60 Turkish Lira Ka Pani
ساٹھ ٹرکش لیرا کا پانی

پرنس آئی لینڈ پر میں تیز تیز پیڈل چلاتا ہوا آگے نکل گیا، آرزو ہانپتی ہوئی سائیکل چلاتی کافی پیچھے رہ گئی، لگ بھگ آدھ کیلومیٹر بعد دائیں طرف ایک پارک کا بورڈ دکھائی دیا، اندر واک ٹریک، بیٹھنے کیلئے بنچ اور آبنائے مرمرا کا نظارہ بہت دلکش تھا، میں بیرونی گیٹ پر رکا، گیٹ کے اندر بائیں جانب لکڑی کا کیبن لیکن کوئی چوکیدار موجود نہ تھا، آواز دینے پر ایک ٹرکش نوجوان کیبن کی عقبی سمت سے باہر نکلا، اس نے جو بتایا اس کا مفہوم یہ تھا کہ "داخلہ فیس ایک عدد پانی کی بوتل قیمت 60 لیرا ہے"۔ یہ عجب طرز کی داخلہ فیس تھی، میں نے ناگواری کا اظہار کیا لیکن یہ داخلہ فیس ادا کئے بغیر پروانہ راہداری ملنا محال تھا، پیھچے مڑ کر دیکھا، آرزو ہنوز دور تھی، میں اس کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔
اتنے میں چند غیر ملکی سیاح سائیکل سوار آن پہنچے، میں ان کو راستہ دیکر ایک سائیڈ پر ہوگیا، سیاح اپنی باری پر آتے، 60 لیرا پانی کی بوتل خریدتے اور اندر داخل ہو جاتے، رش ختم ہونے پر میں کیبن کے پاس گیا، اسی اثناء میں ایک برقع پوش خاتون آن دھمکی، استنبول میں پہلی مرتبہ سر تا پا برقع ملبوس دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی، ترکیہ جیسے ملک میں یہ منظر عجیب تھا، لیکن لباس کے معاملے میں کسی کی ذاتی پسند یا ناپسند پر مجھے کوئی اعتراض نہیں، میں احترامًا و تقديراً پیچھے ہٹا اور کیبن بوائے کو اشارہ کیا کہ پہلے خاتون کی خدمت کرو اور پیچھے مڑ کر آرزو کی طرف دیکھنے لگا، بالآخر وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ پیڈل چلاتی وارد ہوئی، "ایش رک جاؤ، میں اب مزید سائیکل نہیں چلا سکتی، مجھے پیاس لگی ہے"۔
میں نے دو سو لیرا کا نوٹ کیبن بوائے کو تھمایا اور پانی کی دو بوتلیں وصول کرکے ایک آرزو کی سمت بڑھائی جو اس نے غٹاغٹ پی لی، کیبن بوائے نے 20 لیرا مجھے دیئے، میں اسے بتایا کہ 80 لیرے باقی ہیں، وہ اصرار کرے کہ 20 لیرے بقایا ہیں اور بار بار اشاروں سے اپنا خود ساختہ حساب بیان کرنے کے بعد 20 لیرے میرے حوالے کرے لیکن مجھے سمجھ نہ آئے کہ یہ کیسا حسابی فارمولا ہے، ایک عدد پانی کی بوتل 60 لیرے کے حساب سے دو بوتلوں کی قیمت 120 لیرے، تو یہ 180 لیرے کیوں کاٹ رہا، جب میں اسے یہ تفصیل بتائی تو اس کا پارہ ہائی ہوگیا اور اونچی آواز میں بولنے لگا۔
آوازوں کا ہائی والیم سن کر آرزو ہماری طرف بڑھی، مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور معاملہ پوچھے بغیر کسی زخمی شیرنی کی مانند تند و تیز جملوں سے کیبن بوائے پر حملہ کر دیا، واضح ہو کہ ٹرکش اور آذری زبانیں پنجابی کے ماجھی اور سرائیکی لہجوں والا فرق ہی ہیں، ان کے درمیان تکرار کی مجھے چنداں سمجھ نہ آ رہی تھی لیکن سچ بولوں تو مزہ بڑا آ رہا تھا، شروع میں کیبن بوائے نے مزاحمت کی لیکن آرزو کا پلڑا بھاری رہا، درمیان میں دونوں سانس لینے کیلئے رکے، کیبن بوائے نے ہاتھ سے بائیں طرف اشارہ کیا جہاں برقع پوش خاتون بیٹھی تھی لیکن وہ کب کی جا چکی تھی، برقع پوش کی غیر موجودگی سے اسے شاک نما حیرانی ہوئی، مدمقابل حریف کو سست پڑتا دیکھ کر آرزو نے تندور والی ماسی کے سٹائل میں جملے کسے، کیبن بوائے نے اپنے دونوں ہاتھ سر پر مارے اور اس ناگہانی آفت سے پیچھا چھڑانے کیلئے میرے ہاتھ سے 20 لیرے کا نوٹ جھپٹا، اپنے پرس سے 200 لیرے کا نوٹ نکال کر میرے حوالے کیا اور دونوں ہاتھ جوڑ کر ہمیں پرنام کیا کہ جاؤ اور جان چھوڑ دو۔
آرزو اتنی جلدی ہار ماننے والی کہاں تھی لیکن کہانی مجھے سمجھ آ چکی تھی کہ کیبن بوائے نے غلطی سے برقع پوش کو میرا ہمراہی سمجھ کر پانی کی بوتل دیدی تھی اور ہم سے 60 لیرا وصول کرنا چاہتا تھا، میں منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی چھپائی اور آرزو سے کہا کہ چلو چلتے ہیں، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی، میں اس کا بازو تھام کر چلانا چاہا لیکن وہ مڑ مڑ کر کیبن بوائے کو صلواتیں سناتی رہی، اس کی رائے میں کیبن بوائے ناانصافی کر رہا تھا جبکہ یہ سارا معاملہ محض غلط فہمی کا نتیجہ تھا، سیز فائر کی چاہ میں، میں نے ایک ہاتھ سے کیبن بوائے کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور دوسرا ہاتھ آرزو کے منہ پر رکھ کر بند کرنا چاہا، یہ حربہ کام کرگیا، آرزو واپس جانے کیلئے مڑی، میں نے اس کی آنکھ بچا کر کیبن کی بیرونی کھڑکی میں 200 لیرے کا نوٹ رکھا اور اپنی سائیکل سبنھال کر آرزو کے پیچھے ہولیا۔
سفرنامہ استنبول سے ایک کھٹا میٹھا اقتباس۔۔

