O Sab Di Maa Agayi Aye
او سب دی ماں آگئی اے

حکومت بہت نامراد نشہ ہے، آپ کے پاس اقتدار ہو تو طبلے بجانے والے انواع و اقسام کے مشورے دیتے ہیں تاکہ بادشاہ سلامت کی واہ واہ ہو اور وہ اس کے بدلے میں کچھ چاندی کے سکے وصول کرکے اپنا خزانہ بھر سکیں، پاکستان میں معاملہ بھی ایسا ہی ہے، جب کوئی حکمران اقتدار میں آتا ہے تو وہ سرکاری محکمے ہونے کے باوجود طبلے بجانے والے اپنے ساتھ لیکر آتے ہیں تاکہ وہ قانون سے بالاتر ہوکر بادشاہ سلامت کی نیک نامی کو فروغ دیں اور ان کو عوام کا ہر دلعزیز حکمران ثابت کرسکیں جس سے ان کے اقتدار کو طول ملے۔
طبلے بجانے والے ایسے افراد پنجاب میں باکثرت بجائے جاتے ہیں، ایک دور میں فرخ شاہ نامی سیاسی شخص کو ڈی جی پی آر بنا دیا گیا تھا پھر جو لطیفے مشہور ہوئے وہ عوام کو یاد ہی ہونگے اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا، پہلے زمانے میں لوگ تھڑوں پر بیٹھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے تھے، تھڑوں پر ان کی آواز چند مخصوص افراد ہی سن سکتے تھے مگر تھڑوں پر ہونے والا پراپیگنڈا کبھی کبھی بہت مؤثر ثابت ہوتا تھا۔
8 فروری 2024کے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف وزیراعظم بن گئے جبکہ پنجاب کے اقتدار کی ہما ان کی بیٹی مریم نواز کے سر بیٹھ گئی، اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے ہنگامی انتظامات اٹھانا شروع کردیئے جس میں سب سے قابل تعریف کام تجاوزات کے خاتمے کے معاملے پر زیرو ٹالرنس ہے، لاہور میں تیس فیصد تجاوزات ختم ہوئیں مگر مکمل طور پر اس کا خاتمہ نہیں ہوسکا اس کی بڑی وجہ سرکاری اداروں کے اہلکاروں کی "چائے پانی" ہے، اس معاملے میں وزیراعلی کو مزید سختی کرنا ہوگی اور تجاوزات کرنیوالوں کیساتھ ساتھ اس علاقے کے ذمہ دار افسران اور ملازمین کیخلاف تادیبی کارروائی بھی کرنا ہوگی۔
یہی چند نمک حرام طبلچی حکومتوں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں، مریم نواز نے نوجوانوں، کسانوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کیلئے بھی اہم اقدامات کئے ہیں، یوتھ اس وقت شتر بے مہار بن چکی ہے اس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے، ہر بچے کے ہاتھ میں موبائل ہے جس کی وجہ سے بچے اپنی فرسٹریشن موبائل پر نکالتے ہیں جو سب سے آسان اور قابل پہنچ ذریعہ ابلاغ ہے، نوجوانوں کو تعلیمی سکالرز دینے کے ساتھ ساتھ آسان شرائط پر قرضے فراہم کرنے کے پروگرام کا بھی آغاز ہوگیا ہے، یہ وہ اقدامات ہیں جس کی تعریف مخالفین بھی کرتے ہیں۔
مسئلہ یہاں پیدا ہوتا ہے مریم نواز کے مستحسن اقدامات کی پبلیسٹی کیلئے طبلہ بجانے والے نئے نئے ڈرامے کر رہے ہیں، افسوس 2025ء میں بھی یہ طبلہ بجانے والے نصف صدی پرانے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ اب عوام کی سب سے بڑی طاقت سوشل میڈیا ہے، عوام بالخصوص بچوں کو اگر بیوقوف بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ فوری reactکرتے ہیں، یہ نئی نسل ہے جن کو بولنے کی مکمل آزادی سوشل میڈیا نے دی ہے کسی حکومت نے نہیں۔
وزیراعلی پنجاب چند دنوں سے پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں جا رہی ہیں اور طلبہ کیلئے سکالرشپ کا اعلان کررہی ہیں جو کہ بہت اچھا کام ہے اس سے والدین پر تعلیمی اخراجات کا کچھ بوجھ تو کم ہوگا مگر اس موقع پر جس طرح کے "کارنامے" سرانجام دیئے گئے اس پر ان کی ٹیم کو سلام پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی چھچھوری حرکتوں سے وزیراعلی پنجاب کی نیک نامی کے بجائے بدنامی کا باعث بننے لگی، حال ہی میں ایک تعلیمی ادارے میں ایک طالبہ نے نظم پڑھی جو شاید سرائیکی میں تھی۔۔
او آگئی اے، او آگئی اے
سب دی ماں آگئی اے
اپنا فرض نبھا گئی ہے
میں دل نال لکھی اے
تساں دل نال سُنی ہے
اس پر سوشل میڈیا پر اتنی میمز بن رہی ہیں کہ ہنسی نہیں رک رہی، طالبہ نے نظم اس انداز میں پڑھی کہ لگتا تھا کہ وہ خوشی کا اظہار نہیں کررہی بلکہ وزیراعلی پنجاب کی آمد پر بین کر رہی ہے، طالبہ کو یہ انداز نجانے کس سائنسدان نے بتایا تھا، ریاست ماں کے جیسے ہوتی ہے چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں کہ پنجاب کی وزیراعلی پنجاب والوں کی ماں ہے مگر ماں کو اپنے بچوں کیساتھ یکساں سلوک رکھنا چاہئے، شہبازشریف نے طلبہ میں لاکھوں لیپ ٹاپ تقسیم کئے مگر طلبہ نے ووٹ پھر بھی عمران خان کو دیئے، اب طلبہ کی ترجیح لیپ ٹاپ نہیں وہ کام کرنے اور پڑھنے کا ماحول مانگتے ہیں، تعلیم اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ عام آدمی بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، ان حالات میں وہ کیسے بچوں کو تعلیم دلا سکتے ہیں، ایک طرف وزیراعلی روزانہ کی بنیاد پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد کیلئے کارڈ سکیم کا افتتاح کررہی ہیں دوسری طرف بعض محکمے بالکل نظرانداز کردئے گئے ہیں، ماں ایسا سلوک تو نہیں کرتی، ماں کیلئے سب بچے برابر ہوتے ہیں، سپورٹس بورڈ پنجاب کے ملازمین کو دو ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور تیسرا ماہ ختم ہونے والا ہے، تنخواہ نہ ملنے کی وجہ وزیراعلی نے سپورٹس کیلئے فنڈز ہی جاری نہیں کئے۔
وزیراعلی پنجاب 30 جنوری کو پنجاب سٹیڈیم میں کھیلتا پنجاب گیمز کے تیسرے مرحلے کا افتتاح کر رہی ہے، حیرانگی اس بات پر ہے جس محکمے کے ملازمین کو تنخواہ نہیں ملی رہی وہ ادارہ 10کروڑ روپے کی لاگت سے کھیلتا پنجاب گیمز کا تیسرا مرحملہ منعقد کرا رہا ہے، ان حالات میں ملازمین میں مایوسی ہی پھیلے گی، وزیراعلی کی آمد کے خوف سے انتظامیہ نے ملازمین کو جمعرات کو ایک ماہ کی تنخواہ دیدی ہے تاکہ ملازمین وزیراعلی کی آمد پر احتجاج نہ کریں کیونکہ میڈیا پر ملازمین کو تنخواہ نہ ملنے کی خبریں چل چکی ہیں اور ملازمین شدید غم و غصہ میں ہیں جبکہ پی ایچ اے، سپورٹس بورڈ پنجاب سمیت پنجاب کے چار محکموں میں ملازمین کو پنجاب حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی کم از کم تنخواہ 37 ہزار روپے نہیں مل رہی، یہ خبر چند روز قبل ایک نجی ٹی وی چینل نے دی ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعلی کو اپنی ذاتی تشہیر سے ہی دلچسپی ہے ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ ان کے محکمے کے ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہ ملی ہے کہ نہیں یا کم از کم اجرت جو انہوں نے خود مقرر کی ہے وہ مل رہی ہے کہ نہیں، پنجاب کا ایک قصہ یاد آگیا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
ایک پنجابی ماں سے 6 بچے تھے، وہ روزانہ بچوں کو ناشتہ بنا کر دیتی، کسی کو روٹی پر گھی لگا کر چائے کے کپ کے ساتھ دیتی، کسی کو روٹی کے ساتھ اچار دیتی اور کسی کو چٹنی کیساتھ روٹی دیتی تھی اور بچوں کا سکول اور کام پر بھیج دیتی، بچے ماں سے کہتے ماں تو بھی کھا لے تو ماں کہتی، میرے بچوں آپ پیٹ بھر کے کھا لو، ماں پئی چلھے (ماں چولھے میں جائے)، ایک روز بڑے بیٹے کی طبیعت خراب تھی تو وہ کام پر نہ گیا بستر پر لیٹا رہا۔
جب تمام بچے چلے گئے تو بڑے بیٹے نے دیکھا کہ ماں سب بچوں کو بھیج کر چوکی کے نیچے سے دیسی گھی نکالتی ہے اس کو آٹے میں گوند کر بلوں والا پراٹھا بناتی ہے، دیسی مرغی کے انڈے کا دیسی گھی میں آملیٹ بناتی ہے، پھر دیسی گھی پراٹھے پر ڈال کر مزے مزے سے کھاتی ہے، اگلے روز ماں نے معمول کے مطابق بچوں کو چائے، چٹنی اور اچار کے ساتھ روٹی دی جب بڑے بیٹے کی باری آئی، وہ ماں کا ڈرامہ دیکھ چکا تھا اس نے ماں سے کہا کہ ماں تو بھی کھالے تو ماں نے روایتی فقرہ بولا ماں پئی چلھے، میرا پتر تو کھا تو بیٹے نے کہا کہ نہیں ماں تو کھا، اج چلھے میں پینا اے۔
امید کی جاسکتی ہے کہ وزیراعلی پنجاب مریم نوازشریف جب بھی 30 جنوری کو کھیلتا پنجاب گیمز کے تیسرے مرحلے کا افتتاح کرنے جائیں گی تو اس بار خود چُلھے پڑنے کے سپورٹس بورڈ پنجاب کے بچوں کو چُلھے میں ڈال کر ان کو فنڈز دیں گی تاکہ غریب ملازمین کے گھر کا چولھا جل سکے۔