Muashi Behisi, Khamosh Tabahi Ka Aghaz
معاشی بے حسی، خاموش تباہی کا آغاز

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں معاشی نظام کی بگڑتی ہوئی حالت اور معاشرتی ناہمواری ایک ایسا المیہ ہے جو روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ہم ایک ایسے وقت میں زندہ ہیں جہاں اشرافیہ اپنی دولت، طاقت اور تعلقات کے بل پر دن بدن خوشحال تر ہوتی جا رہی ہے، جبکہ عوام کی ایک بڑی اکثریت بنیادی ضروریات سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے لوگ لاکھوں روپے کی مہنگی گاڑیاں، برانڈڈ کپڑے، درآمد شدہ خوراک اور بیرونِ ملک سیروتفریح کو معمولی سمجھتے ہیں، تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی، صاف پانی، یا بنیادی تعلیم بھی ایک خواب بن چکی ہے۔
یہ فرق صرف معاشی نہیں، بلکہ انسانی وقار، عزتِ نفس اور بقا کا فرق ہے۔ جب کوئی غریب اپنی بیمار ماں کو دوا نہ دلوا سکے، اپنے بچے کو اسکول نہ بھیج سکے، یا گھر کا کرایہ نہ دے سکے تو یہ صرف ایک مالی مسئلہ نہیں رہتا بلکہ وہ انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہے اور جب معاشرے میں کروڑوں لوگ ٹوٹتے جائیں، تو وہ معاشرہ خود بھی ایک دن بکھر جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس بکھرنے کے عمل کو روکا نہیں جا رہا بلکہ غفلت، خودغرضی اور ریاستی ترجیحات کی بدولت تیز تر کیا جا رہا ہے۔ معاشی عدم مساوات اس وقت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ غریب اپنے حق کے لیے سوال کرنے سے بھی ڈرتا ہے، جبکہ امیر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کروا لیتا ہے۔
مزدور، کسان، ریڑھی بان، رکشہ ڈرائیور، استاد، نرس اور عام شہری ہر روز اس نظام کی ناانصافی کا شکار ہو رہے ہیں، مگر ان کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے انہیں "صبر کرو"، "برداشت کرو" اور "دعائیں کرو" کے مشورے دیے جاتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جہاں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہو اور دوسری طرف چند ہزار خاندان ملکی معیشت کا بڑا حصہ کنٹرول کر رہے ہوں، وہاں معاشی عدم مساوات ایک جرم ہے اور اس جرم کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہم اس بے حسی کے ساتھ زندہ رہیں گے؟ کب ہم یہ تسلیم کریں گے کہ روٹی صرف ایک غریب کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پوری قوم کی بقاء کا سوال ہے؟ کب ہم یہ جانیں گے کہ دولت کا ارتکاز صرف سرمایہ دار کی کامیابی نہیں بلکہ ایک سسٹم کی ناکامی ہے؟ اگر ہم نے اس عدم توازن کو سنجیدگی سے نہ لیا تو وہ دن دور نہیں جب یہ عدم مساوات ایک بڑے انتشار میں بدل جائے گا اور پھر ہمیں سنبھلنے کا موقع شاید نہ ملے۔
ریاست کا بنیادی فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو تحفظ، انصاف، تعلیم، صحت، روزگار اور ایک باوقار زندگی فراہم کرے، مگر جب ریاست ان ذمہ داریوں سے صرفِ نظر کرتی ہے تو صرف نظام ہی نہیں بکھرتا، بلکہ عوام میں بھی بے چینی، مایوسی اور اضطراب جنم لیتا ہے۔ پاکستان میں معاشی بے حسی کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ حکمران طبقہ عوام کی مشکلات کو سننے، سمجھنے اور حل کرنے کے بجائے ان سے منہ موڑ لیتا ہے۔ بجٹ میں اربوں روپے کی سبسڈیز ان شعبوں کو دی جاتی ہیں جہاں پہلے ہی دولت کی فراوانی ہے، جبکہ غریب کے حصے میں صرف وعدے، تقریریں اور وقتی اعلانات آتے ہیں۔ اگر صحت کا نظام دیکھیں تو ایک غریب مریض سرکاری اسپتال کے باہر دم توڑ دیتا ہے اور امیر طبقہ بیرونِ ملک علاج کرانے چلا جاتا ہے۔
تعلیم کا حال یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں میں استاد، کتابیں اور سہولیات ناپید ہیں، جبکہ پرائیویٹ اسکولز مڈل کلاس کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔ روزگار کے مواقع محدود، مہنگائی بے قابو اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بے روزگاری کی دلدل میں دھنس چکی ہے۔ ان سب کے باوجود ہمارے پالیسی ساز عیش و عشرت میں مصروف ہیں۔ مسئلہ صرف غفلت کا نہیں بلکہ نیت کی خرابی کا بھی ہے۔ جب ترقی کے منصوبے صرف اشرافیہ کے فائدے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور جب معاشی فیصلے کسی مشاورتی عمل کے بغیر عوام پر تھوپے جاتے ہیں، تو وہی نظام جنم لیتا ہے جو آج ہمیں درپیش ہے۔
معاشی ادارے جیسے کہ بینک، سرمایہ کاری بورڈ اور مالیاتی کمیشن جب صرف مافیا کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، تو عام شہری کو نظام سے نفرت ہونا لازمی ہے۔ غریب کو قرض نہیں ملتا اور اگر مل بھی جائے تو اس پر سود کا بوجھ اسے مزید نیچا گرا دیتا ہے۔ دوسری طرف بااثر افراد اربوں روپے کے قرض لے کر معاف کروا لیتے ہیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کیا یہی ریاستِ مدینہ کا تصور ہے؟
عوام جب دیکھتے ہیں کہ ان کی فلاح کے نام پر اربوں روپے کے منصوبے لانچ ہوتے ہیں مگر ان کا فائدہ صرف چند فیصد لوگوں کو پہنچتا ہے، تو ان کے دلوں میں بے حسی کے خلاف نفرت ابھرتی ہے، جو ایک دن غصے میں بدل سکتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب قومیں انقلاب کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں اور اگر ریاست نے ہوش نہ کیا تو وہ دہلیز تباہی کی سرحد بھی بن سکتی ہے۔
ہم یہ سمجھنے میں ناکام ہو گئے ہیں کہ کسی غریب کی مدد صرف خیرات دے کر نہیں بلکہ اس کے درد کو محسوس کرکے کی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنے سماجی رویے کو اتنا بے حس بنا لیا ہے کہ ہمیں کسی کی مجبوری، فاقہ، بیماری یا بے بسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم فیس بک پر تصاویر اپلوڈ کرتے ہیں، مہنگے ریسٹورنٹس میں کھانے کھاتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کے قصے سناتے ہیں، مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے اردگرد ایسے لوگ بھی ہیں جن کے لیے ایک وقت کی روٹی بھی کسی خوشی سے کم نہیں۔
ہم نے اس بے حسی کو معمول بنا لیا ہے اور جب کوئی انسان اپنی مجبوری میں خودکشی کرتا ہے، اپنے بچوں کو زہر دیتا ہے، یا جرم کی راہ اختیار کرتا ہے، تو ہم محض افسوس کا اظہار کرکے اگلے لمحے بھول جاتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف انسانیت کی توہین ہے بلکہ معاشرتی بربادی کی بنیاد بھی ہے۔ ہم نے احساس، ہمدردی اور خیر خواہی جیسے جذبات کو کمزور کر دیا ہے اور جب ایک قوم ان جذبات سے محروم ہو جائے تو وہ صرف جسمانی طور پر زندہ رہتی ہے، روحانی طور پر مر جاتی ہے۔ ہمارے مذہب نے زکٰوۃ، صدقہ، خیرات اور غریب پر رحم کرنے کی بے شمار تعلیمات دی ہیں، مگر ہم نے ان احکامات کو صرف تقریروں تک محدود کر دیا ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بطور فرد، بطور معاشرہ اور بطور ریاست اس بے حسی کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے، ہمیں خود کو دوسروں کی جگہ رکھ کر سوچنا ہوگا، ہمیں معاشرتی نظام میں ایسا توازن پیدا کرنا ہوگا جہاں ہر فرد کو عزت، روٹی، تعلیم اور صحت میسر ہو۔ ہم سب کو اپنی اپنی سطح پر کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ صرف حکومت کا فرض نہیں، بلکہ ہر اس انسان کا بھی ہے جس کے پاس احساس ہے، وسائل ہیں اور دل میں انسانیت کے لیے جگہ ہے۔

