Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amir Mohammad Kalwar
  4. Nobel Inam 2025, Trump Ka Adhura Darawna Khwab

Nobel Inam 2025, Trump Ka Adhura Darawna Khwab

نوبل انعام 2025، ٹرمپ کا ادھورا ڈراؤنا خواب

آج نوبل انعام حاصل کرنا دنیا کی سب سے بڑی عزت سمجھی جاتی ہے۔ یہ ہمیں سکھاتا ہے کہ علم اور اچھے کام ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ اس انعام کی شروعات سویڈن کے ایک مشہور سائنس دان الفریڈ نوبل نے کی۔ وہ ایک ہزار آٹھ سو تیس اور تین میں پیدا ہوئے اور انہوں نے ڈائنامائٹ ایجاد کیا۔ لیکن جب لوگوں نے ڈائنامائٹ کو جنگوں میں تباہی کے لیے استعمال کیا تو الفریڈ نوبل بہت افسردہ ہوئے۔ انہوں نے سوچا کہ ان کا نام برے کام سے جُڑ گیا ہے، اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی ساری دولت انسانیت کے کام میں لگا دیں۔

ایک دن الفریڈ نوبل نے اخبار میں ایک غلط خبر دیکھی جس میں لکھا تھا: "ڈائنامائٹ کا موجد مر گیا، جس نے دنیا کو تباہی دی"۔

یہ پڑھ کر وہ بہت اداس ہوئے۔ انہیں احساس ہوا کہ لوگ انہیں تباہی لانے والا سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ دنیا کی بھلائی چاہتے تھے۔ اسی دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی دولت انسانیت کے کام میں لگائیں گے۔ جب وہ ایک ہزار آٹھ سو چھانوے میں وفات پا گئے تو اپنی وصیت میں لکھا: "میری جائیداد سے ایک فنڈ بنایا جائے جو ہر سال اُن لوگوں کو دیا جائے جو انسانیت کے لیے سب سے زیادہ کام کریں"۔

یوں ایک ہزار نو سو ایک میں پہلی بار نوبل انعام دیا گیا۔ ابتدائی طور پر نوبل انعام پانچ شعبوں میں دیا گیا تھا:

1۔ امن – وہ شخص یا تنظیم جو دنیا میں امن قائم کرنے میں کام کرے۔

2۔ ادب – بہترین لکھنے والے ادیب یا شاعر کو۔

3۔ طبیعات – طبیعیات کے میدان میں نمایاں کارکردگی پر۔

4۔ کیمیا – کیمیا کے میدان میں تحقیق پر۔

5۔ طب – انسانی صحت اور علاج کے میدان میں۔

بعد میں چھٹا انعام بھی شامل کیا گیا:

6۔ معیشت – یہ انعام ایک ہزار نو سو انسٹھ میں سویڈن کے مرکزی بینک نے شروع کیا۔

ایک ہزار نو سو ایک سے دو ہزار پچیس تک، نوبل انعامات تمام شعبوں میں چھ سو اٹھائیس بار دیے گئے ہیں۔ مزدوج و تنظیمی انعامات سمیت، کل ایک ہزار پندرہ افراد اور تنظیمیں انعام یافتہ ہیں۔ اب تک ایشیا کے تقریباً پینسٹھ افراد کو نوبل انعام مل چکا ہے۔

ایشیا میں جاپانی سب سے زیادہ ہیں (تقریباً بتیس)، اس کے بعد اسرائیل (بارہ)، بھارت (نو)، چین (آٹھ) اور پاکستان (دو) ہیں۔ اس سال دنیا میں دو سو چونتیس لوگ اور چونتیس تنظیمیں نوبل انعام کی دوڑ میں شامل تھیں۔ ان کے نام گزشتہ پچاس سال سے صیغہ راز میں رکھے جاتے ہیں اور ان کو مشتہر نہیں کیا جاتا۔ لیکن میڈیا والے بھی تاک میں رہتے ہیں اور بقول ان کے، اس دوڑ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے علاوہ یوکرائن کے صدر زیلنسکی، قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد اور سویڈن کی بائیس سالہ دوشیزہ گریتا تھنبرگ بھی شامل تھیں۔

یہ گروہ مشہور زمانہ پچاس جہازوں کے قافلے، جسے فلوٹیلا صمد کہا گیا، میں شامل تھا، جس میں چوالیس ممالک کے ہزاروں لوگ شامل تھے جو غزہ کے انسانوں سے اظہار ہمدردی کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ اس میں ہمارے پاکستان کے مشہور سینیٹر مشتاق احمد خان بھی شامل تھے۔

اب آتے ہیں اپنے کالم کے عنوان پر یعنی امریکی صدر ٹرمپ کی طرف۔ جیسا کہ اردو میں محاورہ ہے، "بلی کو خواب میں چھیچھڑے"، یہ محاورہ صدر ٹرمپ پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ ایک شخص جو کہ بلواسطہ یا بلا واسطہ افغانستان کی جنگ یا شام کی خانہ جنگی یا ایران کے نیوکلیئر تنصیبات پر حملے میں شامل رہا ہو، وہ کیسے امن کے نوبل انعام کے مستحق ہو سکتا ہے؟

اگرچہ ٹرمپ نے براہ راست یہ نہیں کہا کہ انعام ان کا حق ہے، لیکن ان کے بیانات اور سابقہ ریکارڈ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ نوبل امن انعام کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں باراک اوباما کے ایک ہزار نو سو نو میں ملنے والے نوبل انعام کو "کچھ نہ کرنے" کے بدلے میں دیا گیا قرار دیا تھا اور خود کو امن کے لیے سب سے زیادہ کام کرنے والا صدر پیش کیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان اسٹیون چونگ نے نوبل کمیٹی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "کمیٹی نے امن پر سیاست کو ترجیح دی"۔ لہٰذا، اگرچہ ٹرمپ نے یہ نہیں کہا کہ انعام ان کا حق ہے، لیکن ان کے بیانات اور ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نوبل امن انعام کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں۔

اس سال دو ہزار پچیس کا نوبل امن انعام وینزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا ماچادو کو دیا گیا ہے۔ انہیں یہ اعزاز وینزویلا میں جمہوریت کے فروغ اور آمریت کے خلاف پرامن مزاحمت کے لیے دیا گیا ہے۔ نوبل کمیٹی نے انہیں"جمہوریت کے لیے ان کی انتھک جدوجہد اور آمریت سے جمہوریت کی طرف منصفانہ اور پرامن منتقلی کی کوششوں" کے لیے سراہا ہے۔

ماچادو اس وقت وینزویلا میں روپوش ہیں، جہاں انہیں حکومت کی جانب سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ انہوں نے یہ انعام وینزویلا کے عوام اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو وقف کیا ہے، جنہوں نے ان کے بقول وینزویلا میں جمہوریت کے لیے دباؤ بڑھایا۔

اس سال امن انعام کے لیے ٹرمپ کے نام کی بھی افواہیں تھیں، خاص طور پر ان کے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تناظر میں۔ تاہم، نوبل کمیٹی نے ماچادو کو منتخب کیا اور اس فیصلے پر وائٹ ہاؤس نے تنقید کی، جسے انہوں نے "سیاست کو امن پر ترجیح دینا" قرار دیا۔

ماچادو کا یہ انعام وینزویلا میں جمہوریت کے لیے جاری جدوجہد کی عالمی سطح پر پذیرائی ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan