Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Khalid
  4. Muashi Behisi, Zinda Jism, Murda Rooh

Muashi Behisi, Zinda Jism, Murda Rooh

معاشی بے حسی، زندہ جسم، مردہ روح

کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے ہم سب زندہ تو ہیں، مگر ہمارے اندر وہ روح مر چکی ہے جو دوسرے کے دکھ پر تڑپتی تھی، جو بھوکے کی صدا پر کانپ اٹھتی تھی، جو کسی یتیم بچے کو ننگے پاؤں دیکھ کر رات بھر سو نہ پاتی تھی۔ ہم ترقی کر گئے، مگر احساس کو پیچھے چھوڑ آئے۔ ہم نے شہروں کو وسعت دی، سڑکوں کو روشن کیا، بلند و بالا عمارتیں کھڑی کیں، لیکن اپنی آنکھوں کو بند کر لیا، دلوں کو اندھا کر لیا۔ ہم نے معاشی ترقی کے خواب تو دیکھے، لیکن ان خوابوں میں ان لاکھوں لوگوں کی بھوک، بے روزگاری اور ذلت کا کوئی عکس نہیں تھا جو ہر روز زندگی کی دہلیز پر سوال بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں "معاشی بے حسی" ایک ایسا ناسور بن چکی ہے جو آہستہ آہستہ ہمارے سماجی جسم کو چاٹ رہا ہے۔ وہ شخص جو دن رات مزدوری کرتا ہے، شام کو اس کے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی اور وہ دوسرا شخص جس کے کتے بھی برانڈڈ خوراک کھاتے ہیں، دونوں ایک ہی شہر میں رہتے ہیں، ایک ہی بازار سے گزرتے ہیں، مگر دونوں کی دنیا الگ ہے۔ ایک کے لیے دنیا رنگین، آسودہ اور مہکتی ہے، دوسرے کے لیے سیاہ، تنگ اور بھیانک۔

ہماری سڑکوں پر بھیک مانگتے بچے، ٹریفک سگنل پر شیشے صاف کرتے چھوٹے ہاتھ، کچرے میں روٹی ڈھونڈتے بزرگ، یہ سب ہم روز دیکھتے ہیں۔ لیکن ہمیں ان کا دکھ محسوس نہیں ہوتا، کیونکہ ہماری روح مر چکی ہے۔ ہم نے دلوں کو اتنا سخت کر لیا ہے کہ اب کسی کا ننگا پاؤں، کسی کی پیوند لگی قمیض، کسی کی خالی آنکھیں، ہمیں متاثر نہیں کرتیں۔ ہم صرف اپنی فکر کرتے ہیں، اپنے مفاد کو دیکھتے ہیں، اپنی سہولت کو ترجیح دیتے ہیں۔

ہماری عبادات بھی، ہماری نیکیاں بھی ایک خاص دائرے میں قید ہو چکی ہیں۔ رمضان آتا ہے تو ہم چندہ دیتے ہیں، قربانی کے دنوں میں گوشت تقسیم کرتے ہیں، مگر سال بھر کسی کے بھوکے پیٹ کی خبر نہیں لیتے۔ ہم نے انسانیت کو رسمی عبادات میں قید کر دیا ہے۔ حالانکہ اگر ہمارے دل زندہ ہوتے، تو ہمیں یہ سمجھ آتا کہ عبادت صرف اللہ کے آگے جھکنے کا نام نہیں، بلکہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ رحم و انصاف کا سلوک بھی عبادت کا حصہ ہے۔

یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف تو شادیوں میں لاکھوں روپے کا کھانا ضائع ہو رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف چند قدم دور کوئی بچہ گلی کے نالے کے پاس روٹی کا ٹکڑا تلاش کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن ہم ان مناظر سے نظریں چرا لیتے ہیں۔ شاید ہمیں خوف آتا ہے کہ اگر ہم نے آنکھوں سے دیکھا، تو دل پر بوجھ پڑے گا۔ لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے کہ یہ بوجھ اُٹھانا ہی انسان ہونے کی دلیل ہے۔

معاشی بے حسی صرف مالدار طبقے تک محدود نہیں، بلکہ یہ بیماری متوسط طبقے میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ ہم اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ موبائل فون، کپڑوں، یا برانڈڈ اشیاء پر لگا دیتے ہیں، مگر کبھی نہیں سوچتے کہ آس پاس کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے جو دوا کے لیے ترس رہا ہو، یا بچوں کی فیس ادا نہ کر پا رہا ہو۔ یہ سوچنا کہ "میرے پاس جو کچھ ہے، وہ میری محنت کا پھل ہے"، ایک حد تک درست سہی، مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر کسی کو برابر مواقع میسر نہیں ہوتے۔ جس معاشرے میں انصاف کا نظام کمزور ہو، سفارش کا راج ہو اور تعلیم و صحت مہنگی ہو، وہاں محض محنت سب کچھ نہیں دلا سکتی۔

ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں انسانیت کا جنازہ روز نکلتا ہے، لیکن اس پر کوئی آنکھ اشکبار نہیں ہوتی۔ ہمارے دل پتھر ہو چکے ہیں اور اس پتھر کو صرف تب ہی توڑا جا سکتا ہے جب ہم خود اپنے اندر جھانکیں۔ جب ہم یہ سوال کریں کہ ہم نے اپنی آسائشوں کے لیے کتنوں کا حق مارا؟ ہم نے کتنی بار دل سے کسی کی مدد کی؟ ہم نے کتنی بار کسی کو عزت سے جینے کا حق دیا؟

ہم نے دنیا میں رہنے کے لیے ایک نیا نظریہ اپنایا ہے: "جب تک مجھے تکلیف نہیں، مجھے پروا نہیں"۔ یہ نظریہ صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر ہماری رگوں میں خون کی مانند دوڑ رہا ہے۔ ایک بازار کے باہر ایک بچہ مٹی میں لیٹا ہے، اس کے ہونٹ خشک ہیں، آنکھیں دھندلی، مگر ہمارے ہاتھ میں موبائل ہے، ہم اسٹوری بنا رہے ہیں، ٹِک ٹاک ویڈیو میں مصروف ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جب انسانیت ہماری انگلیوں سے پھسل جاتی ہے اور ہم خوشی خوشی سوشل میڈیا پر لائکس کی گنتی کرتے ہیں۔

معاشی بے حسی صرف ایک طبقے کا رویہ نہیں، بلکہ ایک قومی مزاج بن چکا ہے۔ سیاستدان عوام کی بھوک پر تقریریں کرتے ہیں، مگر ان کی میزوں پر کھانے کے ضیاع کے مناظر دل دکھا دیتے ہیں۔ میڈیا درد دکھاتا ہے، مگر اشتہارات کا کاروبار ہی درد کی اصل آواز کو دبا دیتا ہے۔ مذہبی خطیب "زکوٰۃ" اور "صدقات" کی تلقین کرتے ہیں، لیکن مسجد کے باہر کھڑے سفید ریش بابا کو کوئی نہیں دیکھتا جو صرف دو وقت کی روٹی کی دعا مانگتا ہے۔

ہم نے دین کو عبادات تک محدود کر دیا ہے، حالانکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "کیا تم نے اُس کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتا"۔ (الماعون: 1-3)

اسلام تو وہ دین ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے"۔ (صحیح بخاری)

کیا ہم واقعی اپنے معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے وہ چاہتے ہیں جو ہم اپنے لیے چاہتے ہیں؟ نہیں! ہم انہیں نظر انداز کرتے ہیں، انہیں پسماندہ سمجھتے ہیں، ان پر رحم کرنا بھی کبھی کبھار "احسان" سمجھتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ ہمارا سارا نظام احساس کے بغیر چل رہا ہے۔ ایک مزدور دن بھر کا پسینہ بہا کر جو کمایا، وہ دوائی، راشن اور کرایے میں چلا گیا۔ دوسری طرف ایک سرمایہ دار، غیر ضروری چیزوں پر لاکھوں لٹا دیتا ہے اور اس میں فخر محسوس کرتا ہے۔ یہ فاصلہ صرف معاشی نہیں، اخلاقی بھی ہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے اپنی زندگیاں اتنی خود غرضی سے بھر لی ہیں کہ اب ہمیں دوسروں کی بھوک سے بدبو نہیں آتی، دوسروں کی چیخوں سے شور نہیں ہوتا اور دوسروں کی پریشانی سے کوئی خلش محسوس نہیں ہوتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے کسی کو سو روپے دے دیے تو ہم نے فلاح کر لی۔ حالانکہ اصل فلاح تو تب ہے جب ہم دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھ کر ان کے حالات بدلنے کی کوشش کریں، خاموشی سے، عزت کے ساتھ اور مستقل مزاجی سے۔

کیا ہم بدل سکتے ہیں؟ ہاں! مگر کیسے؟ اس سوال کا جواب ہمارے اندر ہے۔ کسی سے امید لگانے کے بجائے خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں دوسروں کے حالات کا ادراک پیدا کرنا ہوگا۔ اگر ہم روزانہ صرف ایک بار کسی ایسے شخص سے بات کریں جو ہم سے کمزور ہے، تو ہمیں احساس ہوگا کہ یہ دنیا صرف ہمارے آسائشوں کا مرکز نہیں۔

اپنی ذات سے خیر کا آغاز کریں۔ کسی بچے کی تعلیم کی ذمہ داری لینا، کسی بیوہ کو راشن دینا، یا کسی بیمار کے علاج میں حصہ ڈالنا، یہ سب ایسے کام ہیں جو کسی حکومت کے محتاج نہیں، صرف ہمارے دل کے محتاج ہیں۔

معاشی انصاف کا تقاضا کریں۔ اپنے حلقے کے نمائندوں سے، مقامی اداروں سے سوال کریں کہ عوامی سہولیات کہاں ہیں؟ کیوں ہمارے اسکول، اسپتال اور سرکاری دفاتر غریبوں کے لیے جہنم بن چکے ہیں؟

ثقافت کو تبدیل کریں۔ تقریبات، دعوتوں، شادیوں میں نمود و نمائش کا کلچر چھوڑیں۔ اسراف سے اجتناب کریں اور دوسروں کو بھی سمجھائیں۔

اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ وہ دوسروں کے دکھ سے متاثر ہوں۔ ان کے دل میں درد پیدا کریں، نہ کہ صرف مقابلہ بازی اور کامیابی کا جنون۔

اگر ہم انفرادی سطح پر صرف ایک چھوٹا قدم بھی اٹھائیں، تو معاشرہ بدل سکتا ہے۔ مگر شرط صرف ایک ہے: ہمیں دوبارہ انسان بننا ہوگا۔

معاشی بے حسی ایک زہر ہے جو نہ صرف دوسروں کو مارتا ہے، بلکہ ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش نہ کیا، تو آنے والا وقت ہمیں ایسے سماج میں بدل دے گا جہاں احساس صرف کتابوں میں ہوگا اور انسان صرف خود کے لیے زندہ ہوگا۔

آئیے آج سے عہد کریں کہ ہم خاموش تماشائی نہیں بنیں گے، بلکہ اس بے حسی کے خلاف اپنی سوچ، عمل اور قلم کے ذریعے آواز بلند کریں گے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail