Roohani Dehshat Gardi Aur Maghrabi Media
روحانی دہشت گردی اور مغربی میڈیا

ہم مسلمان سادہ لوح لوگ ہیں اور ہم امریکہ اور مغرب کے مثالی معاشرہ کی مثالیں دیتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وہاں پر جھوٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور ایسا کلچرڈ معاشرہ ہے اور ہم مسلمان خاص کر ہم پاکستانی تو قابل ہی اسے سمجھتے ہیں جو دیدہ دلیری سے اور مہارت سے جھوٹ بول سکے اور ھمارے دینی مدارس میں تو پتہ نہیں کیا ہوتا ہے اور پاکستان تو child abused میں کافی بہت آگے جا رہا ہے۔
لیکن 12 دسمبر کے واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے ہماری تھیوری کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اخبار نے اپنی فرنٹ پیج رپورٹس میں ایک ایسی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے جسے کئی دہائیوں تک مذہبی تقدس کے پردوں میں دبائے رکھا گیا۔ یہ معاملہ صرف چند دہائیوں کا نہیں، بلکہ 80 برسوں کی اجتماعی اذیت، خاموشی، دباؤ اور نظامی ناکامی کی کہانی ہے۔
تحقیقات کے مطابق، 1940 سے 2020 کے درمیان میں جس میں امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں لاکھوں بچوں، لڑکوں اور لڑکیوں، دونوں کو ہزاروں پادریوں، بشپوں، چرچ کے منتظمین اور مذہبی اسکولوں کے ٹرینرز نےجنسی زیادتی، بدسلوکی اور خوف کے ماحول میں رکھا۔ یہ عالمی مذہبی تاریخ کا سب سے بڑا documented abuse network سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکومینٹڈ رپورٹس کے مطابق اس میں 70–75% پادری 25–30% مذہبی اسکول/چرچ کے ملازم، ٹرینر، رضاکار، نگران شامل تھے یعنی مسئلہ صرف افراد کا نہیں، بلک پورے سسٹم کا تھا اور آگے چلتے ہیں۔
امریکہ کی سب سے پرانی انشورنس کمپنی "Chubb" نے جو 1790 سے امریکہ اور یورپ کے ملکوں میں کام کررہی ہے، اس نے امریکہ کے مقدس ادارے چرچ کو، کسی عام امریکن اداکار، سیاستدان یا کسی ارب پتی کو نہیں کہا اس نے ڈائریکٹ اس معاشرے کی سب سے معتبر اور صاف وشفاف ادارے چرچ کو کہا کہ "چرچ نے جھوٹ بولا ہے اس لئے ہم اسے کلیمز نہیں دیں گیں" جی ہاں چرچ وہ جگہ ہے جہاں پر مغربی پاکیزگی کی انتہا ہوتی ہے ان کے بارے میں انشورنس کمپنی کہہ رہی ہے کہ چرچ کے منتظمین جھوٹ بول رہے ہیں۔
اس سے پہلے 2021 میں فرانس کی نیشنل کمیشن برائے جنسی استحصال نے ایسا انکشاف پہلے کر کی تھی، جس نے دنیا بھر کو لرزا دیا، رپورٹ کے مطابق 1940 سے 2020 تک، 216000 بچوں کا استحصال صرف پادریوں نے کیا ہے اور اگر چرچ کے دیگر عملے کو شامل کرلیں تو متاثرین کی تعداد تقریباً 330000 بنتی ہے۔ یہ تاریخ کی سب سے بڑی، سب سے جامع اور سب سے دردناک مذھبی تحقیق تھی۔ جو نسلوں سے اور دہانیوں سے چھپا ہوا تھا۔
امریکہ میں صورتحال اور بھی پیچیدہ تھی۔ 2002 میں بوسٹن میں سامنے آنے والے اسکینڈل نے "Spotlight Investigation" کے ذریعے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس رپورٹ کے متاثرین کون تھے، زیادہ تر متاثرین 9 سے 16 سال کے درمیان عمر والے لڑکے تھے۔ اس کے بعد کم عمر لڑکیاں۔ کچھ کیسز میں 6–7 سال کے بچے بھی شامل تھے۔
ایک فرانسیسی رپورٹ کے مطابق متاثرین میں 80٪ لڑکے، 20٪ لڑکیاں شامل تھیں۔ یہ تناسب اس لیے بھی زیادہ ہے کہ 1950–1990 تک چرچ کے زیرانتظام اکثر ادارے لڑکوں کے boarding schools تھے۔
دنیا بھر کے اخبارات نے مذہبی اداروں کی ساکھ کو ہلا کر رکھ دیا ہے، وہ ہے چرچ کے اندر بچوں اور نو عمر لڑکیوں و لڑکوں کے ساتھ جنسی استحصال کا سلسلہ ایک ایسا المناک سلسلہ جو نہ صرف مذہبی قیادت پر سوالات اٹھاتا ہے، بلکہ انسانی ضمیر پر بھی ایک گہرا دھبہ ہے۔ یہ مسئلہ کسی ایک ملک یا کسی ایک چرچ تک محدود نہیں رہا، اس نے عالمی سطح پر چرچ کی اخلاقی بنیادیں ہلا دیں اور پوری دنیا کو انصاف اور احتساب کے نئے سوالات سے دوچار کر دیا۔
یہ ایک سورج کی طرح کی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اخلاقی تباہی کے سب سے بڑے اسکینڈلز اگر کہیں ریکارڈ ہوئے ہیں تو وہ مغرب کے اپنے مذہبی اداروں میں ہوئے ہیں۔ کیتھولک چرچ، جو اخلاقیات کا پہرا دار بنا پھرتا ہے، اسی کے ہزاروں پادری دہائیوں تک بچوں کے خلاف بدترین جرائم میں ملوث پائے گئے۔
اربوں ڈالر کے تصفیے، سینکڑوں مقدمے، درجنوں آرچ ڈائیوسیز کا دیوالیہ مگر میڈیا کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ کیونکہ یہ اُن کے اپنے گھر کا مسئلہ ہے اور کوئی بھی قوم اپنے گندے کپڑے بیچ چوراہے پر نہیں سکھاتی۔ لیکن جیسے ہی کوئی مسلمان فرد غلطی کرے، پوری دنیا کو بتایا جاتا ہے کہ مسئلہ "اسلام" کا ہے۔
دنیا کے ہر شعبے، ہر ادارے، ہر مذہب، ہر معاشرے میں زیادتی کے واقعات کبھی نہ کبھی ہوتے رہے ہیں۔ لیکن کیتھولک چرچ کا یہ اسکینڈل، ہمہ گیر (global)، منظم (systemic)، طویل المدت (multi-decade) اداروں کی سطح پر دبایا ہوا۔ انتہائی بڑے پیمانے کا ہے اور اسی وجہ سے دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا مذہبی جنسی اسکینڈل مانا جاتا ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ زیادتی کسی بھی مذہب میں ہو سکتی ہے۔ مگر طاقت کے غلط استعمال، احتساب کی کمی اور ادارہ جاتی خاموشی نے کیتھولک چرچ کے اسکینڈل کو دنیا کا سب سے بڑا مذہبی جنسی بحران بنا دیا۔ عالمی سیاست میں اسلام دشمن بیانیہ 9/11 کے بعد مزید مضبوط ہوا 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ، نیٹو ممالک، اسرائیل اور مغربی اتحاد نے اسلام سے وابستہ گروہوں پر توجہ مرکوز کی جس سے مسلم شناخت کو "سکیورٹی رسک" کے طور پر فریم کیا گیا۔
یہ فریم اتنا مضبوط ہوا کہ مسلمان فرد کا جرم "اسلام کا جرم" بنا دیا جاتا ہے جرم "ذاتی بدکرداری" قرار دیا جاتا ہے۔ یہ Double Standard میڈیا اسٹڈیز میں "Selective Framing" کہلاتا ہے۔
کیتھولک چرچ کے اسکینڈلز مغرب کے اپنے ادارے ہیں، اس لیے میڈیا اتنا جارحانہ نہیں ہوتا۔ مغربی میڈیا ٹیکنالوجی اور انفلوئنس کے مراکز زیادہ تر غیر مسلم دنیا میں ہیں
دنیا کی سب سے بڑی میڈیا کمپنیاں CNN، BBC، Fox، New York Times، Reuters، Washington Post، Financial Times، Associated Press یہ سب مغربی ملکوں میں ہیں۔
عیسائیت اکثریتی مذہب ہے اور اسلام ایک اقلیتی، اجنبی اور غیر مانوس مذہب کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسی لیے اسلام سے متعلق خبروں کو "otherness" (اجنبیت) کی وجہ سے زیادہ نمایاں کیا جاتا ہے، کیونکہ میڈیا کی بنیادی حکمتِ عملی یہی ہے کہ غیر مانوس چیز عوام کے لیے زیادہ "خبر" بنتی ہے۔
اپنے اداروں کو میڈیا کبھی بھی دشمنانہ انداز میں نہیں پیش کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ، لاکھوں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز سامنے آئے۔ اربوں ڈالر کے مالی تصفیے ہوئے۔
پورے پورے چرچ بند ہوئےلیکن میڈیا نے کبھی "عیسائیت خطرہ ہے" جیسے بیانیے نہیں چلائے۔ اسلامو فوبیا ایک مضبوط، منافع بخش "انڈسٹری" بن چکی ہے۔
ورلڈ بینک، UNHCR، EU رپورٹس کے مطابق اسلاموفوبیا کی بنیاد پرکتابیں، آرٹیکلز، سوشل میڈیا سیاسی بیانیے، الیکشن کمپینز باقاعدہ منافع بخش انڈسٹری بن چکی ہے۔
اسلامی دنیا میں میڈیا کا عالمی اثر کم ہے۔ مسلم ممالک کے پاس بڑے نیوز نیٹ ورک، عالمی زبانیں، بین الاقوامی میڈیا تک رسائی محدود ہے۔ الجزیرہ (Al-Jazeera) ہی واحد ادارہ ہے جس نے عالمی سطح پر اثر قائم کیا، مگر اسے بھی اکثر سیکیورٹی رسک یا پروپیگنڈہ قرار دیا جاتا ہے۔
اسلام ایک تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے جو مغربی طاقتوں کے لیے بے چینی کا سبب ہے Pew Researchکے مطابق 2050 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا۔ یہ بڑھتا ہوا اثر سیاسی، ثقافتی، معاشرتی سطح پر مغربی اسٹیبلشمنٹ کو خوفزدہ کرتا ہے اور میڈیا اسی سوچ کا عکس بن جاتا ہے۔
کیا میڈیا اسلام کو واقعی "بدنام" کرتا ہے؟
عالمی سطح پر میڈیا میں اسلام کے بارے میں یہ فرق مذہبی نہیں، سیاسی، تاریخی اور معاشی بنیادوں پر قائم ہے۔ اسلاموفوبیا ایک "Story Model" ہے جسے میڈیا بار بار بیچتا ہے۔ لیکن جب کوئی مسلمان فرد جرم کرتا ہے تو یہ فوراً "اسلامک" مسئلہ بن جاتا ہے۔
یہ وہی دہرا معیار ہے جس نے سب کچھ جڑا ہوا ہے۔ جب ایک بیانیہ منافع دینے لگے تو اسے ختم کرنا کسی کے ہاتھ میں نہیں رہتا۔ یہ مان لینا چاہیے کہ دنیا میں میڈیا غیر جانبدار نہیں، بلکہ طاقتور کا ایجنڈا بولتا ہے۔ جب پادری زیادتی کرے تو یہ "misconduct" بن جاتا ہے، لیکن اگر کوئی مسلمان فرد جرم کرے تو پورا مذہب کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
یہی وہ ڈبل اسٹینڈرڈ ہے جس نے عالمی میڈیا کا اصل کردار بے نقاب کر دیا ہے۔ یعنی مسلمانوں کی غلطی "مذہبی تشدد" اور دوسروں کی غلطی "انفرادی حادثہ"۔
کیتھولک چرچ کا اسکینڈل جو کسی مذہب کے نام پر نہیں لکھا جاتا کبھی کسی مغربی اخبار نے یہ سرخی لگائی؟"Christian Pedophilia Crisis"، "Church-based Terror Against Children"، "Catholic Extremism" کبھی نہیں۔
کیوں؟ کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو معاشرہ سوال کرے گا، نظام ہلے گا، مذہبی تسلط کمزور ہوگا اور سب سے بڑھ کر اپنے چہرے سے نقاب اتر جائے گا۔ دنیا جھوٹ پر چل رہی ہے اور اس جھوٹ کی سب سے بڑی فیکٹری مغربی میڈیا ہے۔
ایسی فیکٹری جو خود کو "آزادیٔ اظہار کا محافظ" کہتی ہے، مگر حقیقت میں منافقت کا عالمی مرکز ہے۔

