Muharram Ul Haram, Hayat e Insaniyat Ka Khoon Se Likha Hua Baab
محرم الحرام، حیاتِ انسانیت کا خون سے لکھا ہوا باب

جب قمری کیلنڈر کا پہلا مہینہ یعنی محرم الحرام آتا ہے تو کائنات کی فضا میں ایک گہری سنجیدگی، ایک خاموشی، ایک روحانی ارتعاش محسوس ہوتا ہے۔ یہ صرف ایک اسلامی مہینے کی آمد نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے سب سے عظیم، سب سے المناک اور سب سے بامقصد واقعے کی یاد دہانی ہے، کربلا۔ ایسا واقعہ جس نے تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا: ایک طرف وہ لوگ جو اقتدار کی خاطر دین کا سودا کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ جو دین کی خاطر سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔ یہ کالم انہی جذبات، اسی تاریخ اور اسی روشنی کو سامنے لانے کی ایک سادہ، پُرعقیدت اور خالص کاوش ہے۔
محرم کے لغوی معنی "حرام کیے گئے" کے ہیں۔ یعنی یہ وہ مہینہ ہے جس میں جنگ کو حرام قرار دیا گیا، یہ وہ مہینہ ہے جس میں امن اور احترام کا پیغام موجود تھا۔ لیکن افسوس کہ اسی مہینے میں نواسۂ رسولﷺ کو ان کے اہلِ بیت سمیت ظلم، تشدد، پیاس اور بے کسی کی انتہا تک پہنچایا گیا۔ محرم کو غم کا مہینہ کہا جاتا ہے، لیکن یہ غم صرف رونے، ماتم کرنے یا سوگ منانے کا غم نہیں، بلکہ ایک بیداری کا پیغام ہے۔ یہ وہ غم ہے جو ہمیں جینے کا طریقہ سکھاتا ہے۔
یہ غم ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم ہر حال میں سچائی، اصول اور عزت کی راہ پر چلیں، چاہے دنیا ہمارے خلاف ہو جائے۔ یہ غم ہمیں بتاتا ہے کہ مظلومیت میں بھی عظمت ہو سکتی ہے اور قربانی میں بھی کامیابی۔
کربلا کا واقعہ ایک عظیم المناک سانحہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فکری انقلاب کا سرچشمہ بھی ہے۔ یہ واقعہ محض ایک جنگ نہیں، بلکہ باطل کے مقابل حق کی وہ عملی تصویر ہے جس میں نواسۂ رسولﷺ نے اپنے خاندان، اپنے رفقاء، حتیٰ کہ اپنے چھ ماہ کے بیٹے تک کو راہِ حق میں قربان کر دیا، لیکن یزید جیسے جابر حکمران کے آگے سر نہ جھکایا۔
کربلا میں امام حسینؑ کا قیام کوئی سیاسی بغاوت نہیں بلکہ ایک اصولی اور دینی فریضہ تھا۔ وہ چاہتے تو مصلحت اختیار کرکے اپنی جان بچا سکتے تھے، وہ چاہتے تو دنیاوی امن حاصل کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے دینِ مصطفیٰﷺ کی اصل روح بچانے کے لیے اپنے آپ کو فنا کر دیا۔
امام حسینؑ کی شخصیت میں جو صفات تھیں، وہ انسانی عظمت کی آخری حد ہیں۔ ان کے اندر محبت، حکمت، شجاعت، صبر، بردباری، عبادت اور عدل کا ایک ایسا امتزاج تھا جسے فقط رسول اللہﷺ کے تربیت یافتہ شخص ہی اپنے وجود میں سمو سکتا ہے۔ کربلا میں امام حسینؑ نے ہمیں بتایا کہ حق پر قائم رہنے کے لیے صرف الفاظ کافی نہیں، بلکہ اپنے عمل، اپنی زندگی، حتیٰ کہ اپنے اہل و عیال کی قربانی دینا بھی ضروری ہو سکتا ہے۔
امام حسینؑ نے کربلا میں نہ صرف یزید کی بیعت سے انکار کیا بلکہ وہ پوری سوچ، پورے نظام اور پورے طرزِ حکومت کو رد کیا جو دین کو محض طاقت کا ذریعہ بنانا چاہتا تھا۔
کربلا کے میدان میں صرف امام حسینؑ نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کے بھائی حضرت عباسؑ، ان کے بیٹے حضرت علی اکبرؑ، ان کے بھتیجے حضرت قاسمؑ، ان کے ساتھی، حتیٰ کہ خواتین اور بچے بھی تھے۔ ہر فرد نے جس عزم، صبر اور ایمان سے مصیبتوں کا سامنا کیا، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے۔
حضرت عباسؑ کی وفا، حضرت علی اکبرؑ کی قربانی، حضرت قاسمؑ کا جذبہ شہادت اور حضرت علی اصغرؑ کی بےمثال قربانی، یہ سب واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ دین صرف مولویوں یا علما کا فرض نہیں، بلکہ ہر مسلمان، چاہے وہ بچہ ہو یا بوڑھا، مرد ہو یا عورت، اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ جب دین خطرے میں ہو، تو وہ اس کے تحفظ کے لیے کھڑا ہو۔
اگر کربلا کو امام حسینؑ کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جا سکتا، تو اس کی تشریح حضرت زینبؑ کے بغیر ممکن نہیں۔ کربلا کے بعد جب سب مرد شہید ہو گئے، تو خواتین اور بچوں کی قیادت حضرت زینبؑ نے کی۔ کوفہ سے لے کر شام تک یزیدی درباروں میں ان کا استقامت بھرا لہجہ، ان کا خطبہ، ان کی نظر کی جرأت، یہ سب کربلا کے پیغام کو آگے بڑھاتے ہیں۔
حضرت زینبؑ نے جس انداز میں دینِ اسلام کے حقیقی چہرے کو دنیا کے سامنے رکھا، وہ بتاتا ہے کہ ایک باپردہ، باحیا عورت بھی وقت کے فرعونوں کے خلاف آواز بلند کر سکتی ہے، بشرطیکہ اس کے پاس ایمان کی طاقت ہو۔
کربلا کا واقعہ صرف 680ء میں ختم نہیں ہوا، بلکہ یہ ہر دور میں زندہ ہے۔ ہر وہ لمحہ جب ایک ظالم حاکم کسی مظلوم پر ظلم کرتا ہے، ہر وہ دن جب سچ کو جھوٹ سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، ہر وہ لمحہ جب اقتدار کی خاطر دین کا سودا کیا جاتا ہے، وہاں حسینؑ کی آواز گونجتی ہے اور کربلا کا پیغام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر تم حق پر ہو تو تنہا بھی ہو، تب بھی سر نہ جھکاؤ۔
کربلا ہمیں سکھاتی ہے کہ حق کی راہ ہمیشہ کانٹوں سے بھری ہوتی ہے، مگر یہی وہ راہ ہے جو جنت کا راستہ ہے۔
محرم کے ایام میں مسلمانانِ عالم عزاداری کرتے ہیں۔ سیاہ لباس پہنتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، مرثیے اور نوحے پڑھتے ہیں۔ یہ سب ہمارے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں، لیکن اصل مقصد صرف رونا نہیں بلکہ اس غم کو بیداری میں بدلنا ہے۔
اگر ہم واقعی امام حسینؑ کے پیروکار ہیں تو ہمیں اپنے اندر ان صفات کو اپنانا ہوگا جو انہوں نے کربلا میں پیش کیں، صداقت، استقامت، توکل، عدل، عفو اور وفا۔ عزاداری ہمیں جھنجھوڑے، جگائے اور عمل کی طرف راغب کرے، یہی اس کی اصل روح ہے۔
محرم اور کربلا کا ذکر صرف کسی مخصوص مسلک یا فرقے کی بات نہیں، بلکہ یہ امتِ مسلمہ کی اجتماعی میراث ہے۔ امام حسینؑ کا کردار صرف شیعہ یا سنی کا نہیں، بلکہ ہر اُس شخص کا ہے جو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ محرم کے مہینے کو فرقہ واریت کے بجائے اتحاد کا ذریعہ بنائیں، ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام کریں اور ایک مشترکہ پیغام دنیا کو دیں کہ ہم حسینؑ کے ساتھ ہیں۔
کربلا ہمیں سکھاتی ہے کہ جب حق اور باطل کا معرکہ ہو، تو زبان، نسل، یا مسلک کی تفریق ختم ہو جانی چاہیے اور ہر حق پرست انسان کو ایک صف میں کھڑے ہو جانا چاہیے۔
آج کے دور میں جہاں ہر طرف ظلم، ناانصافی اور خود غرضی کا راج ہے، محرم ہمیں ایک نیا جذبہ دیتا ہے۔ وہ جذبہ جو ہمیں اپنے نفس کے خلاف جنگ سکھاتا ہے۔ ہم اگر امام حسینؑ کے پیروکار ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالیں جو انہوں نے اپنے خون سے ہمیں دی۔
ہمیں جھوٹ، کرپشن، لالچ، خودغرضی اور مصلحت پرستی کے خلاف آواز بلند کرنی ہے۔ ہمیں سماج میں عدل، محبت، بھائی چارہ اور قربانی کا کلچر پیدا کرنا ہے۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم محرم کے اصل پیغام کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔
امام حسینؑ کسی ایک قوم، ایک نسل، یا ایک عقیدے کے نہیں، وہ پوری انسانیت کے ہیں۔ ان کی قربانی رنگ، زبان، نسل، یا مذہب سے بالاتر ہے۔ ان کا پیغام ہر مظلوم کے دل کی دھڑکن ہے اور ہر ظالم کے ضمیر کی خلش۔
آج اگر ہم واقعی محرم کی عظمت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کربلا کو صرف پڑھنا نہیں، جینا ہوگا۔ ہمیں حسینؑ کی سیرت کو اپنانا ہوگا اور دنیا کو بتانا ہوگا کہ ہم صرف ماتم کرنے والے نہیں، ہم وہ ہیں جو اپنے وقت کے یزیدوں کو پہچانتے بھی ہیں اور ان کے خلاف کھڑے بھی ہوتے ہیں۔
دعا:
یا اللہ! ہمیں امام حسینؑ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں ان کی صداقت، استقامت اور قربانی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والا بنا دے اور ہمیں ایسا مسلمان بنا دے کہ دنیا ہمیں دیکھ کر کہے: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حسینؑ کو صرف یاد نہیں رکھا، بلکہ ان کی راہ پر بھی چلے۔

