Sapne Sache Ho Sakte Hain (2)
سپنے سچے ہو سکتے ہیں (2)

یہ ڈیپ سیک کے بانی لیانگ وین فینگ کی کہانی ہے۔ لیانگ وین فینگ کی کہانی ایک ایسے خواب کی تعبیر ہے جو کبھی ایک معمولی گھرانے سے شروع ہوا اور آج چین کی مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں ایک انقلاب کی علامت بن چکا ہے۔ 1985 میں گوانگ ڈونگ کے شہر ژانجیانگ میں پیدا ہونے والے لیانگ کے والد ایک پرائمری اسکول ٹیچر تھے، مگر ان کے بیٹے نے ریاضی کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ژےجیانگ یونیورسٹی سے الیکٹرانک انجینئرنگ اور AI میں ماسٹرز کیا۔ لیانگ نے 2015 میں ہائی فلائر کوانٹ نامی ہیج فنڈ کی بنیاد رکھی، جو AI کی مدد سے الگورتھمک ٹریڈنگ کرتا تھا۔ صرف چار سال میں اس نے 8-10 بلین ڈالر کے اثاثے منظم کیے، مگر لیانگ کا دل اب بھی مصنوعی ذہانت کی بنیادی تحقیق میں دھڑکتا تھا۔
2021 میں، جب امریکہ نے چپس کی برآمدات پر پابندیوں کا اعلان کیا، لیانگ نے مستقبل بینی سے کام لیتے ہوئے 10,000 اینویڈیا A100 GPU چپس کا ذخیرہ جمع کر لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا AI کے لیے ہارڈ ویئر کی قلت سے دوچار تھی، مگر لیانگ نے نہ صرف چین کو اس بحران سے نکالا بلکہ 2023 میں ہائی فلائر کے ریسرچ ونگ کو الگ کرکے ڈیپ سیک کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد صرف ایک چیٹ بوٹ بنانا نہیں تھا، بلکہ چین کو "نقل سے تخلیق" تک لے جانا تھا۔۔ ایسا ملک جو ٹیکنالوجی کے میدان میں خود انحصار ہو۔
ڈیپ سیک کا پہلا بڑا کارنامہ اس کا R1 ماڈل تھا، جو اوپن سورس تھا اور MIT لائسنس کے تحت مفت تجارتی استعمال کی اجازت دیتا تھا۔ لیانگ کا ماننا تھا کہ بند نظاموں کی دیواریں عارضی ہوتی ہیں، جبکہ کھلے تعاون سے ہی حقیقی ترقی ممکن ہے۔ یہ فلسفہ اس وقت رنگ لایا جب جنوری 2025 میں ڈیپ سیک کا چیٹ بوٹ امریکہ میں لانچ ہوا اور صرف دس دنوں میں 50 ممالک میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والی ایپ بن گیا۔ اس کی کارکردگی نے نہ صرف اوپن اے آئی کے GPT-4 کو پیچھے چھوڑا بلکہ اینویڈیا کے شیئرز میں 18% کمی جیسے زلزلے بھی پیدا کیے، جس سے عالمی ٹیک انڈسٹری ہل کر رہ گئی۔
کامیابی کے پیچھے صرف وسائل نہیں بلکہ لیانگ کا انوکھا نقطہ نظر تھا۔ اس نے تازہ گریجویٹس کو بھرتی کیا، KPIs اور ہائیَرکی کو ختم کیا اور محققین کو GPU کلاسٹرز تک غیر مشروط رسائی دی۔ یہ "نیچے سے اوپر والی جدت" کا وہ ماڈل تھا جس نے ڈیپ سیک V3 جیسے ماڈلز کو صرف 5.58 ملین ڈالر میں تیار کرنا ممکن بنایا۔۔ یہ رقم اوپن اے آئی کے GPT-4 کے مقابلے میں 1/20 تھی۔ مئی 2024 میں جب انہوں نے اپنے API کی قیمت کلاؤڈ 3.5 سونٹ کے مقابلے میں 1/53 کر دی، تو پورے صنعتی لینڈ اسکیپ کو ہلا کر رکھ دیا، جس کے بعد علی بابا اور ٹینسینٹ جیسی کمپنیوں کو بھی قیمتیں کم کرنی پڑیں۔
لیانگ کا وژن اب AGI (جنرل مصنوعی ذہانت) تک پہنچنے کا ہے، جس کے لیے وہ زبان، ریاضی اور کثیر الذہانت (ملٹی موڈل) کو کلیدی ستون مانتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ AGI ہماری زندگی میں 2 سے 10 سال کے اندر ممکن ہے، خاص طور پر جب چین کے نوجوان سائنسدان "اپنی چمک دکھا رہے ہیں"۔ اگرچہ امریکی چپ پابندیوں جیسے چیلنجز موجود ہیں، مگر ڈیپ سیک کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف 2,000 چپس پر اپنے ماڈلز ٹرین کر سکتے ہیں، جو حریفوں کے 16,000 چپس کے مقابلے میں ایک انقلابی قدم ہے۔
اس سفر کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ لیانگ نے وی سی فنڈنگ سے مکمل پرہیز کیا۔ ہائی فلائر کے مالیاتی وسائل اور فلسفہ "طویل مدتی تحقیق پر یقین" نے ڈیپ سیک کو مارکیٹ کے دباؤ سے آزاد رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا بھر کے ماہرین نے ڈیپ سیک V3 کی کارکردگی پر حیرت کا اظہار کیا، تو اینویڈیا کے سائنسدان جم فین نے اسے "AI کی دنیا کا سب سے بڑا بلیک ہارس" قرار دیا۔
آج ڈیپ سیک صرف ایک کمپنی نہیں، بلکہ چین کی ٹیکنالوجیکل خودمختاری کا استعارہ بن چکا ہے۔ جیسا کہ سڈنی یونیورسٹی کی پروفیسر مارینا ژانگ نے کہا، "ہارڈ ویئر کی کمی کو سافٹ ویئر کی مہارت سے پورا کرنا۔۔ یہ ڈیپ سیک کی اصل کامیابی ہے"۔ لیانگ وین فینگ کی یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ جب تجسس، جرأت اور وژن ایک ہو جائیں تو وسائل کی کمی بھی راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ لیانگ کا اصرار ہے کہ جب تک چین، امریکہ کی نقل کرتا رہے گا تب تک وہ دو نمبر ہی رہے گا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اصل تیار کریں اور دنیا ہماری نقلیں بنائے۔ دیکھتے ہیں، آگے کیا ہوتا ہے۔