Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Arslan Khalid/
  4. Waldain Ki Khidmat O Farman Bardari

Waldain Ki Khidmat O Farman Bardari

والدین کی خدمت و فرماں برداری

اسلام کو جو صفات مطلوب ہیں ان میں والدین کی اطاعت بھی شامل ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت ایسے کام ہیں۔ کہ اللہ رب العزت بھی اس سے خوش ہوتے ہیں اور یہی تزکیہ نفس ہے۔ آپ کتنے ہی بڑے آدمی بن جائیں والدین کے لئے آپ وہی ہیں جو کبھی چھوٹے ہوا کرتے تھے۔ آپ کی ہر ایک ادا سے والدین خوش ہوتے تھے۔ آپ کی والدہ نے آپ کو کس طرح پالا پوسا یہ وہ جانتی ہیں۔ وہ رات کو جاگ کر بچے کو دودھ پلاتی ہے۔ ذرا سا بیمار ہوئے وہ ساری رات کرب میں گزارتی ہے۔ اب تم بڑے ہوگئے ہو سکول کالج اور پھر جامعہ پہنچ گئے، ڈگری مل گئی پھر اعلیٰ عہدے پر فائزہوگئے اور اب والدین بیٹے پر فخر کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے حوالے سے کچھ آداب اور اصول بتادیے کہ جس طرح صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کی جائےگی۔ اسی طرح والدین کے ساتھ احسان کیاجائےگا۔ اگردونوں میں سے ایک یادونوں ہی بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہیں کہنا نہ ہی انہیں جھڑکنا ہے۔ ان کے ساتھ بڑی نرمی سے گفتگو کرنا ہے۔ والدین کے ساتھ محبت سے جھک کر ان کے لئے دعائیں کرناہیں کہ اے میر ے رب ان پر رحم کر جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم کیا اور میری تربیت کی ہے۔

ایک شخص نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیا ؛اللہ کے رسول ﷺ بتائیے میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں، اس نے پھر پوچھا:اس کے بعد تو ارشاد فرمایاتمہاری ماں تین دفعہ تمہاری ما ں کے بعد چوتھی مرتبہ ارشاد ہوا:فرمایا تیرا باپ۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بے شمار واقعات ہیں مگر ایک موثرواقعہ میرے سامنے ہیں۔ ایک بوڑھا باپ اپنے پچیس سالہ بیٹے کے ساتھ گھر میں بیٹھاباتیں کر رہا تھا کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی، نوجوان اٹھا دروازہ کھولا تو سامنے ایک اجنبی شخص نظر آیا۔ اس کے چہرے پر کر ختگی اور ناراضی کے آثا ر تھے، سلام نہ دعا وہ سیدھا اندر چلا آیا، نوجوان کے والد کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آرہے تھے۔ اس آدمی نے آتے ہی اس بوڑھے سے کر خت لہجے میں کہا:۔ میرا قرض واپس کرو، اگر تم نے فی الفور قرض واپس نہ کیا تو تمہارے لیے بہت بُرا ہو گا۔ نوجوان نے والدین کے پریشان چہرے کو دیکھاتو اسے بڑا دُکھ ہوا۔ اجنبی شخص اب بد تمیزی پر اُتر آیا تھا نوجوان نے تھوڑاساصبر کیا پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا وہ ا پنے والدین کی توہین برداشت نہ کرسکا۔ اس نے پوچھا بتاؤمیرے والد نے تمہار ا کتنا قرض ادا کرنا ہے اس نے کہا تمہارے والد نے میرے سات ہزار ریال دینے ہیں۔ نوجوان کہنے لگا:اب تم نے میرے والدکو نہیں کہنا بس یہ قرض اب میرے ذمے رہابیٹا کمرے میں گیا وہ کافی عرصے سے اپنی شادی کے لئے رقم جمع کر رہا تھا۔ اس کی ہونے والی دلہن اس کا انتظار کر رہی تھی، بڑی مشکل سے اس نے ستائیس ہزار ریال جمع کیے تھے، نوجوان نے کہا والد کی توہین برداشت نہیں کر سکتا شادی پھر بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے سوچا اور ستائیں ہزار ریال لا کر اس شخص کی جھولی میں ڈال دیے، فی الحال یہ ستائیں ہزارریال پکڑو، باقی رقم جلد واپس ہو جائی گی۔

اس دوران نوجوان کا والد رونے لگا یہ خوشی کے آنسو تھے میرا بیٹااتنا فرماں بردار ہے باپ قرض خواہ سے کہنے لگایہ ستائیں ہزار میرے بیٹے کو واپس کر دو اس نے بڑی محنت سے رقم جمع کی اس کا میرے قرض سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اب نوجوان نے اس بات کو تسلیم کرنے سے منع کر دیا اور اپنے والد کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہنے لگا:بابا آپ کی عزت آبرو مرتبہ مقام اس رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ فکر نہ کریں ہرچیز کا وقت مقر ر ہے میں بہت جلد اس کا قرض واپس کردوں گا۔ بوڑھے نے فرط مسرت سے اپنے فرماں بردار بیٹے کو گلے لگایا اور روتے ہوئے دعائیں دینے لگا، میرے اللہ تم سے راضی ہوجائے تمیں عزت، رفعت اور کامیباں عطافرمائیں، اس نے اپنے ہاتھ آسمانوں کی طرف اٹھا دیے اور رو رو کر اللہ کے حضور اپنے بیٹے کے لئے بہت ساری دعائیں کیں، بیٹا بڑا ہی متقی، پرہیزگار اور فرماں بردار تھا، اللہ رب العزت کا وعدہ ہے کہ وہ متقی انسان کو بہترین بدلہ عطافرماتے اور وہاں سے رزق عطا فرماتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا، ایک یا دو دن کی بات ہے کہ نوجوان اپنی ملازمت پر گیا وہ اپنے کام میں مشغول تھا کہ اس کا ایک پرانا دوست ملنے کے لئے آگیا۔ سلام دعاکے بعد اس کا دوست کہنے لگا: میں کل شہر کے بڑے تاجر کے پاس بیٹھا ہواتھا۔ اس کے پاس ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے اس بڑے منصوبے کے لیے اسے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو نیک اور ایمان دار ہو اعلیٰ اخلاق والا اللہ کو خوف رکھنے والا ہو اور اس کے ساتھ اس کا م کو بھی خوب سمجھتاہو، اس نے مجھ سے کہا مجھے اس منصوبے کے لئے مذکورہ صفات کا حامل شخص درکار ہے میرے ذہین میں فوراًتمہارا خیال آگیا، میں تمہیں ایک مدت سے جانتا ہوں ِمیں نے اس تاجر کے سامنے تمہارا ذکر کیا اور کہاتمہارے اندر یہ ساری صفات موجود ہیں تو اس نے کہا ہے کہ میری اس سے ملاقات کروائیں۔ لہذا تمہیں لینے آیا ہوں تاکہ تم اس تاجر سے ملاقات کر لو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے رزق کثیر کے دروازے کھول دے۔

نوجوان کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا اور کہنے لگا کل میرے والد نے میرے لیے ڈھیروں دعائیں کی تھی لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشاہے۔ حدیث رسول ﷺ ہے بات کی دعا اپنی اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے۔ اس کے بعد دونوں دوست اس تاجر کے دفترجاپہنچے۔ تاجر نے اس نوجوان کا انٹرویو لیا اس نے دیکھا کہ یہ نوجوان اس منصب کے لئے مناسب ترین ہے اس کی تعلیم اور تجربہ بھی کام کے عین مطابق ہے اور وہ اس نوجوان سے ملاقات کر کے مطمئن ہوا ہے۔ اس نے پوچھا تمہاری اس وقت تنخواہ کتنی ہے؟ نوجوان نے سچ بتا دیا کہ میری حالیہ تنخواہ اتنے ریال ہے ؛وہ تاجر کہنے لگا تم کل سے ابتدا کر سکتے ہو تمہاری تنخواہ پندرہ ہزار ریال مقر ر کی جاتی ہے اس کے علاوہ تمہیں سیل پر کمیشن بھی ملے گا جو حسن کارگردگی کی بنا پر دس فیصد تک جاسکتا ہے مکان کا کرایہ نئے ماڈل کی گاڑی اور چھے ماہ کی پیشگی تنخواہ بھی تمہیں مل جائے گی تاکہ تم اپنے گھر یلوحالات درست کر سکو، بولوکیا تمہیں منظو ر ہے۔ اس نوجوان نے ساری پیش کش سنی تو بے اختیار رونے لگا اور بار بار کہنے لگا؛اے میرے والد گرامی آپ کو مبارک ہو۔ تاجراسے دیکھ رہا تھا اس نے سوال کیا کہ تمہارے رونے کی وجہ کیا ہے تب نوجوان نے دو دن پہلے ہونے والاسارا واقعہ بیان کیا کہ میرا والد مقروض تھا قرض خواہ والد کو تنگ کررہا تھا کس طرح اس نے ستائیس ہزار ریال قرض واپس کیا اور بقیہ کاوعدہ کیا تاجر اس نوجوان کے اپنے والد کے ساتھ محبت ایثار اور قربانی سے اتنا متاثر ہوا اور خوش ہوا کہ کہنے لگا کہ تم نے ستائیس ہزار ریال اپنے والد کے قرض کے طور پر ادا کیے ہیں اب باقی قرض میں ادا کروں گا بہ ظاہر تو یہ واقعہ بڑا محیرا لعقل ہے مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بھی چیز کی کمی نہیں۔ اس لئے کہ نیکوکارفرماں بردار بندوں کے لئے ایسی جگہ سے رزق عطافرماتا ہے کہ جہاں سے انسان کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔

صحابہ اکرام ؓآپ ﷺکی خدمت میں حاضرہوتے ہیں۔ نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں اللہ کے رسولﷺ غزوہ میں شرکت کا ارادہ رکھتا ہوں، آپﷺ کی خدمت میں مشورہ کے لیے حاضر ہوا ہوں، اللہ کے رسولﷺنے دریافت فرمایا کیا تمہاری ماں زندہ ہے، عرض کرتے ہیں ہاں وہ زندہ ہیں، آپ ﷺ ارشاد فرمایا:جاؤ اپنی کی خدمت کرو کہ جنت اس کے قدموں تلے ہیں۔ والدین کی خدمت اور دعائیں انسان کے لئے مصائب و مشکلات سے نجات کا باعث بنتی ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم خوش نصیب ہے کہ ہمارے والدین کا سایہ ہمارے سر وں پر موجود ہ ہیں اپنے والدین کی خدمت ان کے اس دنیا میں ہوتے ہوئے جتنی کر سکتے ہیں کریں اور ان کی دعائیں لیں تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی ہو سکیں۔ آمین

Check Also

9 May Ki Maafi Nahi

By Saira Kanwal