Mobile Phone Ne Bache Cheen Liye
موبائل فون نے بچے چھین لیے

یہ صدی جہاں سائنسی ترقی اور ڈیجیٹل انقلاب کے نغمے گا رہی ہے، وہیں ایک ایسا سناٹا بھی چھایا ہوا ہے جو صرف حساس دل محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ سناٹا گلیوں میں بچوں کی غیر موجودگی، پارکوں میں ویرانی، چھتوں پر پتنگوں کی کمی اور دادی نانی کے قصوں کی موت کی صورت میں محسوس ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب بچپن کا مطلب تھا باہر کھیلنا، دھوپ میں پسینہ بہانا، بارش میں بھیگنا، کانوں میں چیخ چیخ کر بات کرنا اور آنکھوں میں خوابوں کے ستارے سجانا۔ مگر اب بچپن کا مطلب ہے: اسکرین، گیمنگ، ویڈیوز، تنہائی اور مجازی دنیا میں کھو جانا۔ سچ پوچھیں تو اسمارٹ فون نے صرف وقت نہیں چرایا، اس نے بچپن بھی چھین لیا ہے، خاموشی سے، دھیرے دھیرے، مگر بےرحمی سے۔
معاشرے میں جب بھی کوئی تباہی آتی ہے، تو اس کی جڑیں زیادہ تر نیت کی نہیں، علم کی کمی میں ہوتی ہیں۔ والدین کی اکثریت نے موبائل کو اس لیے بچوں کے حوالے کیا کہ وہ "خاموش" ہو جائیں، "مصروف" ہو جائیں، یا خود کو تنہا نہ محسوس کریں۔ ابتدا میں یہ عمل بے ضرر لگا۔ لیکن پھر وہی "خاموشی" بچوں کی فطری توانائی کو نگلنے لگی، وہی "مصروفیت" ذہنی انتشار میں بدلنے لگی اور وہی "دلچسپی" اب لت کی صورت اختیار کر گئی۔ ماں باپ نے لاڈ کے مارے بچوں کو وہ دیا جس کی شدت نے ان کے معصوم ذہن کو بری طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔ جس کھلونے کو تفریح سمجھا گیا، وہ آہستہ آہستہ ایک ایسا زہریلا نشہ بن گیا جو اب صرف والدین نہیں، ماہرینِ نفسیات، اساتذہ اور سماجی محققین سب کو خوفزدہ کر رہا ہے۔
آپ کسی بھی محلے، گاؤں یا شہر میں چلے جائیں، ایک منظر مشترک ملے گا: پارک سنسان، گلیاں خالی، چھتیں ویران اور گھروں میں بیٹھے بچے اپنی اسکرینوں پر نظریں جمائے، ہنسی کی جگہ مصنوعی آوازوں پر ہنسنے والے، دوستوں کی جگہ "سبسکرائبرز" اور "لائکس" کے دلدادہ اور حقیقی تجربات کی جگہ ویڈیو گیمز میں خود کو "ہیرو" سمجھنے والے۔ یہ تبدیلی محض ایک عادت نہیں بلکہ ایک گہری تہذیبی تبدیلی ہے۔ بچپن اب باہر نہیں رہ گیا، بلکہ اندر ایک کمرے میں قید ہو چکا ہے جہاں نہ دھوپ ہے، نہ مٹی، نہ زخم، نہ ہنسی، نہ سیکھنے کا عمل، صرف ایک بے روح تفریح ہے، جو ذہن کو تھکا کر بھی اطمینان نہیں دیتی۔
ماہرینِ نفسیات چیخ چیخ کر خبردار کر رہے ہیں کہ اسکرین ٹائم بچوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ مسلسل موبائل استعمال کرنے والے بچے:
چڑچڑے ہو جاتے ہیں۔
بے خوابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
غیر ضروری اضطراب اور توجہ کی کمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
سماجی تعلقات سے کٹاؤ محسوس کرتے ہیں۔
ذہنی نشوونما رک جاتی ہے۔
گفتگو کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
تخلیقی قوت کم ہو جاتی ہے۔
یہ سب اثرات چھوٹے لگتے ہیں، لیکن ان کا نتیجہ ایک ایسی نسل کی صورت میں نکلے گا جو نہ صحت مند ہوگی، نہ تعلقات میں کامیاب اور نہ ہی ذہنی طور پر مستحکم۔
ایک اہم پہلو والدین کا اپنا رویہ ہے۔ وہ خود بھی موبائل فون کے عادی ہو چکے ہیں۔ کھانے کی میز پر، سفر میں، حتیٰ کہ سونے سے پہلے تک وہ اسکرین سے جُڑے ہوتے ہیں۔ بچے صرف باتیں نہیں سنتے، رویے دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اگر ماں باپ خود ہر وقت فون میں مگن ہوں گے تو بچوں کو کس منہ سے اس سے روکیں گے؟ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنا استعمال کم کریں، بچوں کے ساتھ کھیلیں، بات کریں، کہانیاں سنائیں، کتابیں پڑھیں اور سب سے اہم، وقت دیں۔
اگر ہم واقعی اپنے بچوں کو موبائل کی اس قید سے آزاد کروانا چاہتے ہیں، تو ہمیں محض روکنے سے زیادہ متبادل دینے ہوں گے:
مشترکہ خاندانی سرگرمیاں: روزانہ ایک وقت طے کریں جب سب موبائل بند کرکے بات کریں، کوئی کھیل کھیلیں یا کچھ پڑھیں۔
کتابوں سے دوستی: بچوں کے کمرے میں کتابیں رکھیں، روزانہ کچھ نہ کچھ سنائیں۔
آؤٹ ڈور سرگرمیاں: کھیلنے کے مواقع دیں، پارک میں جائیں، سائیکل چلانا سکھائیں۔
ڈیجیٹل ڈائیٹ: جیسے خوراک میں پرہیز ہوتا ہے، ویسے ہی موبائل کے استعمال کا وقت محدود کریں۔
رول ماڈل بنیں: خود موبائل سے فاصلہ اختیار کریں تاکہ بچے آپ کو دیکھ کر سیکھیں۔
بچوں کا بچپن اگر ایک بار چلا جائے تو وہ کبھی واپس نہیں آتا۔ ہم ان کی معصومیت، فطری خوشی اور قدرتی تعلقات کو موبائل کی قربان گاہ پر نہ چڑھائیں۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ ہم ٹیکنالوجی کو استعمال کریں، نہ کہ وہ ہمیں۔ اگر ہم نے آج اپنے بچوں کو موبائل کی اس دنیا سے نہ نکالا، تو کل کو ہم خود ان کی حقیقی زندگی سے نکال دیے جائیں گے۔ بچے صرف ہمارے لیے ذمہ داری نہیں، قوم کا مستقبل بھی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ وہ متوازن، تخلیقی، ذہین اور خوش مزاج انسان بنیں، تو ہمیں ان کے بچپن کو واپس دینا ہوگا، وہ بچپن جو ان سے چھین لیا گیا ہے۔

