Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Waqt Nahi Guzarta, Hum Guzarte Hain

Waqt Nahi Guzarta, Hum Guzarte Hain

وقت نہیں گزرتا، ہم گزرتے ہیں

گزشتہ ماہ اپنے گھر کا گیٹ پینٹ کروانے سے پہلے پیکنگ کیلئے انگریزی اخبارات کی ردی میں سے بچے ہوئے ایک صفحہ پر موجود آرٹیکل میں ڈیوڈ بلئیر کی خیریت انگیز سٹوری نے مجھے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ سال 1912 کا اپریل، اٹلانٹک کے ٹھنڈے پانیوں میں ایک جہاز ڈوبا اور ساتھ ہی کئی خواب اور زندگیاں بھی۔ یہ ٹائٹینک کا حادثہ تھا، مگر اس کہانی میں ایک اہم شخص کا ذکر بہت کم ملتا ہے۔۔

ڈیوڈ بلئیر۔ ڈیوڈ ٹائٹینک کا فرسٹ آفیسر تھا، لیکن روانگی سے چند دن پہلے اسے عملے سے ہٹا دیا گیا۔ جاتے وقت اس کے پاس ایک چھوٹی سی چابی تھی۔ جہاز کے لاکر کی چابی، جس میں دوربینیں رکھی تھیں۔ وہ چابی وہ واپس کرنا بھول گیا۔ نتیجہ؟ پہرہ دار برفانی تودہ وقت پر نہ دیکھ سکے۔ ایک فیصلہ، ایک لمحے کی بھول اور 1500 جانیں پانی میں ڈوب گئیں۔ ڈیوڈ بلئیر ساری زندگی اس بات پر پچھتاتا رہا کہ کاش اس نے وہ چابی وقت پر واپس کر دی ہوتی۔

ہم میں سے اکثر اپنی زندگی کے ڈیوڈ بلئیر ہیں۔ ہمیں چابی ملتی ہے، مگر ہم وقت پر استعمال نہیں کرتے۔ کبھی رشتے کی، کبھی کاروبار کی، کبھی صحت کی اور پھر ساری زندگی "کاش" کہتے گزرتی ہے۔

قرآن میں سورۃ العصر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے"۔ مفسرین کہتے ہیں کہ اس میں اللہ نے وقت کے ضائع کرنے کو بھی سب سے بڑی خسارے کی وجہ بتایا۔ وقت محض گھڑی کی ٹک ٹک نہیں، یہ وہ کٹتی ہوئی سانسیں ہیں جو کبھی واپس نہیں آتیں۔

تاریخ میں وقت پر فیصلہ کرنے والوں اور نہ کرنے والوں کی کہانیاں بھری پڑی ہیں۔ اندلس میں مسلمانوں کی حکومت سات سو سال قائم رہی، لیکن جب سقوط غرناطہ کا وقت آیا تو سلطان ابو عبداللہ نے بروقت فیصلہ نہ کیا۔ وہ عیش و آرام میں وقت ضائع کرتا رہا، حتیٰ کہ اپنے شہر کی چابیاں دشمن کو خود پیش کر دیں۔ جاتے وقت اس کی ماں نے کہا: "جس سلطنت کا دفاع تم مردوں کی طرح نہ کر سکے، اس پر عورتوں کی طرح رو کیوں رہے ہو؟"

سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ فیصلہ جتنا دیر سے ہو، اس کا فائدہ اتنا کم رہ جاتا ہے۔ نفسیاتی تحقیق کے مطابق دماغ میں"ڈیڈ لائن ایفیکٹ" ہوتا ہے۔۔ جتنا قریب وقت آتا ہے، دماغ کا دباؤ بڑھتا ہے اور زیادہ دباؤ میں اکثر انسان صحیح فیصلہ نہیں کر پاتا۔

ایک جاپانی کہاوت ہے: "سب سے بہترین وقت درخت لگانے کا بیس سال پہلے تھا، دوسرا بہترین وقت آج ہے"۔ مگر ہم "آج" کو بھی کل پر ٹالتے ہیں۔ اسی لیے ہمارا کل، آج سے بھی بدتر نکلتا ہے۔

حدیث میں نبی کریم ﷺ نے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جاننے کی نصیحت فرمائی: "اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مالداری کو فقیری سے پہلے، فرصت کو مشغولی سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے"۔ (مشکوٰۃ)

یہ پانچوں چیزیں وقت سے جڑی ہیں اور ہم میں سے کتنے ہیں جو ان کی قدر وقت پر کرتے ہیں؟

پاکستان کی تاریخ میں بھی ایسے بے شمار مواقع آئے جب بروقت فیصلہ قوم کو بحران سے نکال سکتا تھا، مگر ہم نے دیر کر دی۔ 1971 میں کچھ فیصلے وقت پر ہو جاتے تو مشرقی پاکستان کا سانحہ شاید نہ ہوتا۔ 1992 میں پانی کے ذخائر بنانے کا فیصلہ ہو جاتا تو آج ہم پانی کی کمی کے دھانے پر نہ ہوتے۔

وقت کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ ایک رومی فلسفی کا قول ہے: "وقت ایک دریا ہے، تم اس میں دو بار قدم نہیں رکھ سکتے"۔ آج کا موقع، آج کا لمحہ، آج کا تعلق۔۔ یہ سب کل شاید نہ ہوں۔

میرے ایک دوست کی کہانی سنیں۔ وہ برسوں سے ایک کاروباری منصوبہ بنانے کی سوچ رہا تھا۔ ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ بناتا، کبھی سرمایہ کم، کبھی حالات ٹھیک نہیں۔ پھر ایک دن وہی منصوبہ اس کے ایک جاننے والے نے شروع کیا اور پانچ سال بعد سینکڑوں ملازمین رکھنے والی اپنی کمپنی کا مالک ہے۔ دوست آج بھی کہتا ہے: "کاش میں نے تب شروع کر دیا ہوتا"۔

فیصلے کا وقت ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ شک، خوف اور خطرات ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے، خطرہ لینے والا کبھی اتنا پچھتاتا نہیں جتنا موقع کھو دینے والا پچھتاتا ہے۔ وقت کی قدر صرف کیلنڈر یا گھڑی سے نہیں ہوتی، یہ ہمارے فیصلوں سے ہوتی ہے۔ فیصلہ جتنا جلد ہو، نتیجہ اتنا ہی طاقتور ہوتا ہے۔

اور ایک آخری بات۔۔ وقت نہیں گزرتا، ہم گزرتے ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari