Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Shadi Ke Baad Sudhar Jaye Ga?

Shadi Ke Baad Sudhar Jaye Ga?

شادی کے بعد سدھر جائے گا؟

پچھلے کمرے میں بیٹھی زینب نے اپنی ماں کی لرزتی آواز سنی تو اس کے دل میں جیسے برف سی پڑ گئی۔ دروازے کی اوٹ میں رکھی بوسیدہ کرسی پر بیٹھی وہ صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ اُس لڑکے کی وجہ سے پریشان تھی جس کے ساتھ اس کی منگنی ٹھہرائی جا رہی تھی۔۔ کاشف۔

گھر کے باہر کے صحن میں کاٹھ کی چارپائیوں پر براجمان اس کے والد، ماموں اور چچا جمع تھے۔ ماموں بڑے وثوق سے کہہ رہے تھے: "کاشف ذرا لاپروا ضرور ہے مگر شادی ہو جائے گی تو ٹھیک ہو جائے گا۔ ذمہ داری آئے گی تو خود ہی سنبھل جائے گا"۔

یہی وہ ایک جملہ تھا جو زینب کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہوگیا۔ زینب جب مجھے یہ بتا رہی تھی عین اس لمحے مجھے وہ کیس یاد آیا جو میں نے چند برس پہلے بطور وکیل لڑا تھا۔ ایک لڑکی جو کہ سرکاری سکول ٹیچر تھی اس نے اپنی شادی کے چھ ماہ بعد خلع کا دعویٰ دائر کیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ لڑکا ماں باپ کی امید کے مطابق "شادی کے بعد ٹھیک" نہیں ہوا تھا۔ وہی اوارگی، وہی راتوں کو دیر سے آنا، وہی بدتمیزی، وہی آوارہ دوستوں کی محفلیں، وہی چھڑی ہوئی زبان اور وہی ہنگامہ جو شادی سے پہلے تھا۔

عدالت میں لڑکی کی طرف سے جو بیان ریکارڈ ہوا وہ آج تک میرے ذہن پر نقش ہے: "میں کسی کا علاج نہیں، میں تو شریکِ زندگی ہوں۔ مجھے کسی کمزور، منتشر اور ناپختہ آدمی کی تربیت کے لیے نہیں لایا گیا تھا"۔ وہ کیس میں جیت تو گیا، مگر میرے دل میں ایک شکست رقم ہوگئی۔۔ ہمارے معاشرے کی شکست۔

اسی شکست کے سائے اُس روز زینب کے گھر کے صحن میں بھی منڈلا رہے تھے۔ کاشف کا باپ، داڑھی میں سفیدی لیے، تھکا ہارا مگر محبت سے مصلحت پسند لہجے میں بولا: "بس مولوی صاحب تاریخ رکھ دیں، بچے شادی کے بعد خود سمجھ جاتے ہیں۔ ہمیں بھی ماں باپ نے یوں ہی سیدھا کیا تھا"۔

یہ وہی تاریخی روایت تھی جس نے کتنی ہی لڑکیوں کے خوابوں کو چکنا چور کیا تھا اور کتنی ہی زندگیاں برباد کی تھیں۔ کسی جگہ پڑھا تھا کہ ہمارے گھروں میں بیٹوں کو محبت کی ایسی ننگی چھاؤں ملتی ہے جس میں کردار نہیں اگتا۔ ماں اس کی ہر غلطی ڈھانپ دیتی ہے، باپ اس کے ہر عیب پر پردہ ڈال دیتا ہے اور جب غلطیاں اور عیب اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ گھر کے ستون ہلنے لگتے ہیں تو سارا بوجھ کسی اور گھر کی بیٹی کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔

کاشف کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ وہ گھر کا لاڈلا، بےلگام، خودسری کا پجاری، دنیا سے بےخبر اور اپنی خواہشوں کا اسیر تھا۔ اسے کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ عورت بیوی ہوتی ہے، خادمہ نہیں۔ گھر ذمہ داری مانگتا ہے، بہانہ نہیں۔ عزت سیکھنے سے آتی ہے، شادی سے نہیں۔

مجھے عدالت میں ایسے کتنے ہی لڑکے دکھائی دیتے ہیں جن کے والدین نے اُن کی نفسیاتی بیماری کی جگہ شادی کو دوا سمجھ لیا تھا۔ کتنے ہی والد اپنی گواہی میں اعتراف کرتے ہیں: "ہم نے سوچا تھا بیٹا شادی کے بعد سدھر جائے گا"۔

مگر سچ یہ ہے کہ نکما پن، بدتمیزی، غیر ذمہ داری اور ذہنی بگاڑ کبھی ٹوٹے دل کی ڈولی میں بیٹھ کر رخصت نہیں ہوتے۔ یہ وہ گہرے سائے ہیں جو ساتھ جاتے ہیں اور دوسرے گھر کا اندھیرا بھی خرید لیتے ہیں۔ زینب شاید یہ سب نہیں جانتی تھی، مگر اس کی حساس آنکھوں نے اپنے مستقبل کے دھندلکوں کو صاف دیکھ لیا تھا۔

شام ڈھلی تو زینب نے مجھے دوبارہ فون کیا۔ اس کی آواز لرز رہی تھی: "عامر صاحب، کیا شادی واقعی کسی مرد کو بدل دیتی ہے؟"

میں نے بہت دھیرج سے جواب دیا: "نہیں بہنا، شادی کسی کو نہیں بدلتی۔ لوگوں کو تربیت بدلتی ہے، ذہن بدلتا ہے، ماحول بدلتا ہے۔ شادی وہ چیز ہے جس پر ذمہ داریوں کی مہر تبھی لگتی ہے جب انسان اندر سے تیار ہو"۔

اگلے دن زینب کے والد میرے دفتر آئے۔ وہ فکرمند تھے، مگر سماجی دباؤ نے اُن کی آواز سے اعتماد چھین رکھا تھا۔ چند برس پہلے انھوں نے زبانی کلامی زینب کا رشتہ اسکے کزن کے ساتھ پکا کر دیا تھا مگر اب حالات بدل چکے تھے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ آپ اپنی بیٹی کو کسی ایسے شخص کے قدموں میں نہ رکھیں جس نے ابھی تک اپنے ہی قدموں پر چلنا نہیں سیکھا۔

میں نے کہا: "صاحب، پہلے اس لڑکے کا علاج کرائیں۔ اس کا رہن سہن، بول چال اور رویہ سدھاریں۔ اسے کام سے جوڑیں، ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا سکھائیں۔ بیٹوں کی تربیت پہلے ہوتی ہے، شادیاں بعد میں۔ شادی تو اُسی درخت کا پھل ہے جو پہلے سے تناور ہو۔ کمزور درخت سے پھل کی امید صرف نادان رکھتے ہیں"۔

زینب کا نکاح ٹل گیا۔

رشتہ داروں نے کچھ تمسخر بھی اڑایا، کچھ طعنوں کے نشتر بھی چھوڑے، مگر ایک زندگی بچ گئی۔

دوسری جانب کاشف کی کاؤنسلنگ کی گئی۔ اسے ایک چھوٹی سی دکان پر نوکری دی گئی اور آہستہ آہستہ وہ معمولاتِ زندگی میں واپس آنے لگا۔ شاید کچھ عرصہ بعد وہ واقعی ایک بہتر رفیقِ زندگی بن سکے۔

جب بھی میں ایسے موضوعات پر لکھتا ہوں تو میرے اندر سے یہ سوال اٹھتا ہے: "کیا انسانوں کو رشتوں میں ڈال کر مرمت کیا جا سکتا ہے؟"

اور جواب ہمیشہ نفی میں آتا تھا۔

خدارا۔۔ اپنے نکمے بیٹے کو سدھارنے کے لیے کسی بےگناہ بیٹی کی زندگی کو تختہ مشق نہ بنائیں۔

رشتے مرہم ہیں، زخم نہیں۔ ان میں محبت خوبصورت لگتی ہے، بوجھ نہیں۔ یاد رکھیں: شادی علاج نہیں بلکہ ذمہ داری ہے اور ذمہ داری ہمیشہ اسی کے کندھوں کو جچتی ہے جو پہلے سے مضبوط ہو۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari