Darya e Irtish Ke Kinare
دریا ارتش کنارے

لینن ہاسٹل میں سٹوڈنٹس کی سہولت کیلئے ایک سٹوڈنٹ بلال اصغر وڑائچ فرام سرگودھا نے اپنے کمرے میں کنٹین بنا رکھی تھی جہاں ہنگامی طور پر کھانے کا کچھ سامان، سوفٹ ڈرنکس اور کبھی کبھار تندور والی دیسی روٹی بھی ملتی تھی، ملک یوسف وہاں سے خلیب یعنی بریڈ خرید لایا، رشین خلیب اوپری سطح سے بہت سخت محسوس ہوا کہ اسے کاٹنے کیلئے آری درکار ہوگی، خیر جیسے تیسے ناشتہ کیا اور نیچے اترے۔
موسم خوشگوار تھا، طے پایا کہ آج ہوسٹل کی داہنی سمت چلتے ہیں، آگے امراء کا کلب جس میں داخلہ فقط مخصوص افراد کیلئے اور ڈریس کوڈ کی پابندی لازمی تھی، تھوڑا مزید آگے ہوئے، دائیں طرف ایک باغیچے میں دو فُٹ اونچے گول چبوترے پر آنجہانی لینن کا دس میٹر اونچا سنگی مجسمہ نصب تھا، مجسمہ ساز نے انقلابی تقریر کرتے لینن کی بھرپور عکاسی کی تھی، آنکھوں میں بے خوفی اور انقلاب کی چنگاری، بائیں ہاتھ سے اوور کوٹ تھام رکھا اور دایاں بازو پورا کھول کر دائیں طرف اشارہ کر رہا تھا، دنیا نے لینن کو دیکھا اور سُنا لیکن مجسمہ ساز نے اپنی تمام تر محبت کو مجسمے کی شکل دیدی تھی۔
لینن بھرپور عروج کی حالت میں ہی خالق حقیقی سے جا ملا، چند گنے چُنے انقلابی رہنماؤں کو مرتے وقت یہ اعزاز نصیب ہوا کہ ان کی لاش کی بے حرمتی نہ ہوئی اور پورے تزک وا احتشام کے ساتھ دفن کیا گیا، لینن کی حنوط شدہ لاش آج بھی موسکو میں ہر عام و خاص کی زیارت کیلئے شیشے کے تابوت میں موجود ہے، مجسمے کے نیچے دونوں اطراف میں مشاہیر کے تین فٹ اونچے مجسمے چھوٹے چبوتروں پر بطور یادگار نصب جو لینن کی عظمت کے سامنے بونے ہی لگتے ہیں، جوزف سٹالن اور لیو ٹالسٹائی کا مجسمہ پہچان لیا، ٹالسٹائی کا اردو میں مطلب موٹا انسان ہے، ایک بڑے جدی پُشتی جاگیردار کے ادب پسند بیٹے لیو ٹالسٹائی کا ادبی قد و قامت بہت بلند و بالا ہے۔
تھوڑا آگے بڑھے، سڑک نیچے جاتی محسوس ہوئی، سامنے جا بجا ہر طرف درخت، موسم خزاں کی ابتدا، درختوں کے پتوں کا بدلتا رنگ دور سے ایسے نظر آتا جیسے درختوں میں آگ لگی ہوئی، پاس جا کر دیکھا تو قدرت کی کاریگری پر عش عش کر اٹھے، بلند قامت درخت، زمین پر پتے گرے ہوئے، جو پاؤں کے نیچے آ کر چُر مُر کی آواز دیتے گویا پکار رہے ہوں کہ جو پتہ درخت سے جُدا ہوا اس کا نصیب پاؤں تلے، مزید آگے بڑھے تو سڑک دائیں بائیں جا رہی تھی، دونوں سڑکوں کے سنگم پر سڑک کے پار ایک مخروطی شکل کا کنکریٹ سے بنا خیمہ سا نظر آیا، کنکریٹ کے چھ عمود اور اوپر چھت، اندر لکڑی کے بنچ گولائی میں نصب، خیمے میں کھڑے ہو کر جائزہ لیا، درختوں کے پار کچھ دکھائی نہ دیتا تھا ماسوائے ڈھلان اور پیدل چلنے کیلئے پکا ٹریک بنا تھا، خیمے سے بائیں طرف ہولئے، سڑک سیدھی جا کر بائیں بل کھاتی تھی، وہاں سڑک کے اختام پر اونچائی اور بلڈنگیں، تیس چالیس قدم کی مسافت بعد دائیں ہاتھ پانی چمکتا نظر آیا، ارے یہ تو وہی دریا ارتش ہے جو ٹرین سے نظر آیا تھا، دائیں جانب گاڑیاں نیچے اتارنے کیلئے کنکریٹ کی ڈھلوان بنی تھی، ڈھلوان کے بائیں سڑک کے ساتھ ایک قطار میں فوارے جو نیچے دریا کنارے واکنگ ٹریک تک نصب تھے۔
دریا میں ایک چھوٹا بحری جہاز بھی لنگر انداز جو دریا میں سیر بھی کرواتا اور شام کے وقت پارٹی وغیرہ بھی ہوتی تھی، دریا ارتش میں سال کے چھ مہینے کشتی رانی ممکن ہے، ڈھلوان سے نیچے اتر کر دریا کنارے مشاہدہ کیا کہ تیس فُٹ چوڑا واکنگ ٹریک جو دونوں اطراف بہت دور تک چلا گیا تھا۔
ٹریک کے ایک طرف کچھ جگہوں پر لوہے اور لکڑی کے بنچ بھی نصب، حفاظتی منڈیر ڈیڑھ یا دو فُٹ چوڑی جس پر بیٹھا اور لیٹا بھی جا سکتا تھا، آگے دائیں طرف سڑک اور ریل کے پُل نظر آ رہے تھے، لکڑی کے گھاٹ کی سمت نیچے اترتی سیڑھیوں پر کچھ لوگ فوٹو گرافی کا شوق پورا کر رہے تھے، مناظر بہت دلچسپ تھے، آسمان کا رنگ بھی پاکستانی آسمان سے مختلف تھا، گھاٹ پر قدم رکھا، دریا کے بہتے پانی کو چُھوا، بہت ٹھنڈا تھا، دریا کے بیچوں بیچ درختوں سے بھرا کم از کم ایک کیلومیٹر لمبا قطعہ ارض نما ٹاپو جو پ، ل سے شروع ہو کر بہت آگے تک جاتا تھا، دل چاہا کہ ٹاپو پر جا کر وہاں کے مناظر دیکھے جائیں لیکن پانی بہت گہرا اور کشتی بھی دستیاب نہ تھی، یہ شوق میں نے موسم گرما میں پانی اترنے کے بعد پورا کیا، ٹاپو کے درمیان ایک کھاڑی سی بنی جہاں پانی اترنے کے بعد گہرائی دس فٹ اور لمبائی پچاس فٹ ہو جاتی تھی۔
دریا کو دائیں ہاتھ رکھ کر پیدل چلے، ایک کیلومیٹر بعد بائیں طرف اونچائی پر لکڑی سے بنی ایک پن چکی نظر آئی، اس منظر کی پہلی نظر والی کشش آج تک باقی ہے، اوپر چڑھے، دونوں اطراف بڑے بڑے سنگی گملے، پورے پروٹوکول کے ساتھ کاریگر ہاتھوں نے پن چکی بنائی جو تب بھی چلتی تھی۔
نیچے اتر کر مزید آگے گئے، لکڑی اور لوہے سے بنا ستاری موست یعنی پرانا پُل نظر آیا، گرچہ پرانا لیکن اب بھی قابل استعمال، گاڑیاں آ جا رہی تھیں، کچھ پیدل افراد بھی تھے، پُل پر چڑھ کر وسط میں گئے اور دریا کا نظارہ کیا، تاحد نگاہ دریا کا چمکتا پانی تھا، پُل پر تھوڑا مزید آگے گئے، ٹاپو کے اوپر سے پُل گزرنے کے بعد آگے بھی دریا کے پار تک چلا گیا تھا، یہاں دریا کا پاٹ بہت چوڑا تھا، اپنے دریا راوی کے پاٹ سے زیادہ چوڑا ہے، راوی میں اب پانی خال خال ہی نظر آتا ہے جبکہ یہاں فراوانی سے بہہ رہا تھا، پل کے پار بھی سیمی شہر کی بلند و بالا عمارتیں اپنی رونق دکھا رہی تھیں، طے پایا کہ سیمی کا وہ حصہ پھر کسی دن دیکھیں گے اور واپس ہو لئے، پل کے پار اوکیان پلوشد علاقہ بہت خوب صورت اور ٹاؤن پلاننگ سے بنا جہاں افتخار کشمیری اور میں نے مل کر پہلا فلیٹ کرائے پر لیا تھا۔
دریا ارتش شمال مغربی چین میں سنکیانگ کے اویگور خود مختار علاقے میں التائی پہاڑوں کے جنوب مغربی ڈھلوانوں پر گلیشیروں سے نکلتا ہے، چین کی سرحد کے اس پار جھیل زیسان اور پھر شمال مغرب میں قازقستان سے گزرتا ہے، سیمی شہر کے شمال مغرب میں یہ دریا مغربی سائبیرین میدان کے جنوبی حصے میں بہتا ہے، اومسک کے جنوب مشرق میں تقریباً 100 میل کے فاصلے پر سائبیریا (روس) میں داخل ہو کر آگے بہتا ہے، اومسک کے نیچے کی طرف ارتش ایک وسیع دلدلی علاقے میں داخل ہوتا ہے، جو شمال مغرب کی طرف سفر کو دوبارہ شروع کرنے سے پہلے شمال مشرق اور شمال کی طرف U شکل کا ایک بڑا موڑ بنا کر دوبارہ شمال کی طرف مڑتا ہے، مغربی سائبیریا میں خانتی مانسسک کے قریب دریائے اوب میں شامل ہونے سے پہلے واسیو گانیئے دلدل کے مغربی حصے سے گزرتا ہے۔
واپسی پر اسی ڈھلوان سے اوپر چڑھے، اوپر پہنچ کر دیکھا کہ یہ داستان ڈسکو کلب کا دریا کی سمت والا بیرونی حصہ تھا، وہاں سے دائیں ہوئے، سڑک کے ساتھ چلتے بائیں مُڑے، دائیں ہاتھ پر بہت خوب صورت عمارت کی بیرونی دیواروں پر بہت عمدہ پینٹنگز بنی تھیں، تھوڑا مزید آگے بڑھے تو دائیں طرف سیمی کا پانج ستارہ ہوٹل نظر آیا، ہم چوراہے پر پہنچ چکے تھے، سامنے پلوشد کا پھولوں بھرا میدان، سڑک کے ساتھ بائیں ہاتھ ہوئے، چلتے دائیں ہاتھ آبائی لائبریری اور اس کے بعد ہم پھر سے ہوسٹل والے چوراہے پر پہنچ چکے تھے۔

