Neelgon Panion Ka Safar (5)
نیلگوں پانیوں کا سفر (5)
لاونج میں اپنی فلایٹ کے انتظار میں بیٹھے لوگ محو حیرت تھے کہ آخر یہ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔ یہ آندھی طوفان کی مانند خاتون کس سمت کو بھاگ رہی ہے؟ کاونٹر پر کھڑے افسر نے میری دوڑيں دور سے ہی دیکھ کے معاملے کی نزاکت بھانپ لی تھی۔ اس نے میرے ہاتھ سے پاسپورٹ لیا اور جلدی سے مہر لگائی اور مجھے جانے کا اشارہ کیا میں پھر سے اس ہاتھی کی سونڈ جیسی سرنگ میں گھس گئی اور اسی طر ح بے وزنی کی حالت میں اسميں بھاگنا شروع کردیا۔
اتنی حواس باختگی کے عالم میں بھی دھیان اس لیمپ میں پھنسے بھالو کی طرف گیا کہ وہ اگر ادھر بھاگے تو ایسے ہی حالت ہو جیسے اس وقت میری ہے اور بس پھر جو قہقے میرے حلق سے جاری ہوئے، الامان الحفیظ۔ کبھی کبھی انسان اکیلا ہی کافی ہوتا ہے مزے کرنے کو، پھر سے بچہ بننے کو، ہر لمحے سے لطف اٹھانے کو اور بس وہی ایک لمحہ اس وقت میں نے تلاش لیا تھا اور وہ بچہ جسکو زندگی کی بڑھتی ہوئی الجھنوں اور کبھی نہ ختم ہونے والے کاموں کے انبار تلے، مدت پہلے تھپک تھپک کے سلا دیا تھا آج پوری طرح سے نہ صرف جاگ رہا تھا بلکہ شرارت بھی کر رہا تھا۔
خیر بھاگتی دوڑتی میں جیسے ہی جہاز میں داخل ہوئی، میرے اندر گھستے ہی جہاز کا دروازہ ایک زور دار آواز سے بند کر دیا گیا جس کا مطلب ہے کہ میں واقعی آخری مسافر تھی جس کا جہاز میں انتظار ہو رہا تھا اور بار بار اعلان بھی کروایا جا رہا تھا۔ اب ایئر ہوسٹس نے مجھے مسکرا کر گریٹ کیا اور میری ٹکٹ دیکھتے ہوئے مجھے میری نشست بتائی اور میں نے اس کے بتائے ہوئے راستے کی طرف چلنا شروع کیا۔
باقی مسافر مجھے کینہ توز نظروں سے دیکھ رہے تھے اور سونے پے سہاگہ ان میں سے کوئی بھی میری طرح نہیں تھا۔ سب گورے تھے اور سب جوڑے بھی تھے۔ میں نے نشست پر بیٹھ کر اب جو اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو کیا دیکھا کہ سب پانیوں کے شہر میں ڈبکیاں لگانے کو بالکل تیار تھے۔ مکمل طور پر ایک دوسرے میں گم اور میں تو خیر ہو ہی گئی تھی گم سم۔ خیر جی اعلان ہوا کہ جہاز اڑان بھرنے کو ہے، بیلٹس باندھ لیں اور اپنی نشست پر تشریف رکھیں تو اب کے بیلٹ باندھنے میں کافی فرق تھا کیونکہ سب اپنی اپنی مدد آپ کے تحت نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کو اپنے اپنے ساتھی کی بیلٹ باندھ رہے تھے اور میں صرف اپنی۔
ہولے ہولے جہاز چلنا شرو ع ہوا، پھر تیز بھاگنا اور پھر کچھ دیر بعد ہی اس نے اڑان بھر لی۔ اس اڑان میں ایک عجیب سی بے خودی تھی، سرشاری تھی اور نیلے پانیوں کی ٹھنڈک تھی۔ دھیرے دھیرے سرگوشیاں ہو رہی تھیں، تھوڑے تھوڑے وقفے سے کچھ قہقہے بھی پھو ٹتے تھے اور کبھی کبھی کن اکھیوں سے وہ سب انجان جوڑے مجھے بھی تکتے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں۔ خیریت تو تھی، کیسے آ نا ہوا؟ اب پھر سے جہاز میں وہ بےخود کرنے والے لذیذ کھانوں کی خوشبو چار سو چکرانا شروع ہوگئی تھی اور میرا اپنا حساب کتاب بھی کہ کیا کھانا ہے اور پہلے جوس پیوں کہ نہ پیوں۔
