Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Javed Naqvi
  4. Aik Aur Lifafa Sahafi Mar Gaya

Aik Aur Lifafa Sahafi Mar Gaya

ایک اور لفافہ صحافی مر گیا

بحث جاری تھی، ڈرائنگ روم میں موجود تمام لوگ ایک ہی بات بار بار کر رہے تھےکہ صحافی کرپٹ ہوتے ہیں، لفافے لیتے ہیں۔ عوام غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، لیکن بکاؤ میڈیا یہ سب نہیں دیکھا رہا کیونکہ لفافے پکڑ لیے ہیں۔ میڈیا میں کام کرنے والوں کی جیبیں نوٹوں سے بھری ہیں۔ احمد انھیں سمجھا رہا تھا نہ تو سب صحافی کرپٹ ہیں اور نہ سب کی جیبیں بھری ہیں، میڈیا میں کام کرنیوالے بھی دوسروں کی طرح مسائل کا شکار ہیں۔ نیوز چینلز اور اخبار کی پالیسی مالکان بناتے ہیں۔ مالکان، پروگرام اینکر اور صحافی میں فرق ہے۔ لیکن اس کی آواز نقار خانے میں طوطی کی صدا تھی۔

عید کی آمد آمد تھی، لوگوں کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں، سوائے ایک احمد کے۔ احمد جس اخبار میں کام کر رہا تھا، وہاں چھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی۔ احمد کی بیوی ایک اچھی پڑھی لکھی خاتون تھی، ٹیوشن پڑھا کر کسی نہ کسی طرح زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہی تھی۔ عزیز رشتہ داروں پر ان کا ایک بھرم قائم تھا۔ ایک ایک کرکے بیوی کے زیور بک گئے۔ پھر گھر کی چیزیں بکنے کی باری آ گئی۔

ہر ماہ باقاعدگی سے آنے والے بجلی کے بلوں اور بچوں کی فیسوں نے اسے ذہنی کرب میں مبتلا کر دیا تھا۔ احمد کی طرح اخبار میں کام کرنیوالے اس کے ساتھی دن میں کئی مرتبہ اکاؤنٹس سیکشن میں جا کر پوچھتے تنخواہ کب آئے گی؟ انھیں ایک ٹکا سا جواب مل جاتا جب آئے گی مل جائے گی۔ کئی مرتبہ احتجاج کا پروگرام بنایا، لیکن سفید بالوں والے یہ سوچ کر ڈر جاتے اب اس عمر میں کہاں نوکری کرنے جائیں گے۔

ایک طرف عید پر نئے کپڑوں کے لیے بچوں کی فرمائشیں اور دوسری طرف پیٹ کی آگ بجھانے کی بنیادی ضرورت۔ کئی ماہ کرب میں گزارنے کے بعد احمد کی ہمت اور آس ٹوٹ چکی تھی۔ کل عید ہے اور جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ آج گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں تھا، احمد کے ذہن میں کشمکش جاری تھی، آخر کار اس نے فیصلہ کر ہی لیا، روز روز کی اس اذیت سے نجات حاصل کر لی جائے۔ دفتر سے واپسی پر اس نے خود کو ایک تیز رفتار ٹرک کے حوالے کر دیا، عید کے دن اسے چندہ جمع کرکے قبر میں اتار دیا گیا۔

احمد کی موت کو بیس سال بیت گئے، اس دوران اور بھی بہت سے لوگوں نے موت کو گلے لگا لیا۔ احمد کے دوست اقبال کو آج وہ بہت یاد آ رہا تھا، کل عید ہے، لیکن میڈیا میں کام کرنیوالوں کی جیبیں خالی، گھر میں بھی ہے تو فقط نام رب کا۔ کچھ خالی پتیلیاں اور چند مٹھی آٹا۔ نیوز چینل میں موجود ہر شخص پریشان تھا۔ مالکان نے یقین دلایا تھا عید سے چند دن پہلے تنخواہ مل جائے گی، لیکن وہ خود عید منانے سوئٹزر لینڈ چلے گئے۔ اکاؤنٹس سیکشن کے باہر ایک ہجوم اکٹھا تھا، زیادہ تر کی آنکھوں میں نمی اور چہروں پر پھیلی مایوسی۔

اقبال نے کچھ دوستوں پر نظر ڈالی، انھیں اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا، ایک کونے میں لے جا کر نوٹوں سے بھرے لفافے ایک ایک کرکے ان کے حوالے کیے، کندھے زور سے تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ تنخواہ ملتے ہی یہ پیسے واپس کر دینا یہ میری عمر بھر کی جمع پونجی ہے۔ سب دوست اسے احسان مندی کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔

سہیل کہاں ہے نظر نہیں آ رہا، اقبال نے پوچھا۔

سہیل بہت سلجھا ہوا نوجوان تھا، چند سال پہلے ہی شادی ہوئی تھی، وہ کئی دنوں سے بچوں کے لیے کھلونے اور بیوی کے لیے سوٹ خریدنے کی پلاننگ کر رہا تھا، اس کے لیے اس نے اقبال سے بھی مشورہ کیا تھا۔ سہیل نے گاؤں جانا تھا آج آخری بس کا ٹائم پانچ بجے کا تھا، تنخواہ تو نہ ملی لیکن وہ گھر چلا گیا۔ وقار بولا، اقبال نے جلدی سے اپنے موبائل فون سے سہیل کا نمبر ملایا۔ بیل مسلسل جا رہی تھی لیکن سہیل نے فون نہ اٹھایا۔ چوتھی کوشش پر فون اٹھا لیا۔

ہیلو سہیل میں اقبال بول رہا ہوں۔ تم کہاں ہو؟

دوسری طرف سے آواز آئی میں سہیل نہیں بول رہا جس کا یہ فون ہے وہ بس کے نیچے آ کر مر گیا ہے۔ آپ بس اڈے پر آ جائیں۔

موبائل فون اقبال کے ہاتھوں سے چھوٹ کر نیچے گر گیا۔

لفافہ پکڑے دوستوں نے گھبرا کر پوچھا کیا ہوا؟

اقبال کی آنکھوں سے مسلسل آنسو رواں تھے، بولا کچھ نہیں ہوا، ایک اور لفافہ صحافی مر گیا۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali