Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Khalid
  4. Maa Ke Baghair Hum Kuch Bhi Nahi

Maa Ke Baghair Hum Kuch Bhi Nahi

ماں کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں

دنیا میں بے شمار رشتے ہیں، جن میں خلوص، محبت، وفا، ایثار اور اپنائیت کا رنگ جھلکتا ہے۔ لیکن ان سب رشتوں میں اگر کسی ایک رشتے کو تمام صفات کا مجموعہ کہا جائے تو وہ "ماں" کا رشتہ ہے۔ ماں ایک ایسا لفظ ہے جو صرف تین حروف پر مشتمل ہے، مگر اپنے اندر محبت کی ایک پوری کائنات سموئے ہوئے ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس کے بغیر نہ صرف ہمارا وجود نامکمل ہوتا ہے بلکہ ہمارے جینے کا سلیقہ، سیکھنے کا انداز، محبت کا مفہوم، سب کچھ بے معنی لگتا ہے۔ انسان اپنی عمر کے ہر موڑ پر کئی چہروں سے ملتا ہے، کچھ بھلا دیتا ہے، کچھ دل کے قریب رکھتے ہوئے بھی کھو دیتا ہے، لیکن ماں وہ ہستی ہے جس کا لمس، اس کی آغوش، اس کی دعا، اس کی قربانی، اس کی ہدایت، سب کچھ عمر بھر کے لیے دل میں ایک چراغ کی مانند جلتا رہتا ہے۔

ماں کی گود وہ پہلی یونیورسٹی ہے جہاں انسان الف سے اللہ اور ب سے بندگی سیکھتا ہے۔ اسی گود میں سونا، اسی سینے پر رونا، اسی لمس سے سکون پانا اور اسی کی گود میں جاگنے والے خوابوں پر زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ماں کی قربانیوں کو شمار کرنا ممکن نہیں۔ وہ دن جب وہ بھوکی رہتی ہے تاکہ بچہ سیر ہو کر کھا لے، وہ راتیں جب وہ جاگتی ہے تاکہ بچے کی نیند پوری ہو، وہ وقت جب خود بیماری میں بھی بچے کے آرام کا خیال رکھتی ہے، یہ سب صرف ماں ہی کر سکتی ہے۔ وہ اپنی ہر خوشی، ہر خواہش، ہر آرام کو تج دیتی ہے صرف اس لیے کہ اس کی اولاد کا مقدر سنور جائے اور یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو یقین آتا ہے کہ ماں واقعی "رب کا روپ" ہے۔

ہماری زندگیاں اگر ایک درخت ہیں تو ماں اس کی جڑ ہے، وہ جڑ جو دکھائی نہیں دیتی مگر ساری زندگی ہمیں زمین سے جوڑ کر رکھتی ہے۔ یادگار لمحات کی اگر بات کی جائے تو کون سا لمحہ ہے جو ماں کے بغیر مکمل ہو؟ پہلا قدم اٹھاتے ہوئے گرنے پر وہی تو تھی جس نے بانہوں میں سمیٹا، امتحان میں کامیابی پر سب سے پہلے وہی تو خوش ہوئی، دکھ میں ہمیں سینے سے لگانے والی، غلطی پر پیار سے سمجھانے والی اور دعاؤں میں ہر لمحہ یاد رکھنے والی صرف وہی تو ہے۔ جب سب ساتھ چھوڑ جائیں، تب بھی ماں کا دل اپنی اولاد کے لیے دھڑکتا رہتا ہے۔ وہ اولاد کے لیے ہر حال میں خیر مانگتی ہے، یہاں تک کہ خود قربانی دے کر بھی اگر اولاد کو کچھ مل جائے، تو اسے یہی محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی دولت اسی نے پا لی ہے۔

معاشرتی پہلو سے دیکھا جائے تو آج کی دنیا میں ماں کو محض ایک "ذمہ داری" یا "بوڑھا وجود" سمجھنا بہت بڑا المیہ بن چکا ہے۔ بڑھاپے میں ماں کو اولڈ ہومز کی دہلیز پر چھوڑ دینا یا اس کے دکھوں کو نظر انداز کرنا اس معاشرے کی بے حسی کا ایسا داغ ہے جو کبھی نہیں دھل سکتا۔ ماں صرف وہ نہیں جو دودھ پلائے یا کھانا پکائے، بلکہ ماں وہ ہے جو نسلیں سنوارتی ہے، تہذیب کا درس دیتی ہے اور معاشرے کی بنیاد مضبوط کرتی ہے۔ اگر ایک ماں تعلیم یافتہ، باوقار اور بااختیار ہو تو نسلیں فخر بن جاتی ہیں۔ ماں کا مقام محض گھر تک محدود نہیں بلکہ ریاست، معیشت، مذہب اور تہذیب کی بنیادوں میں بھی اس کا ہاتھ ہوتا ہے۔

ماں کو احترام دینا صرف جذباتی ضرورت نہیں بلکہ معاشرتی فریضہ ہے۔ جن گھروں میں مائیں بے توقیر ہوں، وہاں سکون نہیں پنپتا۔ جن معاشروں میں ماؤں کو محبت اور تحفظ نہ ملے، وہ معاشرے تنزلی کی راہوں پر چل پڑتے ہیں۔ ماں کا دل ٹوٹ جائے تو دعاؤں کی برکت چھن جاتی ہے اور جب ماں راضی ہو، تو تقدیر بھی بدل جایا کرتی ہے۔

آج جب ہم ترقی، آزادی، جدیدیت اور خودمختاری کے نام پر زندگی گزار رہے ہیں، تو ہمیں رک کر سوچنا ہوگا کہ ماں کا کیا حال ہے؟ کیا وہ آج بھی ویسے ہی ہنستی ہے جیسے ہمارے بچپن میں ہنسا کرتی تھی؟ کیا اس کی آنکھوں کی چمک باقی ہے یا وہ وقت کی بے رحم دھوپ میں مدھم ہو چکی ہے؟ کیا اس کے لیے ہم نے کچھ ایسا کیا ہے کہ جس سے وہ فخر سے کہہ سکے: "یہ میرا بیٹا ہے، یہ میری بیٹی ہے"؟ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، مگر کیا ہم نے کبھی اُس جنت کو چھونے کی کوشش کی؟ کیا کبھی ہم نے خود سے بڑھ کر اُس کے آرام، اُس کی صحت، اُس کی خوشی کے لیے سوچا؟

ماں کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔ وہ بولی نہ سکھاتی تو ہم الفاظ نہ جانتے۔ وہ دعائیں نہ دیتی تو ہمارے قدم منزل تک نہ پہنچتے۔ وہ روٹی نہ دیتی تو ہم بھوکے ہی رہتے، وہ مٹی میں نہ لتھڑتی تو ہم صاف دامن نہ ہوتے، وہ آنکھوں میں آنسو نہ چھپاتی تو ہم کبھی مسکرا نہ پاتے۔ وہ ہستی جو ہمیں ہر حال میں قبول کرتی ہے، وہی ماں ہے اور سچ یہ ہے کہ اس جیسا کوئی اور رشتہ نہ تھا، نہ ہے، نہ ہوگا۔

ماں۔۔ تیرے بنا ہم کچھ بھی نہیں۔

دعاؤں میں جس کی اثر دیکھتا ہوں
میں جب بھی گرتا ہوں، ماں دیکھتا ہوں

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan