Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Sabr, Shukr Aur Qanaat

Sabr, Shukr Aur Qanaat

صبر، شکر اور قناعت

روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے عہدِ خلافت میں ایک شخص ان کے دربار میں حاضر ہوا۔ وہ غم سے نڈھال، چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔

عرض کیا: "اے امیرالمؤمنین! میرے حالات تنگ ہیں، رزق کم ہے اور دل بےچین ہے"۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے مسکرا کر فرمایا: "اگر تیرے دل میں قناعت آجائے تو تیرے گھر کی تنگی بھی جنت بن جائے گی"۔

پھر فرمایا: "اللہ نے رزق تقسیم کیا ہے، پریشانی نہیں۔ رزق تنگ ہو تو صبر کر، وسیع ہو تو شکر اور جو نہیں ملا، اس پر قناعت۔۔ یہی سکون کی کنجی ہے"۔

یہ الفاظ اس قدر اثر انگیز تھے کہ وہ شخص روتے ہوئے کہنے لگا: "اے خلیفہ وقت! آج میرا دل مالا مال ہوگیا، چاہے میری جھونپڑی ویسی ہی رہے"۔

یہی وہ فلسفہ ہے جو ہر دور کے انسان کے لیے ابدی سچائی رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب آدمؑ کو زمین پر اتارا تو صرف مٹی کا پیکر نہیں بھیجا بلکہ اس کے ساتھ تین انمول تحفے عطا کیے۔۔ قناعت، صبر اور شکر۔

یہی وہ تین ستون ہیں جن پر انسانیت کا سکون قائم ہے اور یہی وہ تین صفتیں ہیں جن کے بغیر دولت مند غریب بن جاتا ہے اور غریب بھی اگر ان پر قائم رہے تو بادشاہوں سے زیادہ امیر ہو جاتا ہے۔

قناعت دراصل دولت کا دوسرا نام ہے۔

یہ وہ خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: "قناعت وہ دولت ہے جس کے بعد کوئی فقر باقی نہیں رہتا"۔

لیکن افسوس کہ آج کے انسان نے خواہش کو ضرورت اور حرص کو کامیابی سمجھ لیا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ مزید حاصل کرنے میں خوشی ہے، حالانکہ حقیقی خوشی کم چیزوں میں اطمینان ڈھونڈنے کا نام ہے۔

صبر، انسان کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہ محض خاموشی کا نام نہیں بلکہ ایمان کی وہ طاقت ہے جو انسان کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے۔

قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: "بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"۔

حضرت ایوبؑ کی آزمائش یاد کیجئے، جن کے بدن پر زخم تھے، مال و اولاد چھن گئی، مگر زبان پر شکوہ نہ آیا۔ جب اللہ نے پوچھا: "اے ایوب! اب بھی صبر ہے؟"

تو عرض کیا: "پروردگار! تو نے دیا بھی تیرا، تو نے لیا بھی تیرا"۔

یہ وہ جملہ تھا جس نے انسان کو یہ سکھایا کہ صبر، صرف برداشت نہیں بلکہ اپنے رب کی رضا کیساتھ راضی رہنے کا نام ہے۔

اور شکر؟ شکر دراصل انسان کے ایمان کا پیمانہ ہے۔

اللہ نے فرمایا: "اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا"۔

یہ آیت محض وعدہ نہیں، زندگی کا اصول ہے۔ جو دل شکر ادا کرتا ہے، اس میں کمی نہیں ہوتی۔ شکر محض زبان کا لفظ نہیں بلکہ نظر کا زاویہ ہے۔ شاکر انسان وہی ہوتا ہے جو ہر حال میں اللہ کے فیصلے کو خیر سمجھتا ہے۔

حضرت داؤدؑ سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا: "اے رب! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، جب شکر کرنے کی توفیق بھی تیری نعمت ہے؟"

اور اللہ نے فرمایا: "اے داؤد! اب تو نے میرا شکر پورا کر دیا"۔

آج کے معاشرے میں یہ تین صفات ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم نے ہر چیز کے بدلے میں قیمت مانگنا سیکھ لیا ہے مگر قناعت کی قیمت ادا کرنے والا کوئی نہیں۔

ہم مصیبت میں بے صبری کرتے ہیں، خوشی میں شکر بھول جاتے ہیں اور ملنے پر ناز کرتے ہیں۔ ہم نے "الحمدللہ" کہنا عادت بنا لیا مگر محسوس کرنا چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ دل بھرے ہوئے ہیں، مگر روح خالی ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ جب ہارون الرشید کی سلطنت عروج پر تھی تو ایک درویش اس کے دربار میں آیا۔

اس نے پانی کا پیالہ اٹھایا اور کہا: "اے خلیفہ! اگر یہ پانی تمہیں نہ ملے تو تم کیا دو گے؟"

ہارون الرشید نے کہا: "آدھی سلطنت دے دوں گا"۔

درویش نے کہا: "اور اگر پینے کے بعد یہ پانی باہر نہ نکلے تو؟"

ہارون نے کہا: "پوری سلطنت دے دوں گا"۔

درویش مسکرا کر بولا: "اے بادشاہِ وقت! جس سلطنت کی قیمت صرف ایک گھونٹ پانی ہو، اُس پر غرور کیسا؟"

ہارون الرشید کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

یہی انسان کی اصل معراج ہے جو اللہ کی تقسیم پر راضی ہو جائے، جو ملنے پر شکر اور چھن جانے پر صبر کرے اور جو نہ ملنے پر بھی دل سے قناعت اختیار کرے یہی ایمان کی تکمیل ہے۔

کیونکہ دولت، شہرت، عزت۔۔ یہ سب فنا ہو جائیں گے۔

مگر جو دل قناعت، صبر اور شکر سے آباد ہو وہ کبھی خالی نہیں ہوتا۔

"اے انسان! جب تُو شکر کرنا سیکھ لے گا۔

تو تیرے دکھ بھی عبادت بن جائیں گے۔

اور تیرے آنسو تیری دعا بن جائیں گے۔ "

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz