Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Khalid
  4. Ghairat Ke Naam Par Muhabbat Ka Qatal

Ghairat Ke Naam Par Muhabbat Ka Qatal

غیرت کے نام پر محبت کا قتل

بلوچستان کی بے آواز وادیوں میں محبت ہمیشہ خطرے کی زد میں رہی ہے، جہاں روایت، قبیلہ اور غیرت کا تصور انسانیت، جذبات اور حقِ زندگی کو روندتا چلا آ رہا ہے۔ شیتل اور زرک، دو دل جنہوں نے محبت کو محض احساس نہیں بلکہ ایمان جانا، وہ اس زمین پر آخری سانسیں گننے والے ایک اور مظلوم جوڑے کے طور پر ہمیشہ کے لیے تاریخ میں دفن ہو گئے۔ ان کی کہانی کوئی نئی نہیں، مگر ہر بار نئی تڑپ کے ساتھ جنم لیتی ہے۔

ایک عورت جو اپنے دل کی آواز پر لبیک کہے، ایک مرد جو محبت کو نبھانے کا حوصلہ کرے اور ایک معاشرہ جو ان کے جذبے کو کفر، گناہ اور بے عزتی کی سزا دیتا ہے۔ شیتل اور زرک کے قتل کی خبر معمولی کالموں میں کہیں نیچے چھپ گئی، سوشل میڈیا پر چند دن کے ہیش ٹیگ بنے، پھر خاموشی کی دھول میں گم ہوگئی۔ ان کے قاتل کون تھے؟ ان کے پیچھے کس نے فتوے جاری کیے؟ کس نے غیرت کا نقاب اوڑھ کر خونی وار کیے؟ یہ سب باتیں ہمارے سوالات میں دفن ہوگئیں۔ غیرت کا یہ ڈھونگ، یہ نام نہاد اقدار کی علمبرداری، درحقیقت ایک اجتماعی بربریت ہے جس میں قبیلے، روایت، خاموش اکثریت اور ریاستی ادارے سب شامل ہیں۔

شیتل جو اپنی مرضی سے ایک بالغ عورت ہونے کے ناطے نکاح کے رشتے میں بندھی اور زرک جو اپنی بیوی کو عزت اور تحفظ دینا چاہتا تھا، ان دونوں کو اس معاشرے نے غیرت کے خنجر سے کاٹ کر پھینک دیا۔ بلوچستان کی سرد شاموں، خاموش پہاڑوں اور بے نور راتوں میں اب بھی وہ لمحہ گونجتا ہے جب انہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا، نہ کوئی عدالت، نہ صفائی کا موقع، نہ جرم ثابت، صرف فیصلہ اور فوری انجام۔ یہ واقعہ ہمارے سماجی ڈھانچے، ہمارے عدالتی نظام اور ہمارے اجتماعی ضمیر کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے، جو بار بار ہمیں جھنجھوڑتا ہے مگر ہم خود کو بیہوش رکھنا چاہتے ہیں۔

یہ قتل صرف دو افراد کا نہیں، یہ ایک جذبے کا قتل ہے، وہ جذبہ جو انسان کو انسان بناتا ہے: محبت۔ شیتل اور زرک کی موت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہمارا معاشرہ عورت کی مرضی کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں۔ اگر عورت اپنے ماں باپ کے فیصلے سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھائے، تو وہ عزت کے دائرے سے نکل جاتی ہے اور مرد اگر اس "باغی" عورت کا ساتھ دے، تو وہ خاندان کا دشمن، قبیلے کا غدار اور معاشرے کا باغی قرار پاتا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل صرف جسمانی موت نہیں بلکہ ایک ایسی سماجی اور نفسیاتی فضا کی پیداوار ہے جس میں فرد کو اپنی ذات کی شناخت کا حق حاصل نہیں۔ بلوچستان، جو تاریخی طور پر سرداروں، جرگوں اور قبائلی نظام کی گرفت میں ہے، وہاں عورت کا مقام ہمیشہ سے ماتحت رہا ہے۔ اگر وہ محبت کرے تو یہ بے غیرتی، اگر وہ شادی کرے تو یہ بغاوت اور اگر وہ جینے کا حق مانگے تو یہ موت کے پروانے کی درخواست سمجھی جاتی ہے۔

یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ریاست کے آئین میں ہر بالغ شہری کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق حاصل ہے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ جرگہ، پنچایت اور قبائلی سردار آئین سے بالاتر فیصلے صادر کرتے ہیں اور اکثر پولیس اور انتظامیہ ان فیصلوں کے محافظ بن کر سامنے آتے ہیں۔

شیتل اور زرک کی لاشیں تو دفن ہوگئیں، مگر ان کے سوالات زندہ ہیں: کیا محبت جرم ہے؟ کیا عورت انسان نہیں؟ کیا زندگی قبیلے، برادری اور خاندان کی ملکیت ہے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا، تب ریاست کہاں تھی؟ میڈیا کہاں تھا؟ اور ہم سب کہاں تھے؟ خاموش، بے حس اور غیرت کے اس مکروہ کھیل کے تماشائی؟

اگر آج شیتل اور زرک کی موت پر ہم نے آواز نہ اٹھائی، تو کل پھر کسی اور ماں کی بیٹی، کسی اور باپ کا بیٹا اسی انجام کو پہنچے گا۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ غیرت کے نام پر قتل دراصل ایک منصوبہ بند سماجی قتل ہے، جسے روایات، مذہب اور قبائلی عزت کے نام پر جواز دیا جاتا ہے۔ قانون کی کتابوں میں غیرت کے نام پر قتل کو باقاعدہ قتلِ عمد قرار دیا جا چکا ہے، مگر اس پر عمل درآمد کا عالم یہ ہے کہ اکثر قاتل، مقتول کے وارث کی صورت میں عدالت سے معافی پا لیتے ہیں اور پھر فخر سے سینہ تان کر کہتے ہیں: "ہم نے غیرت کا علم بلند رکھا"۔

اصل مسئلہ قانون کی کمزوری نہیں، اصل مسئلہ سماج کی بے حسی، مذہبی خاموشی، عدالتی کمزوری اور میڈیا کی وقتی دلچسپی ہے۔ ہمیں اس سانحے کو ایک فرد واحد کا واقعہ نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ ایک مکمل نظام کا عکس ہے جس میں ہر فرد، ہر ادارہ اور ہر طبقہ شامل ہے۔ تعلیمی ادارے، مدارس، مساجد، صحافت، ادب، سیاست، سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ محبت جرم نہیں، عورت انسان ہے اور غیرت کا مطلب قتل نہیں بلکہ عزت دینا ہے۔ جب تک یہ سوچ نہ بدلے، جب تک ہم اس خون آلود روایت کو جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکیں، تب تک شیتل اور زرک جیسے جوڑے مرتے رہیں گے اور ہم قبرستانوں کی مٹی میں صرف لاشیں نہیں بلکہ اپنی اجتماعی روح کو دفن کرتے رہیں گے۔

یہ وقت ہے کہ ہم خاموش نہ رہیں، یہ وقت ہے کہ ہم زبان کھولیں، قلم اٹھائیں، آواز بنیں۔ ورنہ کل جب تاریخ لکھی جائے گی تو ہمارے چہروں پر بھی وہی سیاہی مل دی جائے گی جو آج قاتلوں کے ہاتھوں پر ہے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail