Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Khalid
  4. Haq Ki Awaz, Shuhada e Sukheke Ke Naam

Haq Ki Awaz, Shuhada e Sukheke Ke Naam

حق کی آواز، شہداء سکھیکی کے نام

20 ستمبر 2025 کی صبح سکھیکی کی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن گئی۔ یہ وہ دن تھا جب پورا شہر ایک دردناک سانحے کی زد میں آیا اور ہر دل غم سے لبریز ہوگیا۔ سکھیکی، جو ہمیشہ محبت، بھائی چارے اور روزمرہ زندگی کی مصروفیت سے آباد رہتا ہے، اچانک ایسی قیامت سے دوچار ہوا کہ دیکھنے والے کانپ اٹھے۔ بازاروں کی چہل پہل، بچوں کی ہنسی، دکانوں کی رونق، سب پل بھر میں ماتم میں بدل گئیں۔

حادثہ اتنا ہولناک تھا کہ کسی کو سمجھ نہ آئی کہ ہوا کیا ہے۔ چند لمحوں میں ہر طرف چیخ و پکار گونجنے لگی۔ عورتیں اپنے پیاروں کے نام پکار رہی تھیں، مرد بے بسی سے زمین پر ہاتھ مار رہے تھے، بچے رو رہے تھے اور فضا میں رونے کی آوازوں کا ایک ہولناک شور پھیل گیا۔

ریسکیو کو اطلاع دی گئی، مگر افسوس کہ سکھیکی جیسے بڑے اور اہم قصبے میں ریسکیو کی صرف ایک بائیک موجود تھی۔ باقی امدادی گاڑیاں تحصیل پنڈی بھٹیاں اور ضلع حافظ آباد سے روانہ ہوئیں۔ اس تاخیر نے دکھ کو کئی گنا بڑھا دیا۔ قیمتی وقت ہاتھ سے نکل گیا اور درجنوں قیمتی جانیں سسک سسک کر دم توڑ گئیں۔

یہ وہ لمحے تھے جب انسانیت اپنے امتحان سے گزر رہی تھی۔ اہلِ علاقہ نے اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کیا۔ والدین نے اپنے بچوں کی لاشیں خود اٹھائیں، بھائیوں نے اپنے بھائیوں کے جسم موٹر سائیکلوں پر رکھے اور لوگوں نے زخمیوں کو کندھوں پر اٹھا کر رورل ہیلتھ سینٹر سکھیکی تک پہنچایا۔ مگر افسوس کہ وہاں بھی زندگی نے منہ موڑ لیا۔ ہسپتال میں اس وقت کوئی ایمرجنسی ڈاکٹر موجود نہ تھا اور زخمی تڑپتے رہے۔ فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث کئی معصوم جانیں بجھ گئیں۔

یہ منظر بیان کرنا آسان نہیں۔ ایک ماں اپنے بیٹے کی لاش موٹر سائیکل پر بیٹھی پکڑ کر جا رہی تھی۔ ایک باپ اپنے بیٹے کے خون سے تر کپڑے سینے سے لگا کر بیٹھا تھا۔ وہ لمحہ قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا۔ سکھیکی کی فضا میں وہ چیخیں آج بھی گونج رہی ہیں۔

یہ سانحہ صرف ایک حادثہ نہیں، ایک چیخ ہے، ایک فریاد ہے کہ خدارا! اب بس کریں۔

زندگی کو بچانے کے انتظامات ہر جگہ برابر ہونے چاہئیں۔ سکھیکی کے لوگوں کا خون بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا لاہور یا اسلام آباد کے شہریوں کا۔ اہلِ سکھیکی کا صرف دو مطالبات پر مشتمل موقف ہے اور یہ کسی پارٹی، جماعت یا سیاست سے نہیں جڑا، یہ انسانیت کا مطالبہ ہے:

سکھیکی میں ریسکیو اسٹیشن قائم کیا جائے، مکمل گاڑیوں اور عملے کے ساتھ۔

رورل ہیلتھ سینٹر سکھیکی میں 24 گھنٹے کے لیے دو ایمرجنسی ڈاکٹرز مستقل موجود ہوں۔

یہ مطالبات کسی کے خلاف نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے ہیں۔ یہ فریاد ان معصوم جانوں کی طرف سے ہے جنہیں اگر چند لمحے پہلے طبی امداد مل جاتی، تو آج وہ زندہ ہوتے۔

حادثے کے بعد انتظامیہ، عوامی نمائندگان اور حکومتی اہلکار غم میں شریک ہونے کے لیے سکھیکی پہنچے۔ دکھ کا اظہار کیا گیا، تسلیاں دی گئیں، وعدے کیے گئے کہ انصاف ہوگا، متاثرہ خاندانوں کی داد رسی کی جائے گی۔ کچھ امداد ملی، کچھ اعلانات ہوئے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ وعدے دھندلا گئے۔

اہلِ سکھیکی نے صبر کیا، احتجاج نہیں کیا۔ انہوں نے امید رکھی کہ حکومت ان کی پکار سنے گی، مگر تاخیر نے اس زخم کو گہرا کر دیا۔ یہ کالم کسی حکومت، ادارے یا افسر پر الزام نہیں لگاتا، بلکہ صرف احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے۔

انصاف کی راہ میں تاخیر بھی ایک تکلیف بن جاتی ہے۔ عوام صرف یہ چاہتے ہیں کہ وعدے حقیقت بنیں، اعلانات عمل میں بدلیں اور وہ خاندان جو اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں، کم از کم اس اطمینان کے ساتھ جی سکیں کہ ان کے ساتھ انصاف ہوا۔ یہ وقت ہے کہ حکومت، ضلعی انتظامیہ اور صحت کے محکمے سکھیکی کی حالتِ زار پر توجہ دیں۔

ریسکیو سروس کو مکمل وسائل فراہم کیے جائیں، ہسپتال میں مستقل ڈاکٹرز تعینات کیے جائیں اور بنیادی طبی سہولتیں عام شہری کی پہنچ میں ہوں۔ اہلِ سکھیکی قانون کا دل سے احترام کرتے ہیں اور وہ حکومت کے شکر گزار ہیں جب بھی کوئی مثبت قدم اٹھایا جاتا ہے۔ اب وہ صرف چاہتے ہیں کہ ان کی یہ آواز بھی سن لی جائے، وہ آواز جو کسی الزام میں نہیں، صرف التجاء میں لپٹی ہے۔

10 اکتوبر 2025، بروز جمعہ، یہ دن سکھیکی کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس دن شہر کے باسی، تاجر برادری، طلبہ، خواتین، بزرگ اور نوجوان سب ایک آواز بن گئے۔

"ہم سب کا گھر سکھیکی ہے، ہم سب ایک ہیں اور ہمارا مقصد انصاف ہے"۔

یہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کسی جماعت یا سیاسی اختلاف کے لیے نہیں، بلکہ ایک متحد عوامی موقف ہے کہ ہم چاہتے ہیں:

انصاف ہو

ریسکیو اسٹیشن بنایا جائے

ہسپتال میں ایمرجنسی ڈاکٹرز موجود ہوں

اور آئندہ کسی سانحے میں کوئی جان صرف تاخیر کے باعث نہ جائے۔

بازار بند رہیں گے، مگر دل کھلے رہیں گے ضمیر جاگ اٹھے گا۔

یہ احتجاج نفرت نہیں، محبت ہے۔ یہ فریاد کمزوری نہیں، حوصلہ ہے۔

یہ اتحاد سکھیکی کے لوگوں کی پہچان ہے، جو ہمیشہ امن، قانون اور بھائی چارے کو فوقیت دیتے ہیں۔

ہم حکومت سے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں:

آپ ہماری آواز ہیں، ہماری طاقت ہیں۔ ہم آپ سے کوئی جنگ نہیں چاہتے، صرف مدد مانگتے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ سکھیکی کے عوام کو وہ سہولیات ملیں جو زندگی اور موت کے بیچ فرق پیدا کرتی ہیں۔

سکھیکی کے شہداء کا خون اس مٹی میں مل گیا ہے، مگر ان کی یادیں زندہ ہیں۔

یہ شہر اب خاموش نہیں، یہ بیدار ہے۔

یہ صرف انصاف نہیں مانگ رہا، بلکہ انسانیت کو جگا رہا ہے۔

اہلِ سکھیکی نے ایک مثال قائم کی ہے، کہ دکھ میں بھی اتحاد باقی ہے اور صبر میں بھی وقار۔

ہمارا پیغام حکومت، اداروں اور ہر بااختیار شخص کے نام ہے۔ خدارا سکھیکی کے زخموں پر مرہم رکھئے۔ یہ عوام سیاست نہیں کر رہے، یہ زندگی مانگ رہے ہیں۔ ریسکیو اسٹیشن بنائیے، ہسپتال میں 24 گھنٹے ایمرجنسی ڈاکٹرز تعینات کیجیے۔ تاکہ آئندہ کسی باپ کو اپنے بیٹے کی لاش موٹر سائیکل پر نہ لانی پڑے۔

اللہ تعالیٰ شہداء سکھیکی کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے ورثاء کو صبرِ جمیل دے اور ہمارے حکمرانوں کو انصاف کے فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood