Betian Aisi Hoti Hain
بیٹیاں ایسی ہوتی ہیں
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے مجھے لوئر کورٹ کی وکالت کرتے ابھی ایک ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرا تھا۔ آج بھی یاد ہے یہ گرمیوں کے دن تھے شاید اپریل مئی کا مہینہ تھا۔ اس دن دفتر میں ہی موجود تھا جب دوست کے ریفرنس سے ایک غریب ملزم کا کیس میرے پاس آیا۔ وہ دوست ایک معروف این جی او میں بطور ڈسٹرکٹ کوارڈینٹر کام کرتا تھا۔
اس نے کیس کی جو تفصیلات بتائیں اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ملزم کی شادی اپنے رشتہ داروں میں ہوئی تھی۔ شادی کے چند سال بعد اس کا اپنی بیوی کےساتھ کچھ لڑائی جھگڑا شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں بیوی ناراض ہو کر میکے جا بیٹھی۔ کیس عدالت بھی گیا۔ بیوی نے خرچہ نان و نفقہ کا دعویٰ کیا جو سول کورٹ میں زیرِ سماعت رہا۔ دونوں خاندانوں میں جائیداد کی تقسیم پر جھگڑا ہوا، لڑائی مارکٹائی ہوئی۔
فریقین نے ایک دوسرے پر جھوٹے سچے پولیس مقدمات بنوائے۔ میرے کلائنٹ کی نسبت فریق ثانی مالی لحاظ سے مضبوط تھا لہٰذا وہ تمام لوگ ضمانت پر رہا ہو گئے۔ میرا کلائنٹ مالی طور پر کمزور تھا ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں مگر فیس کی عدم دستیابی کی بناء پر وکیل کو آگے جاری نہ رکھ سکا۔ اس کے بعد کیس کی درست طور پر پیروی نہ کی گئی جس بنا پر تقریباً چھ ماہ سے ناکردہ جرم میں جیل کے اندر تھا۔
میں نے صرف اس کے فوجداری مقدمہ میں پیش ہونا تھا۔ لہٰذا فائل تیار کروا کر وکالت نامے پر اپنے کلائنٹ سے دستخط کروانے کے بعد عدالت میں داخل کروا دی۔ دوسری عدالتی پیشی پر میرے کلائنٹ کو جیل سے پیشی کےلئے لایا گیا۔ پیشی کے بعد وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا:"میری چار سالہ بیٹی عفرا کو مجھ سے ملوا دیجئے۔ میں اس کو دیکھنے کےلئے ترس گیا ہوں "۔
میرا چونکہ ان کے فیملی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا لہٰذا پہلے تو میں نے انکار کر دیا مگر اپنے کلائنٹ کے اصرار پر میں نے اپنے فاضل دوست سے درخواست کی کہ اپنے کلائنٹس سے کہیں ایک بار انھیں ان کی بیٹی کےساتھ چند لمحوں کےلئے ملوا دیں کیونکہ ملاقات کو کافی عرصہ گزر چکا تھا۔ انھوں نے مثبت جواب دیتے ہوئے اس کی بیوی کی طرف اشارہ دیا۔ اس کی بیوی بھی ہر پیشی پر اپنے بھائیوں کےساتھ عدالت آتی تھی۔
اس کی بیوی نے کہا کہ وہ بیٹی کو ایسے نہیں ملوا سکتی۔ باپ اپنی بیٹی کو عدالت سے باہر ملنا چاہتا تھا لہٰذا دونوں ہاتھ جوڑ کر منتیں ترلے کرنے لگا، "خدا کے واسطے بس ایک بار مجھے اپنی بیٹی کو سینے سے لگانے دو"۔ مگر اس کی بیوی نہ مانی۔ وہ مسلسل اور بار بار منتیں کرتا جا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کی بیوی کو دوبارہ تھوڑا سختی سے کہا کہ جب آپ کا وکیل کہہ رہا ہے تو بیٹی کو باپ سے ملانے میں کیا امر مانع ہے؟
کچھ لعیت و لعل کے بعد بالآخر وہ مان گئی کہ اگلی پیشی پر اس کی بیٹی کو ساتھ لے کر آئے گی۔ چند دن کے بعد اگلی پیشی تھی۔ عدالتی پیشی کے بعد بخشی خانے کے پاس اس کی بیٹی کےساتھ اس کی ملاقات کا میں نے خصوصی انتظام کروا دیا تھا۔ باپ بیٹی کی ملاقات کا وہ جذباتی منظر جس جس نے دیکھا ہر آنکھ اشکبار تھی۔ دونوں دھاڑیں مار مار کر روئے جا رہے تھے۔
باپ بیٹی کی لازوال محبت کا وہ سین آج بھی میرے دل پر نقش ہے جو اکثر آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح چلنے لگتا ہے۔ بچی کے سر پر ہاتھ پھیر کر میں نے بخشی خانے کی طرف اشارہ کیا "وہ تمہارے ابو ہیں جاؤ جا کر مل لو"۔ سلاخوں کے پیچھے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس باپ کو دیکھتے ہی بچی نے اس کی طرف دوڑ لگا دی۔
چار سال کی گول مٹول گوری چٹی معصوم سی بچی سلاخوں کو ٹکریں مارتے ہوئے باپ کے چہرے اور ہاتھوں کو مسلسل چومے جا رہی تھی ساتھ ساتھ روئے جا رہی تھی۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ بچی کی سسکیاں میرے کانوں میں ہتھوڑے بن کر برس رہے تھے۔ ملاقات کا وقت مختصر ہوتا ہے لہٰذا میں نے اس کی بیوی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ اپنی بیٹی کو لیجا سکتی ہے۔
بیٹی نے باپ کا دامن چھوڑنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ باپ کےساتھ جیل میں جائے گی۔ بہت مشکل سے بچی کو منایا کہ چند دن بعد تمہارے باپ کو جیل سے باہر لے آؤں گا۔ بیٹی مان گئی لیکن اگلا منظر اس سے بھی زیادہ کربناک تھا۔ بچی کے ننھے منے ہاتھ میں دس روپے کا پسینے سے بھیگا ہوا تُڑا مڑا نوٹ تھا جو اس نے پاپ کی طرف بڑھا دیا۔ یہ دیکھنا تھا کہ باپ داڑھیں مار مار کر زاروقطار رونے لگا۔
بڑی مشکل سے کھینچ کر بچی کو اس کے باپ سے جدا کیا۔ واپس جاتے ہوئے للچائی ہوئی نظروں سے مُڑ مُڑ کر باپ کی طرف دیکھ رہی تھی جس کی ریگستان آنکھوں سے صاف نظر آ رہا تھا کہ محبت کی پیاس اب بھی باقی تھی۔ اگلی پیشی پر بیٹی کو بھی لایا گیا۔ الحمد للہ اللہ پاک نے شرم رکھی اور کچھ ہی دن بعد اس کے باپ کو ضمانت پر رہا کروا دیا۔ آج تقریباً دس سال گزرنے کے باوجود وہ منظر مجھے کبھی نہیں بھولا۔