثریت ان پڑھ، غیر ہنرمند، معاشرے کے ٹھکرائے افراد تھے، اپنی قسمت آزمانے اور روزگار کی تلاش میں آنے والوں کی شکلوں پر غربت کی چھاپ صاف نظر آتی اور اپنی ذات میں پائی جانے والی معاشرتی برائیاں بھی ساتھ ہی لاتے تھے، اس منشور پر سختی سے عمل پیرا تھے کہ دوسروں کو ٹارگٹ کرکے ان کی جیب سے کھاؤ، اپنی باری آنے پر مفلس بن جاؤ اور بندے آپس میں لڑاؤ، یہ اس حد تک حیادار تھے کہ جہاں داؤ لگانے کا موقع ملتا وہاں ہرگز نہ چوکتے تھے۔

یہاں ذکر برسوں پہلے بھلوال سرگودھا کے ایک جٹ وڑائچ صاحب کا ہے، سعودی عرب سے جو بھی بندہ اپنے وطن چھٹی جاتا، وہ دو کام ضرور کرتا، ایک دل کھول کر خرچہ اور دوسرا کرکٹ ٹورنامنٹ کی شان ضرور بیان کرتا، وڑائچ صاحب کو دوست حضرات "مہمان خصوصی" بنانے کا "گھیڑا" دیکر سعودیہ لے آئے تھے، یعنی عرف عام میں ویزے میں سے اپنا کمیشن نکالا تھا، چوہدری جی نے بھینس فروخت کرکے ویزہ خریدا اور مہمان خصوصی بننے کا خرچہ جمع کیا۔

جب اسے فضائی ٹکٹ بھیجا تو اس نے الٹا ہمیں پریشان کر دیا کہ شائد ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے یا ٹریول ایجنسی والوں نے غلط ٹکٹ دیدیا ہے، "لاہور سے حائل جانے کے لیے ہوا میں اچھی خاصی سیدھی لکیر بننا ممکن ہے، پھر یہ ایئر لائن والوں کو کیا سوجھی کہ لاہور سے الریاض اتار کر وہاں سے دوسری ایئر لائن کے ذریعے حائل کی فلائٹ دے رہے ہیں؟" اسے بمشکل سمجھایا کہ فضائی ایئر روٹ ایسے ہی ہوتے ہیں۔

اس نے کھانے کا پوچھا تو اسے بتایا "لاہور تا الریاض پی آئی اے والے اچھا کھانا دیتے ہیں، اس کے بعد الریاض تا حائل فلائٹ بمشکل ایک گھنٹہ ہوتی ہے، چائے یا جوس ملے گا"، اسے بہت مایوسی ہوئی۔

"اتنا مہنگا ٹکٹ اور کھانا فقط ایک مرتبہ، میری تکٹ تبدیل کراؤ"، اسے سمجھایا کہ اس طرح کم از کم چوبیس گھنٹے سفر کرتے رہو گے لیکن وہ بضد رہا، "پنڈ والوں کو پتہ چلنا چاہیئے"، قصہ مختصر اس کی ضد پر لاہور - عمان - الریاض - حائل کی ٹکٹ بنوائی۔

اسے جب حائل ایئرپورٹ پر ویلکم کرنے گئے تو اس کی وضع قطع دیکھ کر سب نے ایک عدد گہری سانس لی اور "اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم" بھی پڑھا، گھنی مونچھیں، رنگ دار ڈبیوں والا لاچا، بوسکی کا کھلا کرتہ اور سر پر کم از کم چھ گز پگڑ باندھے موصوف سب سے ملتے ہوئے بڑے افسوس سے بتا رہے تھے "اپنا حقہ میں ساتھ لایا تھا لیکن لہور ایئرپورٹ پر کسٹم آفیسر کو پسند آگیا تو اسے گفٹ کر دیا۔ "

عبدالرحمن نے اسے فوراً "بیسٹ فرینڈ" کے عہدے پر فائز کر دیا، حائل شہر میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ ایک بندہ فقط مہمان خصوصی بننے کیلئے پاکستان سے ویزہ خرید کر آیا ہے، آئے دن اس کی دعوتیں ہونے لگیں، رات کو چھت پر ہم یار لوگ اس کی جانگلی زبان سے قصے سن کر بہت لطف اندوز ہوتے، کچھ منچلے کبھی کبھار اسے تنگ بھی کرتے، تب وہ بڑے غصے سے سب کو مخاطب کرتا "اللہ دی قسمیں، میں کوئی عام بندہ نہیں، اگر تم لوگ 8چک میں ہوتے تو میرے قہر سے پولیس بھی تم کو نہ بچا سکتی، میں یہاں کمائی کرنے نہیں بلکہ مہمان خصوصی بننے آیا ہوں اور رقم ساتھ لایا ہوں"۔

قصہ مختصر ایک ہفتہ خاطر تواضع کے بعد اس کے سعودی کفیل سے ملوانے لیکر گئے، چوہدری وڑائچ بڑا تیار شیار ہوا، سر پر پگڑ باندھا، مونچھوں کو دیسی گھی لگایا، اس کے کفیل کے گھر پہنچ کر ڈور بیل بجائی، حبشی نژاد موٹے ہونٹوں والا کفیل باہر آیا، (واضح ہو کہ اس کفیل کے ہونٹ کچھ زیادہ موٹے تھے)، مہمان خصوصی کو کہا "چوہدری اپنے کفیل سے ہاتھ ملاؤ"، لیکن اس نے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا، دو تین مرتبہ کہا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا، شائد کفیل کو دیکھ کر اسے مایوسی ہوئی تھی، کچھ لمحے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کفیل کو دیکھتا اور مونچھوں پر ہاتھ پھیرتا رہا، کفیل کو اس کا یہ انداز پسند نہ آیا، وہ عربی میں بولا "اسے بتاؤ کہ میں کفیل ہوں "، جب چوہدری کو ترجمہ کرکے بتایا "یہ تیرا کفیل ہے"، تو وہ ایک دم ہتھے سے اکھڑ گیا "دُر دُر، چبول دی چبول نہ ہوئے تے، ایہدے نالوں سوہنا جاتک میرے کٹے نہلاندا اے، میرا خروج لگواؤ، میں ایتھے نہیں رہنا"۔

ہم اسے گھیر کر ہاتھ ملانے کیلئے آگے کرتے لیکن وہ ایک ہی لفظ بولتا رہا "دُر دُر، چبول دی چبول"، ہم سب کا ہنس ہنس کر جو حال ہوا، وہ بیان سے باہر ہے، اسے واپس گھر لائے، دوستوں نے اسے بہت سمجھایا، پاکستان سے فون کروائے لیکن وہ نہ مانا اور اگلے ہفتے خروج نہائی لگوا کر پاکستان چلا گیا۔

Check Also

Bohat Mumkin Hai Bilawal Bhutto Ke Par Nikal Aayen

By Gul Bakhshalvi