اتنے میں پھر سے ٹرالی آتی ہوئی دکھائی دی اور اس بار مختلف بات یہ تھی کہ ٹرالی لانے والا فلایٹ اٹینڈنٹ تھا یعنی کہ خاتون نہیں تھی بلکہ ایک با اخلاق مرد تھا جو اپنی ذمّہ داری بڑی خوش اسلوبی سے نبھا رہا تھا۔ میری باری آتے ہی میں نے پھر سے عربی کھانا ہی چنا اور اس مہربان، خوش مزاج فلایٹ اٹینڈنٹ نے چائے بھی دو بار پلا دی کہ میرے اکیلے جانے کا خوف شاید اس نے بھانپ لیا تھا اور میرا دھیان چائے میں لگا دیا تھا جس کی وجہ سے وقتی طور پر میں باقی چیزیں بھول گئی تھی گھڑی پر آگے بڑھتا ہوا وقت، باہر بادل، اندر کی ٹھنڈک اور میرا اکیلاپن سب مدغم ہو چکے تھے۔
مزے دار اور گرم گرم کھانا پیٹ میں گیا اور اس کے ساتھ پیش کی گئی گرما گرم چائے نے ایسے کام دکھایا جیسے بچوں کو دئے جانے والے نیند کے شربت کام دکھاتے ہیں اور بچے نیند کے ہاتھوں ٹن ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی میں بھی نیند کی وادی میں اتر گئی۔۔ نیند بھی ماں کی گود کی طرح ہوتی ہے جس میں آپ اپنے سارے غم ساری فکریں کچھ دیر کے لیے بھول سے جاتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد میری آنکھ قسم قسم کی آوازوں سے کھلی تو دیکھا کہ سب لوگ اپنے مختصر لباس کو کچھ اور مختصر کر چکے تھے اور اب پوری طرح باہر متوجہ تھے۔
میں نے بھی انکی تقلید ميں جب کھڑکی سے باہر دیکھا تو کیا دیکھتی ہوں کہ ہر طرف نیلگوں پانی ہے، کہیں گہرا نیلا، کہیں سبزی مائل نیلا اور اسکے اوپر سبز سبز گھاس کے قطعات جو یقینا چھوٹے چھوٹے جزیرے تھے۔ اب میں بھی کافی مطمین سی تھی کیونکہ منزل قریب ہی تھی جو سفر میں نے کل رات کو شروع کیا تھا وہ تمام ہونے کو تھا۔ اس وقت پا کستان کے وقت کے وقت کے مطابق شام کے 4 بج رہے تھے اور پاکستان اور مالدیپ کا وقت ایک ہی ہے۔ یعنی وہاں بھی سہ پہر ہی کا وقت تھا۔۔ جہاز آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آنا شرو ع ہوگیا تھا اور اس کے ساتھ ہی سب لوگ اپنا اپنا سامان بھی سمیٹنا شروع ہو گئے تھے۔
اب اعلان بھی ہونا شرو ع ہوگیا تھا اور دوبارہ سب نے اپنی بیلٹس باندھ لی تھيں اور جہاز اب لینڈنگ کر رہا تھا۔ پانی اور قریب آتا جا رہا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ بھی اپنے مہمانوں کا منتظر ہے اور انکو بول رہا ہے۔ آؤ کہ یہ نیلگوں پانی تمہیں ہی ڈھونڈ رہا ہے کہ کب سے تم اسکی کھوج میں تھے۔ اب جہاز سڑکوں کے بےحد قریب اور با لکل اوپر سے گزرتے ہوئے، اس پانی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ایئر پورٹ پر دھیرے سے سرکتا ہوا اتر گیا۔
بادل کچھ اور قریب آ گئے تھے اور پانیوں کی ٹھنڈک بھی اب کافی قریب محسوس ہو رہی تھی اور پانیوں کے آس پاس موجود اس اپنے کی جانی پہچانی خوشبو بھی میرے چار سو چکرا رہی تھی۔ جس کے تعاقب میں میلوں دور کی مسافت طے کرکے آئی تھی۔ جہاز کے رکتے ہی میں نے جلدی سے باہر نکلنا شروع کر دیا تا کہ جلدی اتروں اور کاغذی کاروائی مکمل کروا لوں چنانچہ اس خوشبو کو مٹھی میں سمیٹے میں اس چھوٹے سے ائیرپورٹ کے لاونج میں پہنچ۔۔
جاری ہے۔۔