Jashan e Punjab Jis Mein Punjab Ki Saqafat Nahi Thi
جشن پنجاب جس میں پنجاب کی ثقافت نہیں تھی

ثقافت کسی کی معاشرے یا تہذیب کا چہرہ ہوتی ہے، اس سے اُس معاشرے کے رہنے والے لوگوں کے رہن سہن، رسم و رواج کی عکاسی کی جااتی ہے، دنیا بھر میں لاکھوں تہذیبیں موجود ہیں ان میں سے کئی فنا ہو چکی ہیں جن کے آثار دنیا بھر میں اب بھی محفوظ ہیں۔ پاکستان میں ہڑپہ، موہنجوداڑو اور بدھ مت کی قدیم ترین تہذیبوں کے باقیات اب بھی محفوظ ہیں۔ ہر تہذیب کی ایک ثقافت ہوتی ہے جو اس معاشرے اور تہذیب کے ماتھے کا جھومر ہوتی ہے۔ افریقی ممالک کی تہذیبوں کے میلے اب بھی سجتے ہیں، پاکستان میں کیلاش تہذیب کی ثقافت دنیا بھر میں مشہور ہیں، ہر سال بیرون ملک سے ہزاروں سیاح انکے سالانہ میلے دیکھنے کیلئے آتے ہیں جہاں کیلاشی اپنی ثقافت پیش کرتے ہیں۔ اپنی ثقافت کو بچانے والی قومیں ہی آج دنیا میں زندہ ہیں اور جو اپنی تہذیب بھول جائے یا چھوڑ جاتے ہیں وہ تہذیبیں فنا ہوجاتی ہیں۔
پنجاب میں رہتے ہوئے مجھے سندھ کے عوام کی جانب سے ہر سال سندھی اجرک، ٹوپی ڈے جس جوش و خروش سے منایا جانا ہے اچھا لگتا ہے، سندھ کے دورے کے دوران اس وقت کے روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر لالہ رحمن سموں (جو بہت قوم پرست ہیں) اور دیگر دوستوں نے سندھی اجرک کے تحائف دیئے۔ تقریباً دو دہائیاں گزرنے کے باوجود ان کے تحائف میرے پاس اب بھی محفوظ ہیں اور سندھ ثقافت ڈے لاہور میں سندھی اجرک، ٹوپی پہن کر ٹک ٹاک بنا کر مناتا ہوں اور سندھی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتا ہوں، ٹک ٹاک بناتے ہوئے سندھ فوک گیت "جئے سندھ جئے، سندھی ٹوپی، اجرک والا جئے" لگاتا ہوں۔
چند سالوں سے پنجاب میں عمار کاظمی پنجاب ڈے منا رہے ہیں اور اپنے وسائل سے لاہور پریس کلب کے سامنے چھوٹا سا میلہ سجاتے ہیں جس میں پنجاب کی ثقافت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس میلے میں فنکار حسب توفیق حصہ ڈالتے ہیں مگر اس میں وہ مزا نہیں ہے جو بھارتی پنجاب کے سکھ بھائی پنجاب کی ثفاقت کو مناتے ہیں۔ بھارتی پنجاب کی تصاویر ہر سال فرانسیسی نیوز ایجنسی پر دیکھتا ہوں جس میں پنجاب کی ثقافت کا بھرپور رنگ نظر آتا ہے، مٹیاریں (نوجوان لڑکیاں) پنجاب کے روایتی لباس پہنتی ہیں جس پر گوٹہ کناری لگا ہوتا ہے اور بڑا سا دوپٹہ اوڑھا ہوتا ہے جس کو وہ مٹیار کی طرح پہنے ہوتی ہے، سرڈھانپ کر گدا ڈالتی ہیں، ان کے لباس بڑھکیلے رنگوں کے ہوتے ہیں، اس میلے میں کسی ایک لڑکی نے بھی جینز یا شرٹ نہیں پہنی ہوتی حالانکہ بھارت میں لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد اب جینز، شرٹ اور سکرٹ پہنتی ہیں۔
پاکستان کے پنجابیوں نے ترقی کے نام پر اپنی ثقافت چھوڑ دی ہے، ان کی پنجابی بولنے کا لہجہ ہی پنجابیوں والا نہیں ہوتا، ہمارے بچپن میں گھروں میں پنجابی ہی بولی جاتی تھی پھر پنجابیوں نے ترقی کے نام پر اپنی ماں بولی کو چھوڑ کو انگریزی کو اپنا لیا اور بچوں سے گھر میں اردو اور انگلش بولی جانے لگی جس سے پنجابیوں کی نئی نسل اپنی ثقافت سے دور ہوگئی ہے۔ آپ پنجابیوں کی شادیاں دیکھ لیں، میں نے بچپن میں لڑکیوں کو مہندی کے موقع پر گدا ڈالتے خود دیکھا ہے اب مہندی کی جگہ شندی میں لے لی ہے جس میں لڑکیاں بھارتی گانے اور ابرارالحق کے پنجابی گانوں پر رقص کرتی تو نظر آتی ہیں مگر ان کو گدا ڈالنا نہیں آتا، آج سے تیس، چالیس سال قبل پنجابیوں کی شادیوں میں ایک رسم "سٹنیاں" دینا ہوتی ہے آج کی نئی نسل کو اس کا نام بھی یاد نہیں ہوگا۔
