Chorsu Bazaar Tashkent
چور سُو بازار تاشقند

استقبالیہ پر موجود رشین لڑکی نے بڑی تفصیل سے چور سُو بازار کا راستہ سمجھایا، میں احتیاطاً گوگل میپ لوکیشن آن کرلی، ہدایات مطابق باہر نکل کر بائیں ہولیا، دونوں اطراف کچے پکے مکانات، اتفاق سے باقی گلی سلامت تھی، بلدیہ کی توڑ پھوڑ ٹیم اب تک یہاں نہ پہنچی تھی، دو منٹ بعد ڈبل مین روڈ پر پہنچا، سڑک کے وسط میں ایک میٹر پکے قطعہ پر پھول و پودے لگے تھے، دائیں بائیں مختلف ریسٹورنٹ و دکانیں، اونچے درخت، سڑک کے پار بڑا باغ عجب ہریالی دکھا رہا تھا۔
لوکیشن مطابق بائیں ہاتھ بڑھا، ایک منٹ بعد بائیں ہاتھ بڑی گلی میں کچے مکانات نظر آئے، کونے پر سبز بہار ایریا ڈسپنسری کا بورڈ رشین زبان میں آویزاں تھا، توڑ پھوڑ باعث تکلیف کیلئے معذرت بھی لکھی تھی، فراخ دلی سے انہیں معاف کر دیا۔
دو منٹ بعد بہت سے ازبک لوگ ہاتھوں میں سامان اشیاء خور و نوش اٹھائے نظر آئے، اندازہ ہوگیا کہ چور سُو بازار قریب ہے، سڑک کنارے ترتیب سے کھڑی گاڑیاں، آگے بائیں طرف پارکنگ لاٹ و سیکیورٹی بوتھ، گارڈ سے رشین زبان میں پوچھا "کیا یہ چور سُو بازار ہے؟"، ہاں میں جواب دیتے اس نے سلام کیلئے ہاتھ بلند کرتے بیریئر اوپر اٹھا دیا، میں سلام کا جواب دیتا بیریئر سے گزر کر اندر داخل ہوا، کنکریٹ کا کٹا پھٹا فرش، کئی مرتبہ پاؤں ڈگمگائے، پارکنگ بعد کثیر تعداد لنڈا بازار ٹائپ لکڑی کے کھوکھے، ترپال والی چھتیں، سستے ملبوسات از ہرقسم، رش بہت زیادہ تھا۔
خریداروں کی اکثریت گھٹنوں اور جوڑوں کے درد میں مبتلا، ڈگمگاتی، چوغہ نما لباس پہنے اور سر پر لپیٹ کر سکارف باندھے بوڑھی ازبک عورتیں تھیں، نوجوان لڑکیاں جینز پہنے اور بغیر سکارف، سکرٹ پہنے کوئی نظر نہ آئی، ازبکستان کا عمومی تعارف بطور مسلم ملک ہے اور اب تک ماڈرن اسلام ہی نظر آیا تھا، کپڑوں پر لگے ہاتھ سے لکھے پرائس ٹیگ پڑھتا اور مناظر دیکھتا سبزی سیکشن پہنچ گیا، یہاں بھی لکڑی کے کھوکھے، بے دھیانی میں چلتا ہوا بیرونی سڑک پر آگیا، یہاں بس سٹاپ اور چند قدم آگے ایک چوراہا، چوراہے کے پار بائیں طرف بڑے گنبد والی عمارت پر رشین زبان میں سرکس لکھا نظر آیا، یہ میری مطلوبہ نیلے گنبد والی چور سُو عمارت ہرگز نہ تھی۔
بس سٹاپ پر کھڑی ازبک لڑکیوں کو سلام کرکے چور سُو بازار کا پوچھا، وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگیں، شائد میں کوئی عجوبہ سوال پوچھا تھا، ان کی ہنسی کو بریک لگی تو میں دوبارہ پوچھا، اس مرتبہ ہنسی کو چوتھا گیئر لگ گیا، ایک سیانی نظر آنے والی ہوا سے لہراتے بالوں کو چہرے سے ہٹاتے بولی "تمہارے عقب میں چور سُو بازار ہے"، دوسری نے پوچھا "نیا غیر ملکی؟"، پھر سے ان کی ہنسی پھوٹ پڑی، انہیں شائد میری ذہنی صحت پر شبہ تھا، میں تائید کی "ہاں آج ہی آیا ہوں "، ایک شوخی سے بولی "چور سُو بازار میں تمہارے لئے کچھ نہیں ہے، کچھ دیکھنا چاہو تو میجک سٹی جاو"، میں عرض کیا "چور سُو بازار کے پلاؤ کی بہت تعریف سنی ہے، مجھے بھوک لگی ہے، اگر آپ پسند کریں تو آئیں مل کر کھاتے ہیں "، سب نے معذرت کی، ایک نے راستہ سمجھایا، "تھوڑا آگے بائیں طرف نیلے گنبد والی عمارت چورسُو بازار ہے"، میں شکریہ ادا کرکے چل دیا۔
مطلوبہ عمارت نظر آنے پر اس طرف بڑھا، سامنے دو طرفہ لوہے کا بڑا گیٹ، جس میں سے ٹرک وغیرہ بآسانی گزر سکتے، اس کے پار ایک قطار میں ڈرائی فروٹ و سبزی والے کھوکھے، اس کے بعد دائیں بائیں جانے کیلئے پکا راستہ، کھوکھوں اور ترپال والی چھتوں کی بھرمار، اونچائی پر واقع نیلے گنبد والی بڑی عمارت کا رنگ و روغن پھیکا نظر آیا، میں حیران تھا کہ چورسُو بازار کی تاریخ 1570 سے شروع ہوتی ہے اور ماسوائے ایک پختہ عمارت فقط کھوکھے ہی نظر آئے تھے، ہاں البتہ سب کچھ منظم اور ترتیب میں تھا، میرا تجزیہ ہے کہ یوٹیوبرز نے لائیکس و کمنٹس کیلئے بڑھا چڑھا کر اس عمارت کو پیش کیا ہے، "سنٹرل ایشیا کا سب سے بڑا بازار"، یقین مانیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ اس سے بڑی تو گوجرانوالہ کی سبزی منڈی ہے۔
میں اوپر کی طرف سیڑھیاں چڑھا، جونہی پرانے دروازے سے اندر داخل ہوا تو مصالحہ جات کی تیز مہک ناک کے نتھنوں سے ٹکرائی اور میں چھینکنے لگا، ہر سُو مصالحہ جات کی بھرمار، گول دائرے میں قطار اندر قطار چھوٹے چھوٹے کاؤنٹرز پر مصالحہ جات برائے فروخت تھے، پرائس ٹیگ پڑھتا آگے بڑھا، اس کے بعد تازہ گوشت والے کاؤنٹرز، سیڑھیاں چڑھ کر اوپری منزل پر گیا، یہاں بھی یہی منظر تھا۔
اب بھوک زیادہ محسوس ہو رہی تھی، ایک دکاندار سے پلاؤ کا استفسار کیا تو اس نے راستہ سمجھایا، عمارت سے باہر نکل کر دائیں جانب مڑا، پیدل چلتا پلاؤ والے حصے کی طرف بڑھا، دور سے پلاؤ کی اشتہا انگیز مہک ماحول کو چار چاند لگا رہی تھی، سامنے اکبری دروازے جیسا منظر تھا، اس کے پار دونوں اطراف پلاؤ والے سٹال، بکرے اور گھوڑے کے گوشت سے بنا ازبک پلاؤ دستیاب تھا، عمومی منظر سڑک کنارے نصب چولہا، بلند ہوتا دھواں، کڑاہے میں لائیو پکتا پلاؤ، کٹی گاجریں، کشمش، چھوٹے چھوٹے انڈے، یہ کبوتر کے انڈے محسوس ہوتے تھے، چربی کا وافر شوربہ، چاولوں کا بڑا حصہ شوربے سے تر نظر آیا، ماحول لاری اڈے جیسا تھا، واضح فرق صفائی تھی، گندگی بالکل نظر نہ آئی، سر پر سکارف باندھے ایک خاتون نے مجھے دیکھ کر آواز دی، میرے استفسار پر بکرے کا گوشت بتایا۔
ایک پلیٹ تیس ہزار سوم یعنی پاکستانی تقریباََ 650 روپے، ایک پلیٹ آرڈر دیا، خاتون نے عقب میں موجود کرسیوں پر تشریف رکھنے کا بولا، خاتون نے ٹیبل پر پلاؤ پلیٹ رکھتے سلاد اور چائے کا پوچھا، میں نے اثبات میں سر ہلایا اور سادہ پانی مانگا۔
ازبک پلاؤ وسط ایشیاء کی سب سے شاندار اور مقبول عام ڈش ہے، پہلا نوالہ کھاتے ہی کثرت کشمش باعث میٹھا میٹھا محسوس ہوا، سلاد چکھا تو بالکل تازہ، پلاؤ کھانے کے بعد درحقیقت انگلیاں چاٹنے کو دل کر رہا تھا، دوسری پلیٹ کا آرڈر دیا، خاتون نے پوچھا "کیا کھانا پسند آیا"، میں خوش دلی سے بولا "بہت"۔
شکم سیر ہو کر بل ادا کیا اور گھوم پھر کر ماحول کا جائزہ لیا، اب تک فقط پلاؤ سیکشن ہی پسند آیا تھا، باقی سب لنڈا بازار اور عام سبزی منڈی ہے۔
بازاروں میں پھرتے مختلف چارٹ دیکھتے ہوئے میرے علم میں اضافہ ہوا، کچھ چارٹوں پر BIMAR XONA، SHIFA XONA، MEXMAN HONA رشین زبان کے قواعد وضوابط مطابق انگریزی والا ایکس، اردو والے خ کی آواز دیتا ہے، یہ بالترتیب بیمار خانہ، شِفا خانہ اور مہمان خانہ لکھا تھا، ازبک زبان کے قواعد مطابق ایکس کے بعد او الف کی آواز دیتا ہے، دھت تیرے کی، میں ماتھے پر ہاتھ مار کر ہنسا، جسے میں چور سُو بازار یعنی چوروں والا بازار سمجھا تھا وہ محض زبان و بیان کی غلطی ہے، ازبک لغت میں چور کا مطلب چار اور سُو کا مطلب ہے جہت یا سمت، ایسی جگہ جہاں سے چار مختلف اطراف کو راستے نکلتے ہیں، اپنی اس کم علمی پر میں دل کھول کر ہنسا، محض زبان و بیان کا فرق انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے۔