Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Shan Mughal
  4. Islami Jamhooria Pakistan

Islami Jamhooria Pakistan

اِسلامی جمہوریہ پاکستان

مُلک کا نام ہے " اِسلامی جمہوریہ پاکستان"۔ جہاں اسلام ویران مساجد میں مقفّل ہے تو جمہوریت ایوانوں میں پڑی آئین کی بند کتاب میں قید۔ اب یہ مُلک اِسلامی رہا اور نہ جمہوری۔ اور رہی بات لفظ "پاکستان" کی تو بعید نہیں کہ یہ لفظ بھی مستقبل قریب میں لبرلزم کی بھینٹ چڑھ جائے گا اور اِس پاک لوگوں کی سر زمین میں پاک لوگ ناپید ہو جائیں گے تو اب اصولاً اربابِ اختیار سے یہ مطالبہ بنتا ہے کہ یا تو اِس مُلک کا نام تبدیل کر دیا جائے یا پھر یہاں کے باسیوں کے افکار و اعمال۔ جس ریاست کے سربراہ موروثی سیاست کے علمبردار ہوں، جس ریاست کے عُہدے دار غیر زمہ دار، ڈاکٹر بے حِس، وکیل بے ایمان اور جج صاحبان رشوت ستانی کی دلدل میں دھنس چکے ہوں، جس ریاست کی عدلیہ کو انصاف کی بالا دستی سے ذیادہ مخیّر حضرات کو مراعات دینے کی فکر ہو۔ جس ریاست کے ایوان مچھلی بازار اور ادارے مقبوضہ عمارتوں کا منظر پیش کر رہے ہوں۔

جس ریاست کے تعلیمی ادارے عِلم سکھلانے کی بجائے فرنگی کی پرچار کر رہے ہوں، جس ریاست کے پڑھے لکھے افراد بے راہ روی کا شکار ہو چُکے ہوں۔ جس ریاست کا مرد عورت کی عزت کی پامالی کو اپنا جائز حقّ سمجھتا ہو۔ جس ریاست کی عورت نیم برہنہ لباس پہننے اور مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے (در اصل بے حیائی)کو فرنگی قانون سے ثابت کرتی ہو۔ جس ریاست میں جگہ جگہ عصمت فروشی کے اڈے ہوں اور عورتیں گھروں کی زینت بننے کی بجائے بازاروں کی رونق بننے میں فخر محسوس کرتی ہوں۔

اور خُدا کا قہر کہ... جِس ریاست میں بوڑھی ماؤں کی سالمیت اور معصوم بچیوں کی عزت تک محفوظ نہ ہو ایسی ریاست کو آپ کیوں کر ایک "اسلامی ریاست" کا نام دے سکتے ہیں ...؟ میں تو کیا کوئی بھی ذی شعور اِنسان اِس منطق کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ دِکھنے میں تو یہ بہت ہی دِلکش بات معلوم ہوتی ہے لیکِن حقیقت سے اس کا دور دور تک کُچھ تعلق نہیں۔

المیہ یہ ہے کہ نظریاتی معمار ایک ایسی قوم سے مہذّب معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جہالت جِس کی رگوں میں سرائیت کر چکی ہے اور کاہلی جِس کا شیوہ ہے۔ جہاں چند دمڑیوں کے عوض ضمیر بِک جائیں وہاں کیسا معاشرہ اور کہاں کی معاشرتی اقدار ؟ اور جہاں تک سوال ہے مُلکی سیاست کا تو منطقی بنیادوں پر کیا جانے والا تجزیہ یہ ضرور بتائے گا کہ اس "جمہوری مُلک" کے صفِ اوّل کے سیاست دان جمہوریت کے سفّاکانہ قتل کے در پے ہیں۔ اِن مفاد پرستوں کو اس مُلک کی فنا و بقا سے کُچھ سروکار نہیں اِنہیں فکر ہے تو محض اپنے اُلّو کی کہ کیسےسیدھا کیا جاۓ۔ اِنہیں عوامی ردِ عمل کی چابُک کی بھی کچھ پرواہ نہیں کہ وہ چابک تو تب چلائیں نا جب اُنہیں کچھ نظر آئے۔ اِن چال بازوں کے نزدیک اعوام شطرنج کی میز پر پڑے بے جان مُہروں میں سے ایک مُہرا ہے جسے وہ جب چاہیں گے اشارۂ اَبرو سے تحریک دے دیں گے اور جب چاہیں گے اُنگلیوں کے دباؤ سے منجمد کر دیں گے۔ اِن میں جانوروں کی سی خصلت بھی پائی جاتی ہے کہ احساسِ ہمدردی سے محروم ہیں۔ یہ ایک لمحے میں اعوام کو رُلانے کا سامان کرتے ہیں تو دوسرے ہی لمحے اُن کے غم میں برابر کے شریک بھی نظر آتے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب بلا کے فنکار بھی ہیں، اِن کے ساتھ کھڑے اعوام اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

شہر کے باسیوں کے دِل فضولیات سے لتھڑے ہوئے ہیں اور اِن کے راہنما (سیاسی) خود بدنامی کے طوق گلے میں ڈالے ان کی نمائندگی کر رہے ہیں ، عوام کے نمائندوں کو اعوام کی فکر نہیں اور اعوام کو اپنے حقوق سے کُچھ سروکار نہیں، یہ اپنی دھن میں مست ہیں اور وہ اپنے دھندے میں مصروف۔ اے وطن خُدا تُجھے آباد رکھے لیکن حالات چیخ چیخ کر بربادی کی وعید سناتے ہیں ، اِس ہستے بستے گلستان کو برباد کرنے کے لیے بس ایک ہی اُلّو کافی تھا مگر سوچیے یہاں تو ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجامِ گلستان کیا ہوگا؟

Check Also

The Prime Ministers

By Rauf Klasra