Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Zimni Intikhabat Aur Siasi Imkanat

Zimni Intikhabat Aur Siasi Imkanat

ضمنی انتخابات اور سیاسی امکانات

یہ ملک ہمیشہ سے امکان کی سرزمین رہا ہے۔ یہاں سیاست کسی سیدھی لکیر پر نہیں چلتی بلکہ شطرنج کی بساط پر رکھے ان مہروں کی مانند ہے جن کی ایک چھوٹی سی حرکت پورے نقشے کو الٹ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گزشتہ روز کے ضمنی انتخابات بھی اسی بساط کی ایک ہلکی سی جنبش تھے، مگر ان کے اثرات آنے والے مہینوں میں سیاسی منظرنامے کو یکسر بدل سکتے ہیں۔ بات چھوٹی سی ہے۔۔ محض چند نشستیں۔۔ لیکن انہی نشستوں نے طاقت کا توازن بدل کر رکھ دیا ہے۔

ن لیگ کے چھ امیدواروں کی کامیابی محض عددی اضافہ نہیں، یہ وہ اشارہ ہے جو اقتدار کے مرکزی لان میں اگلی ترتیب کا پتا دے رہا ہے۔ اسی کامیابی نے مسلم لیگ ن کو پارلیمان میں ایک ایسی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے جہاں سادہ اکثریت کے لیے پیپلز پارٹی پر انحصار لازم نہیں رہا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی تمام تر تحفظات کے باوجود اقتدار کے ڈھانچے سے فوری طور پر باہر نہیں جائے گی مگر طاقت کا رشتہ، رویوں کی نرمی یا سختی، فیصلوں میں باہمی ضرورت کا احساس۔۔ یہ سب اب ایک نئی ترتیب میں ڈھلنے جارہے ہیں۔ سیاست کے دریچے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں، مگر ہوا کا رخ جب بدلنے لگے تو پرانے ساتھی بھی ایک دوسرے کو نئے زاویوں سے دیکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ پاکستانی سیاست میں کوئی دروازہ کبھی مکمل بند نہیں ہوتا۔ پرانے سیاسی کھلاڑیوں کو یہ سلیقہ بخوبی آتا ہے کہ کب لہجے میں سختی پیدا کرنی ہے اور کب مصالحت کی سبز چادر اوڑھ لینی ہے۔ اسی پس منظر میں مولانا فضل الرحمان کی اہمیت ایک بار پھر نمایاں ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ جب دو بڑی قوتیں ایک دوسرے سے تھوڑی سی خود کفالت حاصل کر لیں تو تیسرا کھلاڑی اچانک مرکزیت اختیار کر لیتا ہے۔ مولانا اسی سیاسی ریاضت کے پرانے استاد ہیں۔ جانتے ہیں کہ کس موقع پر قدم آگے بڑھانا ہے اور کب پیچھے ہٹ کر قیمت بڑھانی ہے۔

ممکنات کی سیاست کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں کوئی نتیجہ حتمی نہیں ہوتا۔ اگر، فرض کیجیے، پیپلز پارٹی کسی مرحلے پر حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لے تو موجودہ صف بندی فوراً متزلزل ہوجائے گی۔ اس صورت میں آئینی مناصب کے گرد بھی ہوا کا دباؤ بدل سکتا ہے۔ صدرِ پاکستان کے منصب تک تبدیلی کی بازگشت کوئی دور کی بات نہ ہوگی۔ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور یہ ملک تبدیلیوں کے اچانک باب کھلنے کی روایت رکھتا ہے۔

اور ہاں، ایک اور امکان جو سیاسی فضا میں آہستہ آہستہ گونج بن رہا ہے۔۔ نواز شریف کی دوبارہ فعال انٹری۔ سیاست میں واپسی کبھی مکمل ریٹائرمنٹ کے بعد نہیں ہوتی، بلکہ پس منظر میں موجود فیصلہ ساز ہمیشہ اپنے وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ ن لیگ کی حالیہ مضبوطی اس امکان کو تقویت دیتی ہے کہ اگلے چند ماہ میں پارٹی کے اندر کی حکمتِ عملی نئے ہاتھوں میں منتقل ہو، یا کم از کم اُن ہاتھوں کی گرفت مزید مضبوط ہوجائے جنہیں خاموش رکھا گیا تھا۔

سیاست کی یہی کشمکش ہمیں بار بار یاد دلاتی ہے کہ یہاں کوئی چیز مستقل نہیں۔ ہر فتح عارضی، ہر شکست عارضی، مگر جو مستقل ہے وہ طاقت کے اس کھیل کی وہ کشش ہے جو ہر کردار کو واپس کھینچ لاتی ہے۔ ضمنی انتخابات کے یہ چھ نتائج شاید کسی اور ملک میں محض ایک عددی تبدیلی ہوتے، مگر پاکستان میں یہ ایک نئے باب کی تمہید بھی ہو سکتے ہیں۔

بساط سیاست پر اگلی چال کس کی ہوگی؟ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔ مگر اتنا ضرور طے ہے کہ اگلے تین چار ماہ میں ہلچل بڑھے گی، لہجے بدلیں گے، اتحادی چونکیں گے اور ممکن ہے مہرے کسی نئی ترتیب میں جلوہ گر ہوں۔ یہی پاکستان کی سیاست ہے۔۔ غیر متوقع، مگر بےحد پیش گوئی طلب۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz