Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Aisha Fawad
  4. Zara Nam Ho To Ye Mitti

Zara Nam Ho To Ye Mitti

ذرا نم ہو تو یہ مٹی۔۔

آج کل جسے دیکھیں وہ گرمی اور مہنگائی دونوں کے ہاتھوں پریشان نظر آتا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ گرمی زیادہ ظالم ہے کہ مہنگائی۔ مہنگائی کا یہ عفریت ہماری زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اپنی لپیٹ میں لیے چلا جا رہا ہے اور ہم اسکے ہاتھوں بے بس نظر آتے ہیں۔ روز بروز بڑھتا ہوا موسم کا درجہ حرارت اور مہنگائی ہم سب کو پریشان کئے ہوئے ہے۔

ہم پاکستانی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر پریشان نہیں ہوتے جب تک کہ پانی ہما رے سر سے نہ گزر جائے۔ ہم تو زندہ دلی سے جینے والے لوگ ہیں۔ ان دنوں بہت سے مثبت سوچ کے حامل افراد بھی مضطرب دیکھنے لگے ہیں اور کیوں نہ ہوں یہ سب آخر وہ بھی تو جھیل ہی رہے ہیں۔ اپنی دسترس سے چیزوں کو جاتا دیکھنا آسان نہیں ہے۔ ہم اپنے ہاتھ جن ضرورت کی چیزوں کی طرف بڑھاتے ہیں، پتا لگتا ہے کہ انکی تو قیمت اب پہلے سے بھی زیادہ ہوگئی ہے حالانکہ وہ تو بنیادی ضرورت کی اشیاء ہیں اور کسی طرح بھی آسائش کے زمرے میں نہیں آتی۔

ہماری عقل اس وجہ کو سوچنے سے قاصر ہے کہ آخر مہنگائی کا یہ طوفان کس طرف کو جا رہا ہے اور اسکا حل ہے بھی یا نہیں ہے۔ سب سے زیادہ پسنے والا طبقہ مڈل کلاس ہے جس نے پاؤں تو اپنی چادر دیکھ کر ہی پھیلانے ہیں مگر آخر پھیلانے تو ہیں۔ انہوں نے اپنا بھرم بھی رکھنا ہے اور گھر کو بھی۔ کس چیز کو پورا کریں اور کس چیز سے نظر چرانی ہے۔ سارا دن اسی شش و پنج میں گزر جاتا ہے۔ جتنی بھی دوڑ دھوپ کر سکتے ہیں کر رہے ہیں مگر اخراجات ہیں کہ قابو ہی میں نہیں آ رہے۔ ایسے میں جو کبھی موسم کو دیکھ کے دل بہلاتے تھے اب وہ موسم بھی نظر نہیں آتا۔

باہر نکلو تو لو کے تھپیڑے ہیں اور گھر آو تو پنکھے آگ پھینک رہے ہوتے ہیں جو گھڑ ی بھر کو کولر یا اے سی لگا ہی لو تو بل دیکھ کر دماغ ابلنے لگتا ہے۔ کیا مشکلات نے صرف ہمیں ہی دیکھ لیا ہے؟ کبھی دل کرتا ہے ملک سے نقل مکانی ہی کر جائیں شاید کہ کچھ بہتری آ جائے مگر اس دل کا کیا کریں جو اس پاک سر زمین کو چھوڑنا ہی نہیں چاہتا۔ وہ ملک جدھر ہمارے آباو اجداد رہتے تھے اور جس ملک کا وہ ذکر کرتے تھے اسکی تو مٹی سے بھی خوشبو آتی تھی۔ اسکے تو لوگ بھی سیدھے سادھے اور پیار کرنے والے تھے۔ اس وقت تو موسم بھی حسین تھے اور پیسے میں بھی برکت تھی۔ اب برکت کیوں اٹھتی جا رہی ہے؟ کیوں سکوں کی کمی ہے؟

شاید ہم خوب سے خوب تر کی تلاش میں تھے، ہم اپنی زندگی کا مقابلہ دوسروں سے کر رہے تھے، ہم نے مادی چیزوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تھا۔ ہم اپنی پہچان بھول گئے تھے اور مغربی تہذیب کی اندھا دھند تقلید نے ہمیں آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی میں سکون اور برکت ختم ہوگئی ہے اور نہ صرف موسم کے درجہ حرارت بڑھنا شرو ع ہو گئے ہیں بلکہ روزو شب کا چین بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ سنبھل جائیں ہم اور اور اپنی صلاحیتیوں کا درست استعمال کریں۔ اپنے ملک کی نوجوان نسل کے لئے ایسے وسائل کا اہتمام کریں کہ وہ اپنے ملک کی بہتری کے لیے کوشاں ہوں نہ کہ ملک سے باہر جانے کے لیے پر تولیں۔ ہمارے پاس ہنر، محنت اور لگن کی کمی نہیں ہے، کمی ہے تو مثبت سوچ کی، آپس کے تعاون کی اور بہتر وسائل کی۔ تھوڑا سا اس ميں پیار اور خلوص کی کھاد ڈال ديں تو یہ موسم بھی بدل جائیں گے اور حالات بھی۔

اللہ بھی ایسے قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود کوشش نہ کرے۔ تو ہمیں بھی کوشش کرنی ہے اور ہمّت نہیں ہارنی۔ اللہ سے مدد ما نگنی ہے کہ اس سے مانگ کے تو کوئی محروم نہیں رہتا اور پھر آج نہیں تو کل سب ہی ماں جا ئیں گے کہ

ذرانم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari