Chaye Ke Sehr Mein Doobi Tareekh
چائے کے سحر میں ڈوبی تاریخ

چائے، دراصل دنیا کی ایک قدیم اور دلچسپ کہانی کا حصہ ہے۔ آج ہم جس چائے کے ذائقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اس کا سفر ہزاروں سال پرانا ہے اور اس میں نہ صرف ثقافت بلکہ فلسفہ بھی چھپا ہوا ہے۔ چین کی سرزمین پر چائے کی ایجاد تقریباً 1500 قبل مسیح میں ہوئی، جہاں لوگ اسے ایک روحانی اور طبی مشروب کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ابتدائی چینی روایت کے مطابق چائے کے پتے صرف پانی میں ابالے جاتے اور انہیں دودھ یا شکرکے بغیر پیا جاتا تھا، تاکہ پتے کا اصل ذائقہ برقرار رہے۔ بعد میں گوروں کے ذریعے دنیا کے دیگر حصوں تک پہنچی۔ انگریزوں نے اس میں دودھ ڈالنا شروع کیا اور ہندوستان سمیت کئی ممالک میں یہی طریقہ عام ہوگیا اور رفتہ رفتہ چائے نہ صرف مشروب بلکہ ایک ثقافتی علامت بن گئی۔ آج بھی بھارت، چین، جاپان اور برطانیہ میں چائے کے اپنی روایات ہیں، جن میں چائے کی تقریب اور ذائقہ ایک اہم حیثیت رکھتے ہیں۔
سندھ کے لوگ بھی چائے کے بڑے شوقین ہیں بلکہ چائے کے بڑے رسیا ہیں اور ان کی دعوت تو چائے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ وہ اپنے مھمان کی خاطر مدارت میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے مرغن غذائیں، مچھلی یہاں تک کہ آپ مھمان کو بکرا کاٹ کر بھی کھلا دیا مگر چائے نہیں پلائی تو بعد میں کہیں بھری محفل میں یہ شکایت ضرور کریں گیں کہ فلاں کے پاس دعوت پر گئے تھے لیکن انہوں نے چائے ہی نہیں پلائی، تو ھمارے سندھ کی تو یہ روایت ہے، مھمان کو چائے پلائے بغیر نہیں چھوڑتے۔ آپ سندھ کے چھوٹے شہروں، گائوں میں جاکر دیکھیں، چائے کے ھوٹل بھرے ہوئے نظر آئیں گیں بلکہ اب تو سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کا بھی یہ حال ہے، یہاں پٹھان ہوٹلوں کی چائے تو سونے پر سہاگہ ہے آجکل اوطاق نامی ہوٹل کی بھی چائے بہت زیادہ پی جارہی ہے جوکہ پیالے میں پیش کی جاتی ہےجس پر سندھ کی ثقافت کندہ ہوتی ہے۔
چائے کے بغیر صبح یا شام کا لمحہ ادھورا ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے بڑے ذہن اور مشہور لوگ چائے کے شوقین رہے ہیں اور ان کے بارے میں دلچسپ کہانیاں موجود ہیں۔ تو ھم شروع کرتے ہیں برصغیر کی نابغہ روزگار شخصیت جی ہاں آپ سمجھ گئے ہونگیں میرا اشارہ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرف ہے، آغا شورش کشمیری اپنی کتاب قلمی چہرے میں لکھتے ہیں کہ "ابوالکلام ابوالکلام نہ ہوتے تو تاج محل ہوتے اور اگر تاج محل انسانی پیکر میں ڈھل جائے تو وہ ھرگز ھرگز ابوالکلام نہیں ہوسکتا"۔
مولانا آزاد چائے کے بہت بڑے شوقین تھے خاص طور پر اصل چینی چائے (جیسے سفید جیسمین چائے) ان کی پسند تھی۔ وہ چائے کو اس کے اصلی ذائقے کے ساتھ پینا پسند کرتے تھے یعنی چینی یا دودھ کے بغیر (صرف خالص چائے)، کیونکہ وہ مانتے تھے کہ دودھ اور شکر ملانے سے چائے کا اصل مزہ ختم ہو جاتا ہے۔
جب قید میں ان کے پاس وہ پسندیدہ چینی چائے ختم ہوگئی، تو وہ ہندوستانی پتی (black tea) پر مجبوراً گزارا کرتے رہے، جسے انہوں نے ذرا کم پسند کیا۔ مولانا آزاد صبح بہت جلدی بیدار ہوتے تھے اور سب سے پہلے چائے بناتے اور پیتے تھے۔ چائے ان کے لیے صرف ایک مشروب نہیں، بلکہ ایک خیال انگیز تجربہ تھی جہاں سے ان کی فکر، خیالات اور لکھنے کا سفر شروع ہوتا تھا۔ وہ تو جب بھی سفر کے لئے نکلتے اپنے ساتھ، اسپرٹ کاچولہا اور پانی کی کیتلی اپنے ساتھ رکھتے تھے (یہ بات انہوں نے خود اپنے خطوط پر مبنی مشھور کتاب "غبار خاطر" میں لکھتے ہیں۔
چائے کے شوق کا تعلق صرف ہندوستان یا چین سے نہیں بلکہ دنیا بھر میں کئی مشہور شخصیات نے اس کے لیے محبت ظاہر کی۔
لئو ٹالسٹائی (Leo Tolstoy) روس کے عظیم مصنف نے چائے کے ساتھ اپنے خطوط اور نوٹس لکھے۔ ان کے مطابق چائے نہ صرف توانائی دیتی بلکہ خیالات کو تازہ کرتی ہے۔
چارلس ڈیکنز (Charles Dickens) دنیا کے مشھور ناول نگار دن کے خاص اوقات میں چائے کے ساتھ تخلیق کرتے اور دوستوں سے گفتگو کرتے۔ ڈیکنز کے نزدیک چائے محبت اور تخلیق کا مشروب تھی۔
آگاتھا کرسٹی (Agatha Christie) مشہور برطانوی مصنفہ دن میں کئی بار چائے پیتی اور ناول لکھتے ہوئے اپنی پسندیدہ چائے کی پیالی ساتھ رکھتی۔ ان کے مطابق چائے خیالات کو ترتیب دیتی اور کہانی کے پیچ و خم کو سمجھنے میں مدد کرتی تھی۔
مہاتما گاندھی ہندوستانی رہنما کے لئے چائے کے گرد چھوٹے لمحات، گفتگو اور فکری غور و فکرکے لیے اہمیت رکھتے تھے۔
جارج اورویل (George Orwell) انگریزی مصنف بھی چائے کے شوقین تھے اور اسے تحریر کے عمل میں تحریک دینے والا ذریعہ سمجھتے تھے۔
چائے کی تاریخ اور مشہور شخصیات کے شوق سے یہ سبق ملتا ہے کہ چائے صرف جسمانی تسکین نہیں، بلکہ ایک ثقافتی، فکری اور روحانی تجربہ ہے۔ مولانا آزاد، ٹالسٹائی، ڈیکنز یا کرسٹی سب نے چائے کے ذریعے اپنے خیالات کو جلا دی، خطوط لکھے، کہانیاں تخلیق کیں اور اپنے روزمرہ کے لمحات کو خوشگوار بنایا۔
چائے کا ذکر ہو اور مجھ ناچیز کا نہ ہو تو یہ مجھ کمبخت کی ناکامی ہے، جی ہاں میرا ایک جملہ میرے حلقہ احباب میں کافی مشھور ہے کہ اگر رات کے دو یا تین بجے مجھے میری اہلیہ محترمہ، نیند سے جگا کر پوچھے کہ آپ چائے پئیں گیں تو کون کافر چائے کے لئے منع کرے گا، چائے پیوں گا اور پھر کروٹ بدل کر لیٹ جائوں گا۔

