Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Mangi Hui Zindagiyan

Mangi Hui Zindagiyan

مانگی ہوئی زندگیاں

رات کی خاموشی میں کھڑکی کے پردے سے چھنتی ہوئی چاندنی یوں کمرے میں پھیل رہی تھی جیسے کسی نے دودھ کی پتلی تہہ پورے فرش پر انڈیل دی ہو۔ اس نیم تاریکی میں اماں جی نورنشاں اپنی آخری سانسوں کے سائے میں لیٹی تھیں۔ نورنشاں نے کیا بھرپور زندگی گزاری، ساری زندگی پورے خاندان پر گویا راج کیا تھا۔ انکی زندگی میں مجال ہے کہ گھر کا پتا بھی انکی اجازت کے بغیر ہل جائے۔ مگر اس وقت انتہائی نخیف حالت میں بستر مرگ پر تھیں۔

سانس اوپر نیچے ہوتا، کبھی تیز پڑ جاتا، کبھی جیسے راستہ بھول کر تھم جاتا۔ ان کے بستر کے گرد پورا خاندان جمع تھا۔ بیٹیاں سہمے ہوئے چہروں کے ساتھ سورۃ یٰسین پڑھ رہی تھیں اور بیٹے خاموش کھڑے اپنی ماں کی جھریوں میں لکھی ہوئی پوری زندگی کی کہانی پڑھ رہے تھے۔ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں دیوار کے ساتھ لگے حیرت سے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں اماں جی نورنشاں نے لرزتی ہوئی آواز میں ایک خواہش ظاہر کی۔۔ ایک ایسی خواہش جس کا بوجھ ان کی سانس سے بھی زیادہ بھاری تھا۔

"رمیض کی شادی، بشریٰ کی بیٹی سے کر دینا، میری آنکھوں کے سامنے"۔

یہ کہتے ہوئے ان کی آواز میں وہ کمزور خود ترسی ہوتی ہے جو مرتے وقت انسان کو اپنی خواہشوں کا آخری حساب کتاب یاد دلاتی ہے۔ کمرے میں موجود سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ اماں جی سے کہہ دے کہ لڑکا لڑکی دونوں الگ مزاج رکھتے ہیں۔ ایک شہر کی پڑھا لکھی جبکہ دوسرا گاؤں کا کم گو، ایک کے خواب رنگوں سے بھرے جبکہ دوسرے کی زندگی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی۔ مگر کون بزرگ کی آخری خواہش کے سامنے زبان کھولتا؟

کچھ دن بعد اماں جی اس دنیا سے چلی گئیں۔ ان کا جنازہ اٹھا تو ساتھ ہی اس خواہش کا بوجھ بھی اٹھایا گیا جو انہوں نے جانے سے چند دن پہلے سب پر ڈال دی تھی۔ خاندان نے اسے "بزرگ کا حکم" سمجھتے ہوئے پورا کر دیا۔ نکاح پڑھا دیا گیا۔ رسم پوری ہوئی۔ ہاں، مگر زندگی برباد ہوگئی۔

رمیض اور عائشہ کی کہانی یوں تھی جیسے کسی کتاب کے دو بے ربط اوراق زبردستی اکٹھے باندھ دیے گئے ہوں۔ دونوں کے درمیان باتیں پھولتی نہیں تھیں، ہنسی کم اور خاموشیاں زیادہ تھیں۔ کچھ دن تو سب نے مصلحتاً ماحول کو مصنوعی خوشیوں سے بھرنے کی کوشش کی مگر ایک لمحہ آتا ہے جب دل تھک جاتا ہے اور سچائی انکار کے دروازے توڑ کر سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ سچائی یہ تھی کہ یہ رشتہ دو انسانوں کی مرضی سے نہیں، کسی دم توڑتی خواہش کے بوجھ پر تعمیر کیا گیا تھا۔

گھر میں تنازعے شروع ہوئے۔ باتیں طعنوں تک پہنچیں اور طعنے تلخیوں تک۔ پھر وہی ہوا جو ایسے بےجوڑ نکاحوں میں اکثر ہوتا ہے۔ میاں بیوی میں علیحدگی ہوئی اور عائشہ کی جانب سے وکالت کیلئے میری خدمات حاصل کی گئیں اور یوں معاملہ عدالت تک پہنچا۔ دو خاندانوں کے درمیان خاموش جنگ اب گویا عدالت تک آن پہنچی تھی۔ رمیض کی ماں نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی کہ "ماں باپ کی مرضی میں برکت ہوتی ہے" مگر وہ یہ بھول گئیں کہ برکت وہاں ہوتی ہے جہاں محبت اور مطابقت ہو، جہاں دو انسان ایک دوسرے کو قبول کریں، نہ کہ جہاں فیصلہ کسی ایسے شخص کے جاتے جاتے دہلیز پر رکھے گئے آخری جملے سے پیدا ہو جو خود اس فیصلے کے نتائج دیکھنے کے لیے اس دنیا میں موجود ہی نہ رہا۔

عائشہ بھی اندر ہی اندر ٹوٹ چکی تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ کاش کسی نے اماں جی کی خواہش پوری کرنے سے پہلے ایک لمحے کو اس کی خوشی کے بارے میں پوچھ لیا ہوتا۔ کاش کسی نے یہ سوچ لیا ہوتا کہ زندگی صرف شادی کے دن کی تصاویر اتروانے کا نام نہیں، یہ ہر روز کے اٹھنے بیٹھنے، بات کرنے، برداشت کرنے، سمجھنے اور جھیلنے کا نام ہے۔

ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے کئی گھر ہیں جہاں رشتے محبت یا عقل سے نہیں، بلکہ "بزرگ کی خواہش" سے بنتے ہیں۔ وہ خواہش جو کبھی کبھی ایک پورا گھر ہی لے ڈوبتی ہے۔ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ آخری سانسوں پر لٹکے ہوئے شخص کی خواہش رد کرنا گناہ ہے۔ مگر یہ نہیں سوچتے کہ اس خواہش کے بوجھ تلے دو زندگیاں دائمی اذیت کا شکار ہو جائیں تو یہ بڑا گناہ ہے یا نہیں؟

آپا بانو قدسیہ کہتی تھیں کہ رشتے جبر سے نہیں، نرمی سے پروان چڑھتے ہیں اور نرمی وہیں جنم لیتی ہے جہاں مرضی، اختیار اور رضامندی ہو۔ لیکن ہم ایک ایسی نسل ہیں جو محبت کو توڑ کر بھی "بزرگ کا احترام" بچانا چاہتی ہے، حالانکہ احترام کبھی کسی کی زندگی برباد کرکے حاصل نہیں ہوتا۔

زندگی بدل چکی ہے۔ آج کے بچے مہذب رویوں کے ساتھ اپنی پسند کا اظہار بھی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں، پڑھتے ہیں، دنیا کو دیکھتے ہیں۔ وہ پہلے کی نسلوں کی طرح خاموشی میں جبر سہنے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔ مگر کچھ خاندان اب بھی وقت کو پچاس برس پیچھے کھڑا دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک بچوں کی زندگی کے فیصلے ایسے ہیں جیسے زمین کا ٹکڑا بانٹ دیا جائے۔۔ نہ پوچھنے کی ضرورت، نہ بتانے کی۔

ہماری تمام تر مصالحتی کوششوں کے باوجود رمیض اور عائشہ آخر کار الگ ہو گئے۔ خاندان بکھر گیا۔ ماں باپ کی نظریں جھک گئیں اور دونوں وہ زخم لے کر زندگی میں آگے بڑھے جو کسی دشمن نے نہیں، بلکہ اپنے ہی بزرگ کی آخری خواہش نے دیے تھے۔

یہ تحریر اس لیے نہیں کہ بزرگوں کا احترام کم ہو بلکہ اس لیے کہ ان کو سمجھایا جائے کہ احترام کا یہ مطلب نہیں کہ آپ جاتے جاتے ایک پوری نسل پر آزمائش تھوپ جائیں۔

آج کے زمانے میں محبت اور مطابقت کے بغیر نکاح محض ایک زنجیر ہے اور جو زنجیر ذہنی ہم آہنگی سے نہ بنی ہو، وہ ایک نہ ایک دن ٹوٹ ہی جاتی ہے۔

اللہ ایسے بزرگوں کو ہدایت دے جو سمجھ نہیں پاتے کہ دلوں کے معاملے دعاؤں سے چلتے ہیں، وصیتوں سے نہیں اور زندگی وہ سفر ہے جس پر زبردستی بٹھایا ہوا مسافر کبھی منزل پر نہیں پہنچتا۔ وہ بس تھک کر راستے میں کہیں گر پڑتا ہے اور اس کا بوجھ پھر آنے والی نسلیں اٹھاتی رہتی ہیں۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz