Pakistani Cricket Ke Itne Deewani Kyun Hain
پاکستانی کرکٹ کے اتنے دیوانے کیوں ہیں

پاکستانی عوام کرکٹ کی اتنی دیوانی کیوں ہے اس کی پیچھے کیا سائنس ہے آئیے اس کا نفسیاتی اور معاشرتی پہلو دیکھتے ہیں۔ حالانکہ ھمارے ملک کا قومی کھیل ھاکی ہے لیکن ھم تو گوروں کا بنایا ہوا کھیل شوق سے کھیلنے اور دیکھنے کے شوقین ہیں۔
1947 میں جو برصغیر میں ھجرت کا سلسلہ شروع ہوئا تھا ان میں سے ایک بڑا طبقہ وہ تھا جو کہ وہاں ھندستان میں استحصال کا شکار تھا اور ان میں سے اچھے خاصے لوگ پنجاب، سندھ اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں تو ان میں کرکٹ دیکھنے اور کھیلنے کا شوق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور ان کے دیکھا دیکھی پوری قوم ہی اس بیماری میں جنون کی طرح مبتلا ہوگئی ہے اصل میں انسان کے اندر اللہ پاک نے جو DNA رکھا ہے وہ اس کی ساری عمر کی کارگزاری پر اثرانداز ہوتا ہے۔
اگر کسی انسان کی پرورش ٹارزن کی طرح جیسے ماحول میں ہو جو کہ ایک افسانوی کردار ہے تو اس انسان میں بلا کی بھادری آئے گی وہ نہ کسی شیر سے ڈرے گا اور نہ ہی کسی اور مخلوق سے، لیکن اگر آپ اسی انسان کی پرورش ایک بیگار کیمپ جیسے ماحول میں کریں تو اس سے بڑا کوئی ڈرپوک نہیں ملے گا جو کہ جو کہ اپنے آقا سے ھر وقت خوف کے سائے مبتلا رہے گا اور ان کی رہن سہن سے وہ خاندان کا سربراہ اور اس کے بچے بڑے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ گھر میں بات کریں گیں کہ میں نے بھی جو آج کافی پی ہے وہی ھمارے سیٹھ یا آقا پیتے ہے یا آج میں نے جو کوٹ پہنا ہے جو صاحب پہنتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
تو چلیں پھر آتے ہی اپنے اصلی عنوان پر۔
نفسیاتی لحاظ سے نوآبادیاتی (colonial) دور میں کھیلوں کو محض تفریح نہیں، بلکہ ایک طاقت اور برتری کے اظہار (Tool of Power and Superiority) کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
آئیے اس کو مزید قریب سے دیکھتے ہیں۔
انگریزوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ مقامی آبادیوں سے ثقافتی، اخلاقی اور جسمانی طور پر "برتر" ہیں۔ وہ خود کو مہذب بنانے والے (Civilizers) سمجھتے تھے۔ کرکٹ جیسے کھیل، جس میں"شرافت" (gentlemanliness)، "اخلاق اور "ضبط" پر زور دیا جاتا تھا، ان کے اس نظریے کی عملی تشہیر تھے۔ یہ کہا جاتا تھا کہ یہ کھیل کھیل کر مقامی لوگ انگریزوں کی "اعلیٰ اخلاقی اقدار" سیکھیں گے۔
برتری کی نفسیات (Psychology of Superiority) کا اظہار:
کرکٹ ایک ایسا کھیل تھا جو انگریز افسر، فوجی اور نوآبادیاتی اشرافیہ کھیلا کرتے تھے۔ اسے کھیلنا ایک امتیازی علامت (Status Symbol) تھا۔
جسمانی برتری: یہ دکھانا کہ وہ مقامی لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط، منظم اور قابل ہیں۔
ثقافتی برتری: یہ ثابت کرنا کہ ان کی ثقافت (جس کا حصہ کرکٹ ہے) دوسری ثقافتوں سے برتر اور قابل تقلید ہے۔
غلام ذہنیت (Colonial Mentality) اور تقلید:
نوآبادیاتی نفسیات کے مطابق، غلام ذہنیت رکھنے والی آبادیاں اپنے آقاؤں کے روپوں، اندازوں اور دلچسپیوں کی نقل کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ عمل ان کے ساتھ جڑے ہونے، ان جیسا بننے اور ان کی برتری کو تسلیم کرنے کا ایک اشارہ ہے۔
جب مقامی لوگ کرکٹ کھیلتے تھے، تو وہ درحقیقت اپنے آقاؤں کے بنائے ہوئے اصولوں اور framework کے اندر رہ کر کھیل رہے ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ کامیابی حاصل کرنے پر بھی وہ انہی کے قوانین کے تحت کامیابی حاصل کر رہے ہوتے تھے۔
اس طرح، یہ نہ صرف ایک کھیل تھا بلکہ ثقافتی تسلط کو برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ تھا، جہاں مقامی آبادی لاشعوری طور پر یہ تسلیم کر لیتی ہے کہ "آقا" کی ثقافت اور اس کے طریقے برتر ہیں۔
تقسیم کا ایک ذریعہ:
شروع میں کرکٹ کلب صرف انگریزوں کے لیے تھے۔ مقامی لوگوں کو شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ ایک نسلی علیحدگی (Racial Segregation) کو مضبوط کرتا تھا اور انگریزوں کے "exclusive club" کی حیثیت سے اپنی برتری کو ظاہر کرتا تھا۔ بعد میں جب مقامی لوگوں کو کھیلنے کی اجازت دی گئی، تو یہ علیحدگی پھر بھی برقرار رہی۔ ابتدا میں کرکٹ انگریزوں کی برتری کی نفسیات اور ثقافتی تسلط قائم رکھنے کا ایک ہتھیار تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ، ایک دلچسپ نفسیاتی تبدیلی آئی جب مقامی آبادیوں نے خاص کر اس کھیل کو اپنا لیا اور اسے (Resistance) اور قومی فخر کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا۔
جب پاکستان نے انگلینڈ کو ہرا کر 1992 کا ورلڈ کپ جیتا، تو اسے محض ایک کھیل کی جیت نہیں سمجھا گیا۔
اسے نوآبادیاتی تسلط پر فتح، غلامی کے دور سے آزادی اور اپنی برتری کے اثبات کے طور پر دیکھا گیا۔
اس طرح، وہی کھیل جو کبھی "آقا" کی برتری کا نشان تھا، اب "سابقہ غلام" کی طاقت اور شناخت کا سب سے بڑا نشان بن گیا۔
اور یہ بات خاص ھم پاکستانیوں پر ہی لاگو نہیں ہوتی، جہاں جہاں غلامانہ ذہنیت کے لوگ ھندستان، سری لنکا، بنگلادیش، ویسٹ انڈیزین رہتے ہیں وہاں یہ کھیل مقبول ہے اور آجکل تو انگریز سرکار سے صدیوں سے لڑنے والے ھمارے افغانی بھائی بھی اس گنگا میں بڑے رعب وتاب سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ھمارے ازلی دشمن سے پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔
(ویسے بائی دی وے جاتے جاتے یہ راز کی بات بھی آپ کو بتاتا چلوں آپ بھی کیا یاد کریں گیں لیکن اس شرط پر کہ یہ ذکر کسی سی نہیں کرنا کہ انگریز بھادر کی ڈریسنگ "پینٹ شرٹ " فخریہ پہن کر اور شلوار قمیص کو دوسرے درجے کا لباس قرار دینا بھی اسی طبقے کا طرہ امتیاز ہے)۔