پنجاب کے ایک محکمے کے میڈیا سیل میں دس برس ملازمت کی، اس دوران بھارتی پنجاب سے مرد و خواتین کھلاڑیوں کی ٹیمیں اور وفود آیا کرتے تھے، ان میں مرد اکثر سکھ ہوتے تھے، بھارتی پنجاب کے لوگ آج بھی پنجاب کی ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں، تقسیم ہند کے باوجود وہ آج بھی پنجاب کو ایک ہی سمجھتے ہیں۔ بھارتی پنجاب کے وفود جب اجلاس اور میڈیا سے بات چیت کرتے تو ٹھیٹ پنجابی بولتے تھے حالانکہ وہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں، ان کی پنجاب کی دھرتی سے عشق اتنا ہے کہ وہ کبھی بھی بھارتی پنجاب یا پاکستانی پنجاب نہیں کہتے تھے، وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ "چڑھ دا پنجاب تے لیندا پنجاب"۔
چڑھ دا پنجاب کے باسی ہمیشہ لیندے پنجاب کو آج بھی اپنی دھرتی ماں سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہمارے آباؤ اجداد دفن ہیں اور اس مٹی سے ہمیشہ ان کی خوشبو آتی ہے، مگر لیندے پنجاب کے باسی یہ جذبات نہیں رکھتے حالانکہ لیندے پنجاب کے کئی باسیوں کے بڑے چڑھ دا پنجاب میں مدفون ہونگے مگر ان کا یہی کہنا ہوتا ہے بھارتی پنجاب۔۔ چڑھ دا پنجاب کے باسیوں کی ایسی باتیں مجھے بہت متاثر کرتی ہیں۔
چڑھ دا پنجاب کے باسیوں کا پنجابی لہجہ ٹھیٹ پنجابی ہوتا ہے، افسوس لیندے پنجاب کا شاید ہی کوئی بندہ ہو جو اس لہجے میں پنجابی بول سکے۔ چند روز قبل سوشل میڈیا پر 3 اور 5 دسمبر کو الحمراء کلچرل کمپلیکس لاہور میں پنجاب سٹوڈنٹ کونسل کی جانب سے جشن پنجاب منانے کے اعلانات سنے تو خوشی ہوئی کہ لیندا پنجاب کے نوجوانوں کی غیرت نے جوش مارا ہے۔ پروگرام تھا کہ 3 دسمبر کو جشن پنجاب میں ضرور جاؤنگا مگر دو، تین روز ان کی اشتہاری مہم دیکھ کر مایوسی ہونے لگی کہ یہ لونڈے لپاڑوں نے شغل لگانا ہے اس میں پنجاب کی ثقافت کہیں نہیں ہوگی اور پھر وہی ہوا۔
جشن پنجاب میں پنجاب کی کوئی بڑی شخصیت نظر نہیں آئی جو پنجاب سے جڑی ہو، حکومتی وزیروں، مشیروں کو مدعو کرنا جشن پنجاب کی ویسے ہی توہین سمجھتا ہوں کیونکہ ان کا پنجاب کی دھرتی کی ثقافت سے کوئی تعلق نہیں، ان کے احساسات، جذبات مر چکے ہیں، یہ سیاست میں اتنے اندھے ہوچکے ہیں کہ ان کو صرف حکومت سے غرض رہ گئی ہے۔ جشن پنجاب کی جو ویڈیوز دیکھی ہیں اس میں لونڈے لپاڑے سر پر پگیں پہن کر سٹیج پر اپنی تشہیر کرتے نظر آئے، سٹیج پر اتنا رش تھا کہ فنکار کی موجودگی کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا، سٹیج پر پنجاب سٹوڈنٹ کونسل کے "نام نہاد لیڈروں" کی بھرمار تھی، جشن پنجاب منانے کیلئے کوئی لوگو نہیں بنایا گیا تھا حالانکہ اس کا ایک خصوصی گانا تیار کرنا چاہئے تھے، بہتر ہوتا کہ جشن پنجاب میں پنجابی کے ادیبوں، شاعروں کو بھی مدعو کیا جاتا۔
جشن پنجاب میں چند میراثی اور پیشہ ور گلوکار بلا کر ہلہ گلہ کیا، پنجاب کی ثقافت کی عکاسی کہیں نظر نہیں آئی، نہ کسی نے ہیر پڑھی نہ وارث شاہ کا کلام گایا، کم ازکم کونسل کے ارکان کو پگ کیساتھ پنجاب کا روایتی لباس لاچہ (دھوتی) پہننی چاہئے تھی، پنجاب سٹوڈنٹ کونسل میں لڑکیاں بھی شامل ہیں بہتر ہوتا کہ وہ کوئی ٹیبلو یا پرانے گیتوں پر گدا ڈالتی تو شاید نئی نسل کو پنجاب کی ثقافت سے آگاہی ہو جاتی مگر وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس سے لوگ انہیں پینڈو اور اُجڈ سمجھیں گے۔ بہتر ہوتا کہ جشن پنجاب میں نئے فنکاروں کے گیتوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کے روایتی گیت بھی پیش کئے جاتے مگر ایسا نہیں کیا گیا اس کی وجہ صرف یہی ہے لیندا پنجاب کے لوگ خاص طور پر نوجوان اپنی دھرتی ماں سے جڑے ہوئے نہیں ہیں انہوں نے پنجاب کی دھرتی سے ناطہ تقسیم ہند کے بعد ختم کردیا تھا، جشن پنجاب صرف ہلہ گلہ اور ذاتی تشہیر کا ایجنڈا تھا جس کا پنجاب کی ثقافت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
نوٹ، بی اے پنجابی اور صحافت کیساتھ کیا، پھر ایم اے ماس کمیونیکیشن میں کیا، خواہش تھی کہ یہ بلاگ پنجابی میں لکھتا مگر نہیں لکھ سکا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ پنجابی پڑھنے والوں کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں ہوگی۔