Sindh Police Ki Bahadur Beti
سندھ پولیس کی بہادر بیٹی

"پارس" ایک نایاب قیمتی پتھر کا نام ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جس چیز کو چھو لے، اسے سونا بنا دیتا ہے۔ یہ ایک ادبی اور روایتی عقیدہ ہے، حقیقی نہیں۔ اسی لیے "پارس" کو علامتی طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسے پارس صفت انسان، وہ شخص جو دوسروں کی زندگی بدل دے، پارس کا پتھر، خوش قسمتی، تبدیلی، قیمتی شے۔ لیکن۔۔ ذرا رکیں کیونکہ جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں، وہ کوئی افسانہ نہیں، کوئی دیو مالائی داستان نہیں، یہ حقیقت کا زخمی مگر روشن چہرہ ہے۔
یہ کہانی ہے ڈی ایس پی پارس باکھرانی کی ایک نوجوان خاتون افسر جس نے شکارپور میں ایک ایسے آپریشن کی قیادت کی جو کسی بھی ہالی ووڈ فلم کا سین ہوتا تو میڈیا پاگل ہو جاتا، ٹاک شوز کا خون کھول جاتا اور اینکرز کی آوازیں گونجنے لگتیں۔
لیکن یہاں سچائی میں کیا ہوا؟
پارس نے آپریشن کے دوران نو (9) خطرناک ڈاکوؤں کو جہنم واصل کیا۔ گولیاں چلیں، فائرنگ ہوئی، دھواں اٹھا، موت رقص کرتی دکھائی دی اور اسی آگ کے بیچ پارس اور اس کے شوہر ڈی ایس پی ظہور سومرو خود بھی شدید زخمی ہو گئے۔
آج پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر نو مسلح ڈاکو مارے؟ کتنی خواتین افسران ایسی مثالیں قائم کرتی ہیں؟ کتنے جوڑے ایک ساتھ مقابلہ کرتے ہیں؟
یہ کسی فلم کا سین ہوتا تو میڈیا اسے "تاریخی سیکوئنس" بنا کر دکھاتا۔ مگر ٹوئسٹ یہ ہے کہ یہاں پرانی بیماری پھر جاگ گئی۔ میڈیا کی پرانی بیماری تعصب، طبقاتی سوچ اور لسانی بالادستی۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا آج بھی 1980 کی اس ذہنی تقسیم میں پھنسا ہوا ہے۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد یہ تین شہر ہمارے میڈیا کے "گولڈن سینٹر" ہیں۔ ان کے باہر کی خبریں میڈیا کے لیے آکسیجن نہیں، صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ ہیں۔
پارس کا واقعہ شکارپور میں ہوا تھا ڈیفنس میں نہیں، گلشن میں نہیں، بحریہ ٹاؤن میں نہیں۔ اس لئے میڈیا کی آنکھوں پر پٹی رہی، کان بند رہے اور ڈیسک ایڈیٹرز کی ترجیحات وہی رہیں "چھوٹا شہر؟ اندر کا صفحہ دے دو"۔
لیکن اگر کراچی میں دو موبائل چور پکڑے جائیں، یا لاہور میں کسی بائیک والے کو گاڑی ٹکر مار دے، یا پشاور میں کوئی مجرم فرار ہو جائے تو بریکنگ نیوز، لائیو ٹکر، رپورٹر کی دوڑ، اینکر کی لمبی تقریریں اور اگلے دن ہر اخبار میں ہیڈ لائن۔ مگر سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر میں ایک لڑکی جی ہاں، لڑکی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نو ڈاکو مار دے؟ تو خبر کس صفحے پر آتی ہے؟
صفحہ نمبر 2 یا 3، ایک تین لائن کی خبر کے ساتھ۔ یہی تعصب اس ملک کے چھوٹے شہروں کے عوام کو میڈیا سے متنفر کر رہا ہے اور یہی تعصب معاشرے میں تقسیم بڑھا رہا ہے۔
ایک دفعہ کراچی میں ایک شیر شاھراء فیصل پر نکل آیا تو پورا میڈیا دیوانہ ہوگیا تھا۔ چار چار گھنٹے لائیو کوریج "شیر کہاں گیا؟"، "شیر اب کس گھر میں گھس گیا؟"
یہ شیر کسی وڈیرے کا لگ رہا ہے نہیں یہ کسی سرمایہ کار کا ہوگا، مگر یہاں ایک شیرنی، ہاں، شیرنی، نو (9)خونخوار انسان نما درندوں کو مار کر خود زخمی ہوگئی۔
اور یہ میڈیا، ھمارا یہ الیکٹرانک میڈیا تعصب، سرمایہ دارانہ سوچ اور لسانی بالادستی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔
ڈی ایس پی پارس باکھرانی نے نو ڈاکو مارے، خود گولیاں کھائیں۔ خاوند زخمی ہوا۔ خون بہا۔ لیکن میڈیا چینلز کی بے حسی نہیں ٹوٹی۔ کیوں؟ کیونکہ یہ واقع کراچی سے 500 کلومیٹر دور شکارپور میں پیش آیا۔ ڈیفنس اور گلشن اقبال یا گلستان جوھر میں نہیں۔
بہادری، قربانی اور جذبے کی یہ مثال کسی بھی میڈیا کی ہیڈ لائن بننے کے لیے کافی تھی، لیکن افسوس کہ ہمارے میڈیا نے اسے نظرانداز کیا اور وہ کسی اخبار کے دوسرے یا تیسرے صفحے پر چھوٹی سی خبر بنی، کیونکہ میڈیا کی چمکتی دمکتی دنیا میں تو ریٹنگ کا معاملہ ہوتا ہے تو شکار پور میں ان کو کیا ریٹنگ ملتی، ھم لوگ تو اپنا مفاد عزیز رکھنے والے کامیاب بزنس مین ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب ڈی ایس پی پارس باکھرانی جیسا واقعہ سامنے آتا ہے، تو پسماندہ علاقے کے لوگ پوچھتے ہیں: "کیا ہماری بہادری کا قصور یہ ہے کہ ہم کراچی یا لاہور یا اسلام آباد میں نہیں رہتے؟"
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ میڈیا کا کردار صرف خبر دینا نہیں، بلکہ ملک کو جوڑنا، احترام دینا، ہمت کو سراہنا اور قومی جذبے کو زندہ رکھنا بھی ہے۔ لیکن جب میڈیا خود تقسیم کا ذریعہ بن جائے تو پھر معاشرے کا زخم کون بھرے؟

