Balochistan Aur Aik Aur Nazuk Daur
بلوچستان اور ایک اور نازک دور

یہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار نہیں کہ بلوچستان ایک مقبول موضوع بن چکا ہے۔ چاہے وہ سیاستدان ہوں، ماہرینِ تعلیم، میڈیا پرسنز، تجزیہ کار، یا سیکیورٹی اداروں کے اہلکار، آج پاکستان میں تقریباً ہر سطح پر بلوچستان پر بات ہو رہی ہے۔ بدقسمتی سے، بجائے اس کے کہ اس پر بات کی جائے کہ بلوچستان کے اس مسلسل اور بظاہر نہ ختم ہونے والے "نازک دور" کو ختم کرنے کے لیے عملی طور پر کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں، اکثریت کی گفتگو صرف مسائل کے گرد گھومتی ہے اور ان اکثریت میں بھی کئی ایسے ہیں جو بلوچستان کے مسائل سے صحیح طور پر واقف نہیں۔
بلوچستان کے مسائل کی جب بھی بات کی جاتی ہے تو اکثر صوبے میں بدامنی کے اسباب کو صحیح طور پر نہیں سمجھتا جاتا۔ کچھ افراد تمام مسائل کا ذمہ دار سرداروں کو ٹھہراتے ہیں، جبکہ بعض کا ماننا ہے کہ مرکز نے بلوچوں کو ان کے قدرتی وسائل اور معدنیات میں ان کا جائز حصہ نہیں دیا۔ کچھ لوگ یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ بعض اداروں نے بلوچستان میں سیاسی عمل کو جڑ پکڑنے نہیں دیا اور کچھ کا کہنا ہے کہ بیرونی مداخلت کی وجہ سے بلوچستان کے حالات میں بہتری نہیں آتی۔ یہ تمام آراء مکمل طور پر غلط نہیں ہیں، ان میں کسی حد تک سچائی ضرور موجود ہے۔
تاہم، مستقبل کے لیے کوئی مؤثر اور حقیقی لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صوبے کے مسائل کو ماضی کی بغاوتوں اور جدوجہدوں کا موجودہ صورتحال سے موازنہ کرکے سمجھا جائے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے کہ آج کے بلوچستان کے مسائل میں سرداروں کی حیثیت دن بہ دن غیر متعلق ہوتی جا رہی ہے۔
بلوچستان 1948 سے اب تک کئی مسلح بغاوتوں کا سامنا کر چکا ہے، جن کی بنیاد سیاسی محرومی اور ناانصافیوں پر رکھی گئی۔ یپچھلی تمام بغاوتوں اور انسرجنسیز کی قیادت کسی نہ کسی سردار یا سرداروں نےکی۔ معروف مصنفین اور ماہرین، جیسے شیر محمد مری، سیلگ ہیرسن و دیگر کے مطابق پہلی بغاوت اس وقت سامنے آئی جب قلات کے آخری خان، میر احمد یار خان کے بھائی پرنس عبد الکریم نے بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کی مخالفت کی۔
دوسری بغاوت یا انسرجنسی 1955 میں ون یونٹ اسکیم کے نفاذ کے بعد سامنے آئی، جس کے خلاف خان آف قلات نے احتجاج کیا اور نواب نوروز خان نے 90 سال کی عمر میں مسلح مزاحمت کا آغاز کیا۔ تیسری بغاوت 1962 میں اس وقت شروع ہوئی جب صدر ایوب خان نے چند بلوچ رہنماؤں سے ان کے روایتی القابات جیسے سردار اور نواب واپس لے کر اپنے من پسند لوگوں کو ان القابات سےنوازا، جس سے مسلح ردعمل نے جنم لیا۔ تاہم، یہ تینوں بغاوتیں نسبتاً مختصر المدت ثابت ہوئیں۔
سب سے خونریز انسرجنسی 1973 میں اس وقت پھوٹی جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ ہیریسن کی کتاب کے مطابق، اس بغاوت میں ہزاروں فوجی اہلکار اور بلوچ باغی مارے گئے۔ اگرچہ 1977 سے 1999 کے درمیان صوبے میں نسبتا ًسکون رہا، مگر روایتی قبائلی رہنما جیسے نواب خیر بخش مری، نواب اکبر بگٹی اور سردار عطااللہ مینگل کی اہمیت برقرار رہی۔ جلاوطنی یا سیاسی دباؤ کے باوجود، یہ سردار بلوچ شناخت اور سیاست کے مرکزی کردار و بلوچ حقوق اور خود مختاری کے دفاع کی علامت رہے۔
جہاں تک بلوچستان میں جاری حالیہ شورش یا انسرجنسی کی بات ہے، یہ 2004 میں شروع ہوئی۔ اس بغاوت کی جڑیں سیاسی پسماندگی اور قدرتی وسائل کے کنٹرول پر دیرینہ شکایات میں تھیں۔ اس کے بعد سے یہ ملک کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک چلنے والی بغاوت بن گئی ہے۔
2005 میں ڈاکٹر شازیہ خالد کے ریپ کیس کے بعد اس بغاوت میں کشیدگی بڑھ گئی۔ اکبر بگٹی نے اس زیادتی کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حکومت سے چند مطالبات کیئے۔ اکبر بگٹی کے مطالبات کو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف (1999-2008) نے نظر انداز کر دیا، جس کے نتیجے میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں اور 2006 میں اکبربگٹی کی موت واقع ہوئی۔ اس واقعہ نے ایک بڑے پیمانے پر شورش کو جنم دیا، یہاں تک کہ مکران کے علاقے تک، ایک ایسا علاقہ جو پچھلی بغاوتوں میں شامل نہیں رہا، پہنچ گیا اور عسکریت پسند گروپوں میں بھرتی میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تاہم، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آج جاری شورش اور بلوچوں کے حقوق کے لیے جاری پرامن جدوجہد دونوں میں سرداروں نے بلوچوں پر اپنا تسلط کھو دیا ہے۔ بلوچوں نے تیزی سے اپنے قبائلی رہنماؤں سے خود کو دور کرنا شروع کر دیا ہے۔ آج سیاست میں داخل ہونے والے بہت سے بلوچ ایسے شخصیات کو مثالی بناتے ہیں جو طلبہ سیاست سے ابھرے، متوسط طبقے کے پس منظر سے آئے اور نچلی سطح پر سرگرمی کے ذریعے اپنے موجودہ سیاسی عہدوں پر پہنچے۔
اسی طرح جو لوگ بلوچ عسکریت پسند گروپوں میں شامل ہوئے ہیں یا شمولیت کے خواہشمند ہیں وہ بھی کسی سردار کے زیر اثر ایسا نہیں کررہے۔ اس کے بجائے، وہ مسلح تحریکوں کے مشترکہ خواہشات اور شکایات سے متاثر ہیں۔ نتیجے کے طور پر، اب بہت سے عسکریت پسند، سرداروں کے گھرانوں کی بجائے متوسط گھرانوں سے آتے ہیں۔
بلوچوں کے بنیادی حقوق کے لیے سرگرم کچھ کارکنوں کی بڑھتی ہوئی شہرت سے یہ بات مزید واضح ہوتی ہے کہ بلوچ اب سرکار اور سردار سے بیزاری کا اظہار کرنے لگے ہیں اور سرداروں سے کافی حد تک دستبردار ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض قوم پرست سیاست دانوں کے بلند و بالا سیاسی کیریئر بھی ایسی تحریکوں میں سے ایک کی حمایت کے اظہار سے قائم رہتے ہیں جس کی قیادت غیر سردار کرتے ہیں۔ یہ حکام کے ساتھ ساتھ بلوچوں کے لیے بھی وضاحت اور پیچیدگی دونوں لاتا ہے۔
تاریخی طور پر ریاست کے لیے چند قبائلی سرداروں سے بات چیت کرنا آسان ہوتا تھا، مگر آج کی شورش ایک غیر مرکزی شکل اختیار کر چکی ہے، جس میں متوسط طبقے کے بلوچ نوجوان قبائلی قیادت سے ہٹ کر خود مختار انداز میں سرگرم ہیں۔ اس تبدیلی نے تنازع کو قابو پانے کے لیے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، کیونکہ موجودہ عسکریت پسندوں کے ارادوں کو سمجھنا مشکل ہے اور ممکنہ طور پر انہیں بیرونی حمایت بھی حاصل ہے۔
سیاسی طور پر، بلوچ قبائلی قیادت سے تیزی سے مایوس ہو رہے ہیں، وہ ایسے نمائندوں کی تلاش میں ہیں جو نچلی سطح کی تحریکوں سے نکلیں اور ان کی خواہشات و شکایات کو سمجھیں اور انکی حقیقی نمائندگی کریں۔ جبکہ بلوچوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس اکثر حقیقی حمایت کی کمی ہوتی ہے، جبکہ بااثر آوازوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
قبائلی اختیار کا کمزور پڑنا ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ ایک نئی، تعلیم یافتہ بلوچ قیادت ابھرے۔ تاہم، سیاسی انجینئرنگ کا عمل مسلسل انتخابی نظام پر اعتماد کو نقصان پہنچا رہا ہے، جس سے بلوچستان کے لوگوں میں مایوسی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نئی بلوچ نسل، جو احتساب اور انصاف پر زور دیتی ہے، ایک زیادہ جمہوری اور شمولیتی سیاسی ثقافت کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔
یقین صرف دعووں یا سخت رویوں سے بحال نہیں ہوتا۔ بلوچ عوام کا اداروں پر اعتماد صرف زبانی وعدوں سے واپس نہیں آئے گا، خاص طور پر جب وہ برسوں سے وعدہ خلافیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ باتوں کو فوری، سنجیدہ اور عملی اقدامات کے ذریعےعمل میں بدلا جائے، کیونکہ بلوچستان کے لوگ مزید صبر کے متحمل نہیں رہے۔
آج بلوچستان واقعتاً ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے اور نازک دور سے گزر رہا ہے جہاں پرانے طریقے اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ سردار اب بلوچ قوم کی آواز کے واحد ترجمان نہیں رہے۔ ایک نئی، تعلیم یافتہ اور باشعور نسل سامنے آ چکی ہے جو ایک مختلف طرزِ سیاست کی خواہاں ہے، ایسی سیاست جو حقوق، انصاف اور احتساب پر مبنی ہو۔
اگر ریاست اب بھی انہی فرسودہ ڈھانچوں پر انحصار کرتی رہی، یا جمہوری عمل کے لیے گنجائش پیدا کرنے میں ناکام رہی، تو وہ اس نوجوان نسل کو کھو دے گی جو اب بھی امید رکھتی ہے، لہٰذا اس نازک دور سے نکلنے کے لیئے نوجوانوں کے لیئے سیاسی راہیں ہموار کی جائیں۔ جیسا کہ جان ایڈمز نے کہا تھا: "ریاست قانون کی بالادستی سے چلنی چاہیے، افراد کی مرضی سے نہیں"۔ بلوچستان بھی یہی چاہتا ہے۔

