Mard Ki Muhabbat, Shiddat Ki Inteha
مرد کی محبت، شدت کی انتہا
محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو اس کے اندر چھپی ہوئی گہرائیوں سے روشناس کراتا ہے۔ یہ مکمل فطری عمل ہے۔ کوئی اسے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔ یہ جذبہ جب ایک مرد کے دل میں جاگتا ہے تو یہ کسی ہلکی سی سرگوشی کی طرح نہیں ہوتا بلکہ گرجتے ہوئے سمندر جیسا ہوتا ہے، جس کی لہریں ہر چیز کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ یعنی یوں کہا جاسکتا ہے کہ مرد کی محبت بھی سمندر کی طرح موجیں مار رہا ہوتا ہے۔
مرد کی محبت صرف ایک احساس، ایک جذبہ اور جنون نہیں بلکہ ایک سلطنت ہے، ایک خود مختار سلطنت۔ وہ اپنی محبت یعنی سلطنت میں اپنے محبوبہ کو ایک ملکہ معظمہ کے درجے پر بٹھاتا ہے لیکن اسی محبت کے نتیجے میں وہ اس پر اپنی حکمرانی کا خواہاں بھی ہوتا ہے۔ حکمرانی بھی ایسی کہ اس کی سلطنت پر کوئی پر نہ مار سکے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی محبوبہ صرف اسی کی ہو، مکمل طور پر اس کے اختیار میں ہو اور اس کے جذبات اور خواہشات کے سوا کسی اور کے بارے میں نہ سوچے۔ یہ خواہش ایک طرف اس کی محبت کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہے، تو دوسری طرف اس کے اندیشے اور حسد کو بھی آشکار کرتی ہے۔ لاریب! مرد کی محبت بہت زہریلی ہوتی ہے۔ اتنی زہریلی کی اپنی محبوبہ کو ہی مار ڈالے۔
مرد کی محبت میں شدت دراصل اس کی محبت کی انتہا ہے۔ جب وہ کسی عورت سے محبت کرتا ہے، تو وہ اپنے دل کی دنیا کو صرف اس کے لیے مخصوص کر دیتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کی دنیا میں قدم رکھے، وہ مکمل اقتدار اعلیٰ کا مالک بننا چاہتا ہے اس محبت میں۔ یہ شدت اکثر عورت کے لیے غیر معقول یا جابرانہ لگتی ہے، مگر یہ محبت کی وہ انتہا ہے جہاں مرد اپنی ہر حد سے گزر جانے کو تیار ہوتا ہے۔ شاید مرد سے زیادہ محبت کوئی نہیں کرسکتا۔
یہ حقیقت ہے کہ عورت اپنی ذات میں ایک آزاد وجود کی حامل ہے۔ عورت فطرتاً آزاد منش ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی محبت اسے جکڑے نہیں بلکہ اس کے لیے سکون اور اعتماد کا باعث بنے۔ مرد کی یہ خواہش کہ عورت اس کے تابع ہو اور اس کی مرضی کے مطابق چلے، اکثر عورت کے دل میں بغاوت یا کراہت پیدا کر سکتی ہے۔ محبت میں اگرچہ جنون ضروری ہے، لیکن اگر یہ جنون عورت کی خوشیوں اور آزادی کو چھین لے، تو یہ محبت کے بجائے قید بن جاتی ہے اور مرد ہرحال میں عورت کو بری طرح کَسنا چاہتا ہے۔ قیدی بنانا چاہتا ہے، اتنی سخت جکڑ کا عادی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اس جکڑ سے عورت کرچی کرچی ہوتی ہے مگر مرد اپنی محبت کی انتہا پر ہوتا ہے اس لئے عورت کی بکھری کرچیاں اس کو نظر نہیں آتیں۔
مرد کی محبت کو صرف شدت یا خودغرضی کا نام دینا درست نہیں۔ اس محبت میں وفاداری، تحفظ اور بے پناہ قربانی کا جذبہ شامل ہوتا ہے اور اس جذبے میں مرد کے پاس کوئی قانون، اصول یا اقدار نہیں ہوتی۔ مرد جب محبت کرتا ہے، تو وہ اپنی محبوبہ کے لیے ہر ممکن قربانی دینے کو تیار رہتا ہے۔ وہ اس کی زندگی کی ہر مشکل کو اپنے کندھوں پر لینے کی کوشش کرتا ہے اور اسے ہر خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنے دل و جان سے لڑتا ہے۔ وہ پھر دودھ کی نہریں بہانے پر تُلتا ہے۔ بس سمجھو! یہ ایک گورکھ دھندہ ہے جو کم لوگوں کو سمجھ آتا۔
مرد کی محبت کو اگر حقیقی معنوں میں کامیاب بنانا ہو تو ضروری ہے کہ وہ اپنی محبت میں اعتدال اور ہم آہنگی پیدا کرے۔ محبت صرف اپنے جذبات مسلط کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور آزادانہ طور پر اپنی ذات کو مکمل کرنے کا نام ہے۔ اگر مرد اپنی محبوبہ کی آزادی اور خوشیوں کا احترام کرے اور اپنی محبت میں اعتماد کا عنصر شامل کرے تو یہ محبت جبر کے بجائے سکون کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن شاید حقیقی محبت کرنے والے مرد کے لیے یہ اعتدال والی باتیں بے کار ہوں۔ کیونکہ وہ اس معاملے میں انتہا پسند ہوتا ہے۔ ایک ایسی انتہا پر ہوتا ہے جہاں سے اترنا اس کے لئے ناممکن ہے۔
شاید یہی خصوصیات ہیں جو مرد کو "مجازی خدا" کا درجہ دیتی ہیں۔ اللہ نے بھی مرد کو قوام یعنی نگہبان قرار دیا ہے۔ اس کا یہ درجہ صرف اس کی شدت یا حکمرانی کی خواہش کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کی محبت کے اس گہرے جذبے کی وجہ سے ہے جو اسے اپنی محبوبہ کے لیے ہر حد سے گزرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ اپنی محبت میں وفاداری، ذمہ داری، قربانی، کفالت اور تحفظ کے وہ عناصر شامل کرتا ہے جو اسے ایک حقیقی محافظ اور چاہنے والا بناتے ہیں۔
مرد کی محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو شدت اور وفا کے امتزاج سے بنتا ہے۔ یہ محبت اگرچہ بعض اوقات غیر معقول یا جارحانہ لگ سکتی ہے، مگر اس میں ایک گہری حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ یہ جذبہ مکمل طور پر اپنی محبوبہ کے لیے وقف ہوتا ہے۔ اگر مرد اپنی محبت میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کرے، تو یہ محبت نہ صرف اس کے لیے بلکہ اس کی محبوبہ کے لیے بھی ایک ایسا سکون بن سکتی ہے جو دونوں کو زندگی کے ہر نشیب و فراز میں سہارا دے۔
ایک بات حتمی ہے کہ مرد اگر واقعی کسی عورت سے پیار کرتا ہے تو وہ حتمی اور کلی اختیار چاہتا ہے، ایسا اختیار جو اللہ کو اپنے بندوں پر ہوتا ہے۔ شاید یہ اس کی محبت کی انتہا ہے۔ وہ اس انتہا میں بھی شدت پسندی کا قائل ہے۔ اگر کوئی مرد ان باتوں سے انکاری ہے تو وہ محبت نہیں کمپرومائز کررہا ہے اور مرد کی محبت میں کمپرومائز کی گنجائش نہیں ہوتی۔